Inquilab Logo

چین ایک غیرمعتبر پڑوسی

Updated: June 25, 2020, 12:00 PM IST | Khalid Shaikh

تجارت کے معاملے میں چین ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا پارٹنر ہے لیکن یہاں بھی اس کا پلڑا بھاری ہے ۔ ۲۰۱۸ء ۔۲۰۱۹ء میں چین کیلئے ہندوستان کی برآمدات محض ۱۶ء۷؍ بیلین ڈالر تھی جبکہ ہندوستان میں اس کی درآمدات ۷۰ء۳؍ بیلین ڈالر تھی۔ جہاں تک فوجی لیاقت وقابلیت کا تعلق ہے تو چین یہاں بھی ہرشعبے میں آگے ہے۔

Boycott China - Pic : PTI
بائیکاٹ چین ۔ تصویر : پی ٹی آئی

 بی جے پی کا ہرلیڈربڑبولا اور ڈینگیا واقع ہوا ہے ۔ یہ لوگ مودی کے کہے کو پتھر کی لکیر اور اس کے دفاع کو فرضِ عین سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مودی اور قوم پرستی ہم معنی الفاظ ہیں اور قوم پرستی کی سندبانٹنے کا اختیار صرف انہیں حاصل ہے۔ چنانچہ جب کبھی مودی یا حکومت کے خلاف آواز اٹھتی ہے تو اگر وہ برادران وطن میں سے ہیں تو اس پر ملک دشمنی یا اربن نکسل کا اور اگر مسلمان ہے تو عذاری کا ٹھپہ لگادیا جاتا ہے۔ مودی کے دور میں اس اختیار کو اتنی فراخی سے استعمال یا گیا جس کی نظیر آزاد ہندوستان میں نہیں ملتی۔ 
  اس وقت مودی ملک کے سب سے طاقتور لیڈر ہیں لیکن اپنی ذات ے اسیر ہیں جسے نفسیات کی اصطلاح میں ’نرگسیت‘ کہتے ہیں۔ یہ وصف عموماً خود سراولوالعزم لوگوں میں پایاجاتا ہے جو صرف اپنی ذات کو کامل سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظم حکمرانی کے سارے اختیارات مودی نے اپنے دفتر کو دے رکھے ہیں۔ وزیراعظم ہونے کے ساتھ وہ بیک وقت وزیر خارجہ ، وزیر دفاع اور وزیر خزانہ کا کام بھی کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ ’ آل اِن وَن۔ وَن مین آرمی‘ ہیں۔ وزیراعظم بننے کےبعد  اب وہ عالمی صف کے لیڈروں میں اپنا نام رقم کرنا چاہتے ہیں۔ مئی ۲۰۱۴ء سے جون ۲۰۲۰ء تک انہوںنے ۵۹؍ غیرملکی دوروں میں ۶۰؍ سے زیادہ ممالک کا احاطہ کیا۔
  امریکہ واحد ملک ہےجہاں وہ کئی بار گئے۔ سابق صدر بارک اوبامہ کے وہ ذاتی دوست بتاتے تھے۔ ٹرمپ کے ساتھ ان کے تعلقات  ’’مَن ترا حاجی بگویم تو مرا ملاّ بگو‘‘ جیسے ہیں۔لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ سیاست میں کوئی کسی کا دوست یا دشمن نہیں ہوتا سب کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ یہ سبق حال ہی میں انہیں چینی صدر شی جِن پنگ نے سکھایا۔ جن سے وہ اب تک ۱۸؍ ملاقاتیں کرچکے ہیں۔   پاکستان کی طرح چین ایک غیر معتبر پڑوسی ہے جس کی طرف سے سے وقتاً فوقتاً سرحدی خلاف ورزیاں اور فوجی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ جارحیت چینی پالیسی کا لازمی عنصر ہے جس کا شکار ہندوستان سمیت چین کے تمام پڑوسی ممالک ہیں۔ ۱۵؍ جون کو لداخ کی گلوان وادی میں دونوں فوجوں کے درمیان جو خونیں تصادم ہوا وہ ۴۵؍ سال بعد ہونے والا پہلا بڑا تصادم تھا جس میں ہندوستانی کمانڈنگ افسر سمیت ۲۰؍ جوان مارے گئے۔ اس کے تانے بانے مئی ۔ جون میں ہونے والی ان دراندازیوں سے جاملتے ہیں جن کے ذریعے چینی فوجیں  خفیہ طورپر گلوان وادی میں داخل ہوئیں اور فوجی تعمیرات شروع کردیں۔ ہمیں حیرت اس پر ہے کہ اگر اکسٹرنل اور ڈیفنس انٹلی جینس ایجنسیوں سے چوک ہوئی تو سرحد پر متعین فوجی کیسے بے خبر رہے ؟ پلوامہ میں بھی یہی ہوا تھا جہاں دہشت گردوں نے ۴۰؍جوانوں سے بھری بس کو بم سے اڑادیا اور حکومت اپوزیشن کے اس سوال کا جواب دینے سے قاصر رہی کہ انتہائی سخت سیکوریٹی کے درمیان حملہ کیسے ممکن ہوا۔ ظاہر ہے دونوں سانحات انٹلی جینس ناکامی کا نتیجہ تھے ۔ پلوامہ کی تلافی بالا کوٹ سرجیکل اسٹرائیک سے کی گئی ۔ اپوزیشن کا منہ بند کردیا گیا اور عوام سے ’ مودی ہے تو ممکن ہے ‘ کے نعرے لگوائے گئے لیکن اس بار یہ ممکن نہیں کیونکہ چین پاکستان نہیں ہے۔ اس لئے عوام کے غم وغصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ’جملے بازی‘ سے ٹرخایا گیا اور ریمبو والے اندازمیں لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ بدلہ لیاجائے گا اور شرانگیزی کا منہ توڑ جواب دیاجائے گا۔ اس کے بعد عوام نے چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔
  ۲۵؍ سال پہلے  تک  اقتصادی طورپر چین بڑی طاقت نہیں تھا۔  اس کے بعد وہ مسابقتی میدان میں اترا اور سستی اور اعلیٰ کوالٹی کی مصنوعات کے ذریعے عالمی مارکیٹ پر قبضہ کیا۔ آج زندگی  کی ضرورت کا کوئی ایسا سامان نہیں جو چین میں نہ بنتاہو۔ اس نے اپنی مصنوعات کے ذریعے امریکہ کا ’کنزیومر مارکیٹ ‘ختم کردیا ہے اس لئے اگر چین کو اقتصادی طورپر زیر کرنا ہے تو ہمیں اس جیسا بننا ہوگا۔ جملے بازی یا انڈیا نامی دلکش اسکیموں، تالی یا تھالی پیٹنے یا دیا جلانے سے ’گوچائنا گو‘ نہیں ہوجائے گا نہ ہی ہندوستان کو آتم نربھر بنایاجاسکتا ہے ۔ تجارت کے معاملے میں چین ہندوستان کا دوسرا سب سے بڑا پارٹنر ہے لیکن یہاں بھی اس کا پلڑا بھاری ہے ۔ ۲۰۱۸ء ۔۲۰۱۹ء میں چین کیلئے ہندوستان کی برآمدات محض ۱۶ء۷؍ بیلین ڈالر تھی جبکہ ہندوستان میں اس کی درآمدات ۷۰ء۳؍ بیلین ڈالر تھی۔  جہاں تک فوجی لیاقت وقابلیت کا تعلق ہے تو چین یہاں بھی  ہرشعبے میں آگے ہے۔
  پلوامہ کی طرح گلوان معاملے میں بھی حکومت نے اپوزیشن  کو اعتماد میں نہ لے کر راہل گاندھی سمیت دیگر اپوزیشن لیڈروں کے سوالات واعتراضات کو تقویت پہنچائی ہے۔ انہیں خاموش کرنے کیلئے حکومت نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے آل پارٹی میٹنگ بلائی لیکن وہاں سوالات کا جواب دینے اور شبہات رفع کرنے کے بجائے لن ترانی شروع کردی کہ نہ ہی کسی نے ہندوستانی خطے میں گھس پیٹھ کی ہے نہ ہی کسی چوکی پر قبضـہ ہوا ہے۔ ان کا یہ بیان وزیر دفاع اور وزیر خارجہ کے بیان سے قطعی مختلف تھا جس میں گلوان میں بڑی تعداد میں چینی فوجوں کی دراندازی اور فوجی تعمیرات کی باتیں کہی گئی تھیں۔ نتیجتاً وزیراعظم کے دفتر کو صفائی دینا پڑی کہ وزیر اعظم کے بیان کا غلط مطلب نکالا گیا لیکن  اس سے جو نقصان ہونا تھا ہوگیا۔ چین نے اس کا فائدہ اٹھاکر ایک بار پھر گلوان کو اپنا حصہ بتایا۔مودی کے بیان نے وضاحت سے زیادہ کنفویژن پیدا کیا اور پلوامہ کی طرح گلوان کا رازبھی  سربستہ رہے گا۔
  تازہ خبر یہ ہے کہ فوجی سطح پر ہونے والی گفتگو کے بعد دونوں فوجیں متنازع علاقہ سے مرحلہ وار طریقے سے پیچھے ہٹنے پر آمادہ ہوگئی ہیں لیکن اس کیلئےکوئی ٹائم لائن نہیں طے کی گئی ہے۔ اس لئے خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ چین شرانگیزی سے باز نہیں آئے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہندوستان سے ملی نیپال اور پاکستان کی سرحد پر تناؤ بھی چین کی سازش  کا حصہ ہے۔

ladakh china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK