Inquilab Logo

یورپ میں بھی چین کا بڑھتاعمل دخل

Updated: April 19, 2023, 12:38 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

میکرون نے سوچ سمجھ کر اور اپنے ملک کے مفادات کو مدنظر رکھ کر چین سے دوستی مستحکم کی ہے۔ فرانس کو اس بات کی بھی پروانہیں ہے کہ اس کے منفی اثرات امریکہ کے ساتھ تعلقات پر پڑیں گے۔ میکرون نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یورپی ممالک یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا تائیوان پر چین کے ساتھ کشیدگی بڑھانا ہمارے مفاد میں ہے۔

China
چین

پچھلے ماہ روس کے اپنے دورے کے اختتام پر چینی صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے جدا ہوتے وقت دعویٰ کیا کہ دنیا میں ایسے تغیرات رونما ہونے والے ہیں جو گزشتہ سو برسوں میں نہیں ہوئے تھے۔ پوتن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے چینی صدر نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’ ہم دونوں مل کر یہ تبدیلی لارہے ہیں۔‘‘ جن پنگ نے دراصل مغرب کو یہ پیغام دیا کہ اب امریکہ کی عالمی دادا گیری زیادہ دنوں تک نہیں چلنے والی ہے کیونکہ اب ایک نیا ورلڈ آرڈرمعرض وجود میں آرہا ہے۔ 
 ایسا لگتا ہے جن پنگ کی پیشن گوئی کے پندرہ دنوں کے اندرفرانس کے صدرایمینوئل میکرون نے بیجنگ کاسرکاری دورہ کرکے جن پنگ کے دعوے کی تصدیق کردی ہو۔ اس بے حد کامیاب دورے کی اہمیت اس وجہ سے اور بھی بڑھ گئی کہ یورپین کمیشن کی سربراہ ارسلا وون دیر لیئن بھی میکرون کے ہمراہ تھیں۔ فرانس کے صدرنے اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد جو بیانات دیئے ہیں ان سے مغرب میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ میکرون نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کردیا کہ یورپ کو امریکہ پر انحصار کم کردینا چاہئے اور تائیوان تنازع کے حوالے سے چین اور امریکہ کے درمیان کسی ممکنہ تصادم میں یورپ کو کسی صور ت ملوث نہیں ہونا چاہئے۔ چین کے تین روزہ دورے سے واپسی کے سفر میں فرانسیسی صدر نے ہوائی جہازمیں جو انٹرویو دیا اس سے بحر اٹلانٹک کے دونوں جانب (یورپ اور امریکہ میں) ایک بڑا تنازع پیدا ہوگیا ہے۔پچھلے کئی برسوں سے میکرون یورپ کی ’’اسٹریٹیجک خود مختاری‘‘ کی پرزور وکالت کررہے ہیں۔ 
  ہم دیکھ رہے ہیں کہ اقوام عالم میں امریکہ کا دبدبہ لگاتار کم ہورہا ہے اور چین کا اثر و رسوخ لگاتار بڑھ رہا ہے۔مشرق وسطیٰ جہاں امریکہ کے حکم کے بغیر ایک پتہ تک نہیں ہلتا تھا وہاں پچھلے ماہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت ہوگئی جس کی واشنگٹن کو کانوں کان خبر تک نہ ہوسکی۔ امریکہ کے دیرینہ اتحادی سعودی عرب نے اس کی مرضی کے خلاف اس کے دیرینہ دشمن ایران کے ساتھ ہاتھ ملاکر صدر جو بائیڈن کو کتنا بڑا سیاسی، اقتصادی،سفارتی اور تزویراتی جھٹکا دیاہے اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ واشنگٹن کی پریشانی کی وجہ یہ بھی تھی کہ مشرق وسطیٰ کے دو پرانے حریفوں نے باہمی دشمنی بھلاکر سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ جس ملک کی سرپرستی میں کیا اس کا نام چین ہے۔ ایشیا اورافریقہ کے بعد چین یورپ میں اپنا اثرو رسوخ تیزی سے بڑھا رہا ہے اور اس نئی صورتحال سے امریکہ کی راتوں کی نیند اڑنے والی ہے۔
 پچھلی صدی میں سوویت یونین امریکہ کا دشمن تھا۔ اکیسویں صدی میں چین نے وہ جگہ لے لی ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میں امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے تعلقات میں سرد مہری آگئی تھی تاہم یوکرین پر روسی چڑھائی نے ایک بار پھر واشنگٹن اور یورپی اتحادیوں کی قربتیں بڑھادی تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ برطانیہ، جرمنی، فرانس جیسے ممالک بائیڈن کے اشاروں پر ناچنے لگے ہیں۔ لیکن امریکہ اور مغرب کے توقعات کے برخلاف جنگ طویل ہوگئی اور یورپ اس کے اقتصادی نتائج سے بری طرح نڈھال ہوگیا۔ میکرون کے چین کے دورے کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ میکرون نے سوچ سمجھ کر اور اپنے ملک کے مفادات کو مدنظر رکھ کر چین سے دوستی مستحکم کی ہے۔ فرانس کو اس بات کی بھی پروانہیں ہے کہ اس کے منفی اثرات امریکہ کے ساتھ تعلقات پر پڑیں گے۔ میکرون نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ یورپی ممالک یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا تائیوان پر چین کے ساتھ کشیدگی بڑھانا ہمارے مفاد میں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یورپ کو آنکھیں موند کر امریکہ کی اطا عت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی پرائے بحرانوں میں پھنسنے کی ضرورت ہے۔کچھ یورپی اور امریکی لیڈروں اورمغربی تجزیہ کاروں نے میکرون کے ان بیانات کی تنقید کی ہے اور انہیں یورپ اور امریکہ کے تاریخی اتحاد اور دوستی کے منافی قرار دیا ہے۔
  یورپی لیڈران کو یہ حقیقت سمجھ آگئی ہے کہ چین کے ساتھ ٹکرانا امریکہ کی مجبوری ہوسکتی ہے کیونکہ اسے اپنی عالمی بالادستی چھن جانے کا خدشہ ہے لیکن یورپ اس پرائی آگ میں اپنا دامن کیوں جلائے۔ ویسے بھی چین کے ساتھ سفارتی، سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات مضبوط کرنا یورپ کے مفاد میں ہے۔چین اس وقت یورپی یونین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ بائیڈن کو یقین تھا کہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں پوری دنیا اور خصوصاً پوری مغربی دنیا امریکہ کے ساتھ شانے سے شانہ ملاکر روس اور چین کے خلاف ایک متحدہ محاذ بنالے گی۔ لیکن یوکرین جنگ کے عالمی اثرات امریکی صدر کے توقعات کے برعکس مرتب ہونے لگے ہیں۔
   چند روز قبل برازیل کے صدر لوئی اناسیو لولا ڈی سلوا نے بیجنگ میں شی جن پنگ سے مذاکرات کے بعد امریکہ کو یہ مشورہ دیا کہ وہ یوکرین کی جنگ کو ہوا دینا بند کرے اور مذاکرات کے ذریعہ امن کی راہ تلاش کرے۔ فرانس کے صدر نے تو یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر یورپی ممالک یوکرین کے بحران کا حل تلاش نہیں کرسکتے ہیں توپھر وہ کس منہ سے چین کو کہہ سکتے ہیں کہ تائیوان میں اگر کچھ گڑ بڑکی تو ہم اس سے جواب طلب کریں گے۔ یہاں یہ بتادینا ضروری ہے کہ یورپی یونین کے سخت دباؤ کے باوجود بیجنگ یوکرین میں روسی جارحیت کی مذمت کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔یورپی ممالک شی جن پنگ سے بار بار درخواست کررہے ہیں کہ وہ یوکرین کی جنگ ختم کروانے میں ان کی مدد کریں کیونکہ انہوں یقین ہے کہ پوتن کو صرف چینی صدر ہی ’’راہ راست‘‘پر لاسکتے ہیں۔شی جن پنگ نے امریکہ اور مغرب کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے پچھلے ماہ ماسکو کا دورہ بھی کیا اور پوتن کے ساتھ’’لامحدود دوستی ‘‘اور یکجہتی کا مظاہرہ بھی۔ میکرون اور جن پنگ کے مشترکہ اعلامیہ میں یوکرین میں امن کی تجویز تو تھی لیکن روس کا ذکر تک نہیں تھا۔ اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ پوتن کے ساتھ جن پنگ کی گہری دوستی کو نظر انداز کرکے یورپی یونین کے لیڈران چین کے ساتھ اپنے اپنے رشتے بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔
  پچھلی کئی دہائیوں سے بین الاقوامی امور کے رخ کا تعین امریکہ کرتا آیا ہے لیکن اب امریکہ کی اس دیرینہ بالا دستی کو عالمی سطح پر چین کے عروج سے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ مالی سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کے ذریعہ متعدد ممالک میں پہلے اپنی جگہ بنالینے کے بعد چین اب اقوام عالم سے اپنی سفارتی صلاحیتیں بھی منوانے پر آمادہ ہے۔ n

china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK