Inquilab Logo

ملک کا بدلتا سیاسی منظر نامہ اور مسلمان!

Updated: March 21, 2024, 11:47 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed

وطن ِ عزیز کی اکثریت آج بھی ملک کی مشترکہ تہذیب کی پاسداری کیلئے سینہ سپر ہے کہ ملک میں منافرت پھیلانے والوں کیخلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ لیکن اس تلخ سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر مٹھی بھر افراد ملک کے آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

حال میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ملک کی فضا دن بہ دن کس قدر مکدر ہوتی جا رہی ہے۔ اگرچہ وطن ِ عزیز کی اکثریت آج بھی ملک کی مشترکہ تہذیب کی پاسداری کیلئے سینہ سپر ہے کہ ملک میں منافرت پھیلانے والوں کیخلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ لیکن اس تلخ سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر مٹھی بھر افراد ملک کے آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور اس کیخلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہو رہی ہے نتیجہ ہے کہ اس طرح کے سر پھروں کا حوصلہ بڑھتا جا رہاہے۔ المناک پہلو یہ ہے کہ اب انتظامیہ میں شامل عملے بھی غیر آئینی حرکت انجام دے رہے ہیں اور ملک کے خاص طبقے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پہلا المناک واقعہ دارالحکومت دہلی کے اندر لوک میں رونما ہواہے کہ وہاں جمعہ کی نماز پڑھنے والے نمازیوں کو سجدے کی حالت میں اندر لوک تھانہ کی پولیس نے جس طرح زدوکوب کیا ہے وہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ غیر مہذبانہ فعل بھی ہے۔ واضح ہو کہ جب کبھی انتظامیہ کی جانب سے اس طرح کے غیرآئینی فعل کو انجام دیا جاتا ہے تو اس سے ایک طرف جس طبقے کے ساتھ حادثہ پیش آتا ہے اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ عدم تحفظ کا شکار ہو جاتاہے اور دوسری طرف ان سرپھروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جو جان بوجھ کر ملک میں بد امنی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ دہلی پولیس نے اقلیت مسلم طبقے کے نمازیوں کیساتھ بد سلوکی کرنے والے اور سجدہ کی حالت میں زدوکوب کرنے والے پولیس عملہ کو معطل کیا ہے لیکن اقلیتی طبقے کا مطالبہ ہے کہ اس عملہ کیخلاف قانونی کارروائی کرتے ہوئے اسے برخاست کیا جائے۔ یہ مطالبہ بالکل حق بجانب ہے کہ اس حقیقت سے لوگ باگ بخوبی واقف ہیں کہ معطل کرنا ہی کافی نہیں ہے بالخصوص پولیس محکمے میں تو اعلیٰ حکام اپنے ما تحت کے عملے کو بات بات پر معطل کرتے رہتے ہیں اور پھر اس کے معطل نامے رد کردیا جاتا ہے اس لئے معطل نامے کو کوئی بڑی سزا کے طورپر نہیں دیکھا جاتا۔ اگر محکمہ پولیس نے مسلمانوں کیخلاف واقعی غیر قانونی اور غیر انسانی فعل انجام دیا ہے تو اس کیخلاف بر خاستگی کی کارروائی ہی لازم معلوم ہوتی ہے تاکہ ملک میں یہ پیغام جائے کہ اس طرح کے غیر آئینی فعل کو انجام دینے والے سرکاری عملوں کیخلاف اس طرح کی کارروائی ہوسکتی ہے۔ 
بہر کیف! دہلی پولیس کی طرف سے مسلم طبقے کے وفد کو یقین دلایا جا رہاہے کہ محکمہ پولیس جلد از جلد ٹھو س کارروائی کریگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دہلی پولیس جو مرکزی حکومت کے زیر انتظام ہے وہ اس معاملے کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہے۔ دوسرا شرمناک واقعہ گجرات کی ایک یونیورسٹی میں رونما ہوا ہے وہاں بھی غیر ملکی مسلم طلباء کو نماز کی حالت میں مارپیٹ کی گئی ہے اور ان کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں۔ چونکہ یہ معاملہ غیر ملکی طلباء کے ساتھ پیش آیا ہے اسلئے یہ خبر بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی ہندوستان جیسے عظیم ملک کیلئے باعث ِ ندامت ثابت ہو رہی ہے۔ واضح ہو کہ گجرات یونیورسٹی کا واقعہ اس لئے سنگین ہے کہ یونیورسٹی احاطے میں یہ حادثہ ہوا ہے گرچہ یونیورسٹی انتظامیہ یہ دلیل دے رہی ہے کہ باہری افراد نے اس واقعے کو انجام دیاہے۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہرش سانگھوی نے پولیس عملے کے ساتھ ہنگامی میٹنگ کی ہے اور جانچ کر فوری کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دراصل گجرات یونیورسٹی میں افغانستان، ازبکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، بھوٹان، شام اور افریقی ممالک کے طلباء ہندوستانی وظیفے پر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ حکومت ہند ان غیر ملکی طلباء کو تعلیمی ویزا دیتی ہے اور انہیں ہر طرح کی آئینی آزادی فراہم کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جن ملکوں سے طلباء یہاں آتے ہیں ان میں مسلم طلباء بھی شامل ہوتے ہیں کہ مذکورہ ممالک میں اسلامی حکومت بھی شامل ہے لیکن حال کے دنوں میں ان طلباء کے ساتھ جس طرح کا تعصبانہ رویہ اپنایا جاتا رہا ہے اس کی شکایتیں بھی آتی رہی ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یونیورسٹی احاطے کے ہاسٹلوں میں رہنے والے طلباء اگر اپنے مذہبی فریضے کو انجام دے رہے تھے ماہِ مبارک رمضان میں اجتماعی طورپر نماز پڑھ رہے تھے تو اس پر بیرونی لوگوں کو اعتراض کیوں کر ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ گجرات پولیس نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ دو سوسے زائد بیرونی افراد یونیورسیٹی احاطے میں داخل ہو کر اس مذموم فعل کو انجام دیا ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ اس ساز ش میں کہیں نہ کہیں یونیورسٹی احاطے میں رہنے والے طلباء یا اسٹاف ضرور شامل ہیں ورنہ یونیورسٹی احاطے سے باہری لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اندرونی نظام میں مداخلت کرے۔ اگر یونیورسٹی انتظامیہ کو کسی طرح کا اعتراض تھا تو وہ تمام غیر ملکی طلباء کو طلب کرکے ہدایت دے سکتے تھے کہ وہ ہاسٹل میں نماز ادا نہ کریں لیکن ایسا نہ کرکے یونیورسٹی سے باہری افراد کو احاطے میں داخل ہونے کی اجازت دینا کئی طرح کے سوالات اٹھاتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ جس وقت ان مسلم طلباء کے ساتھ بد سلوکی ہو رہی تھی، ان کے کمروں میں توڑ پھوڑ ہو رہی تھی، ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل چھینے جا رہے تھے تو غیر مسلم طلباء نے ان مسلم طلباء کے ساتھ ہمدردی جتائی اور انہیں بچانے کی کوشش بھی کی مگر شرپسندوں نے ان غیر مسلم طلباء کے ساتھ بھی دھکا مکی کی۔ غیر ملکی طلباء پر حملے کا ویڈیو سوشل میڈیا میں وائرل ہوگیا ہے اور اس ویڈیو کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ایک منظم سازش کے ساتھ ان مسلم طلباء کو ہراساں کیا گیا ہے۔ ان کے سامان لوٹے گئے ہیں، ان کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ غیر ملکی نوعیت کا ہے اور اس طرح کے واقعات سے اپنے ملک کی شناخت مجروح ہورہی ہے لیکن اس طرح کے حالات کیوں کر پیدا ہوئے ہیں وہ جگ ظاہر ہے۔ ایک خاص طبقے کو نشانہ بنانے کے واقعات میں روز بروز اضافے ہو رہے ہیں، وقتی طورپر ہائے توبہ ہوتی ہے اور پھر سارے کے سارے معاملے سرد خانے میں ڈال دئیے جاتے ہیں۔ نتیجہ ہے کہ شرپسندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور ملک میں خوف وہراس کا ماحول بنتا جا رہاہے۔ اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا صرف ایک طبقے کی بے عزتی اور اس کو جسمانی وذہنی اذیت دینے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے دور رس نتائج ملک کی سا لمیت کیلئے بھی خطرناک ہیں۔ بالخصوص ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ایسے غیر جمہوری اور غیر آئینی واقعات کا رونما ہونا لمحۂ فکریہ ہے اور اس طرح کے واقعات کو انجام دینے والوں کیخلاف جب تک تمام تر ازم اور مفادات سے اوپر اٹھ کر کارروائی نہیں ہوگی اس وقت تک ملک میں اس طرح کے واقعات کو انجام دینے والے بے لگام رہیں گے اور پوری دنیا میں وطن ِ عزیز ہندوستان کی جو تاریخی با وقار شناخت ہے اس پر سوالیہ نشان لگتا رہے گا۔ اسلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملک کی فضا کو سازگار بنانا ہوگا تاکہ ملک کا کوئی طبقہ خوف و ہراس کی زندگی جینے پر مجبور نہ ہو کہ ہمارے آئین میں ہر ایک شہری کو آئینی دائرے میں آزادانہ زندگی جینے کا حق دیا گیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK