Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’چلتے ہو تو چمن کو چلئے، کہتے ہیں کہ بہاراں ہے!‘‘

Updated: September 16, 2023, 1:07 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

صرف اپنے بارے میں جاننے والا کچھ نہیں جانتا۔ اسی طرح جو صرف اپنے ملک کی بابت جانتا ہے وہ بھی کچھ نہیں جانتا، جانکار وہ ہے جو اپنےعلاوہ دوسروں کو بھی جانتا اور سمجھتا ہو۔

Japanese People are Exceptionally Organized and Traditional.Photo:INN
جاپان کے لوگ غیر معمولی طور پر منظم اور روایت پسند ہیں۔تصویر:آئی این این

جی ۲۰؍ کانفرنس کے سلسلے میں  بیرونی ملکوں  کے کم و بیش ۱۰؍ ہزار مندوبین ہندوستان آئے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں  تھا۔ حکومتی سطح پر اسے بہت بڑے اور غیر معمولی اجتماع کے طور پر ضرور پیش کیا گیا مگر عوام سے دریافت کیجئے کہ یہ جو عالمی میلہ لگا تھا اس میں  کیا ہوا تو ایک فرد بھی جواب نہیں  دے پائیگا۔ حکومتیں  ایسے مواقع یا تقریبات کو نہ تو عوامی اُمور کیلئے بروئے کار لاتی ہیں  کہ ایک دوسرے کے عوام کے عادات و اطوار کو سمجھا جائے اور اس سے کچھ سیکھا جائے نہ ہی ایک دوسرے کی تہذیبی و ثقافتی خصوصیات سے آگاہ ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ وقت کے ساتھ تمام ملاقاتیں ، میٹنگیں  اور کانفرنسیں  معاشیات کے اردگرد گھومنے لگی ہیں ۔ بیشتر عالمی فورموں  میں  یہی ہوتا ہے۔ مگر حکومتوں  سے اُمید ہی کیوں  رکھی جائے؟ اُنہیں   اقتدار عزیز ہے اور اقتدار کو براہ راست معاشیات سے مربوط کردیا گیا ہے اس لئے اکثر و بیشتر ملاقاتوں  اور میٹنگوں  کا مرکز و محور معاشی مفادات ہی ہوتے ہیں ، ان میں  ثقافتی لین دین کی بات کم ہی ہوتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہندوستانی ذرائع ابلاغ کو جی ۲۰؍ کے مندوبین میں  سے چند تک رسائی ملتی،اِن مندوبین کا انٹرویو کیا جاتا جو اپنے اپنے  ملکوں  اور وہاں  کے عوام کے بارے میں تفصیل بتاتے۔ اتنی بڑی کانفرنس کا کوئی فائدہ تو ملک کے عوام تک پہنچتا!
 دیگر ملکوں  کے بارے میں  جاننا نہ صرف دلچسپ ہوتا ہے بلکہ معلومات افزاء بھی۔ اِس کیلئے یا تو خود سفر کیا جائے یا دوسروں  کے اسفار کی روداد اور اُن کے تجربات و مشاہدات سے استفادہ کیا جائے۔ اس کا بہترین ذریعہ سفرنامے ہیں  جن سے دیگر ملکوں  کے عوام کے عادات و اطوار کا علم ہوتا ہے اور یہ راز کھلتا ہے کہ اگر وہ کامیاب ہیں  تو کیوں  ہیں ۔ اُردو میں  سفرناموں  کی کم و بیش دو سو سال کی تاریخ ہے (۱۸۳۷ء میں  یوسف خان کمبل پوش کا سفر نامہ ’’عجائبات فرنگ‘‘ اُردو زبان کے ابتدائی سفرناموں  میں  شمار کیا جاتا ہے)۔ مقام ِ حیرت و افسوس ہے کہ اہل اُردو نے کتابوں  سے کیا منہ موڑا، سفرناموں  کا مطالعہ بھی ترک کردیا جو دیگر ملکوں  کی سیر ہی نہیں  کراتے، نثری شہ پاروں  کا بھی درجہ رکھتے ہیں ۔ ابھی چند برس پہلے تک معاشرہ کے پڑھے لکھے گھرانوں  میں  دیگر کتابوں  کے علاوہ سفرناموں  کے نسخے بھی دکھائی دے جاتے تھے۔ اب نہ تو دیگر کتابیں  ہیں  نہ ہی سفرنامے۔ اس مضمون کے جن قارئین نے پڑھا ہے اُنہیں  یاد ہوگا کہ اُردو کے مشہور شاعر اور نثر نگار ابن انشاء نے ’’چلتے ہو تو چین کو چلئے‘‘ میں  کیسی معلومات افزاء باتیں  لکھی تھیں ۔ ایک مثال بصورت اقتباس ملاحظہ کیجئے: ’’۱۹۵۹ء میں  چین کے انقلاب کی دسویں  سالگرہ تھی، ۱۹۵۸ء کے اواخر میں  اس تقریب سے پیکنگ کے لوگوں  نے عزم کیا کہ وہ دس عظیم الشان عمارتیں  بنائینگے اور دس مہینے کے اندر بنائینگے تاکہ یکم اکتوبر ۱۹۵۹ء کو دسویں  یوم انقلاب پر وہ تیار ملیں ۔ ان عمارتوں  کی وسعت کااندازہ کرنا ہو تو یہ جانئے کہ ایک ایک میں  کئی کئی عمارتیں  سما جائیں ۔ ان دس عمارتوں  میں  ایک تو عوام کا تالارِ عظیم ہے جو اپنی وسعت میں  شاید دُنیا بھر میں  نظیر نہ رکھتا ہو۔ کوئی بڑا غیر ملکی مہمان، صدر مملکت یا وزیر اعظم وغیرہ آئے یا کوئی اہم تقریب ہو تو اس میں  جلسہ ہوتا ہے، اس کے کمرۂ طعام کا اندازہ اس سے کیجئے کہ پانچ ہزار آدمی بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں ۔ ہال کی بالکونیوں  میں  دس ہزار آدمیوں  کے بیٹھنے کی گنجائش ہے اور یہ مدوّر بالکنیاں  بلا ستونوں  کے قائم ہیں ۔‘‘
  ابن انشاء آگے لکھتے ہیں  کہ ’’اس عمارت کی تعمیر میں  چودہ ہزار آدمی، کاریگر اور کارندے وغیرہ تو لگے ہی تھے، پیکنگ کے لوگ بھی رضاکارانہ آکر کام میں  جٹ گئے۔ شاموں  کو اور اتوار وغیرہ کو ہزاروں  شہری آکر ہاتھ بٹاتے رہے او راب فخر سے کہتے ہیں  کہ ہاں  ہمارا ہاتھ بھی اس کی تعمیر میں  ہے۔ فیالکس گرین کہتا ہے کہ اگر یہ ہال دس سال میں  بھی پایۂ تکمیل کو پہنچتا تو تعمیرات کا ایک شاندار کارنامہ قرار پاتا لیکن دس ماہ میں  اس کا بننا عجوبہ سے کم نہیں ۔‘‘ 
 ’’چلتے ہو تو....‘‘ کی اولین اشاعت ۱۹۷۹ء میں  ہوئی تھی۔ اگر اسی سال کو ابن انشاء کے سفرکا سال مان لیا جائے تو یہ اب سے کم و بیش نصف صدی پہلے کی بات ہے جس سے علم ہوتا ہے کہ چینیوں  میں  کسی چیلنج کو قبول کرنے اور اُسے پورا کرنے کا حوصلہ آج کا نہیں  پُرانا ہے۔ کورونا کی وباء کے دور میں  ایسی خبریں  مشتہر ہوئی تھیں  جن میں  بتایا گیا تھا کہ چینیوں  نے محض دس دن میں  ایک ہزار بیڈ کا اسپتال تعمیر کرلیا۔ اس کی تعمیر ۲۳؍ جنوری ۲۰۲۰ء کو شروع ہوکر ۲؍ فروری ۲۰۲۰ء کو پایۂ تکمیل تک پہنچی تھی۔ اسے ہوشین شن اسپتال کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جب ہوشین شن اسپتال مدت ِتعمیر کی وجہ سے سرخیوں  میں  تھا تب بہت سوں  کو حیرت تھی مگر جن لوگوں  نے ابن انشاء کے سفرنامے میں  چین کے انقلاب کی دسویں  سالگرہ پر تعمیر ہونے والی عمارت کا تذکرہ پڑھ رکھا تھا اُنہیں  بالکل حیرت نہیں  ہوئی۔ وہ جانتے تھے اور مطالعہ کی وجہ سے جانتے تھے کہ اہل چین ایسا کرسکتے ہیں ۔ اُنہوں  نے ماضی میں  بھی ایسا کردکھایا تھا اور اب حال میں  بھی اتنی قدرت اور صلاحیت رکھتے ہیں ۔
 صاحبو، سفرناموں  یا دیس بدیس کےعوامی حالات جاننے کا ذوق ہی یہ آگاہی عطا کرتا ہے کہ سوئزر لینڈ کے لوگ صفائی ستھرائی، ایمانداری، محبت اور پابندیٔ وقت کے قدردان ہیں ، ان کے ہاں  خاندان کی بڑی اہمیت رہی ہے، والدین بچوں  کی زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوتے ہیں ، فن لینڈ کے لوگ مناظر فطرت سے غیر معمولی لگاؤ رکھتے ہیں ،اپنے ثقافتی ورثہ پر ناز کرتے ہیں  اور ماحولیاتی تحفظ کے تئیں  بے حد حساس ہیں ، جاپان کے لوگ غیر معمولی طور پر منظم اور روایت پسند ہیں ، وفاداری، شائستگی اور معاشرہ کے تئیں  ایک ایک شہری کی ذمہ داری کو بہت اہم تصور کرتے ہیں ، صبروتحمل اور عزم مصمم اُن کی خاص پہچان ہے، قانون ہاتھ میں  لینے سے ڈرنے نہ ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہیں  ہوتا، وہ اس سے بالاتر ہیں ، اُن میں  قانون کی پاسداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اسی لئے جاپان میں  جرائم کی شرح معمولی سے بھی کم ہے، نیدر لینڈ کے عوام ہمہ گیر مساوات پر رکھتے ہیں ، خود انحصاری، انکساری اور تحمل اُن کاشعار ہے۔ 
 کیا ہندوستانی سماج اور مسلم معاشرہ اَب دوسروں  سے سیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں  کرتا؟ کیا ہم اس کی توفیق گنوا چکے ہیں؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK