Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُردو کتابوں کی محدود اِشاعت پر فکر مندی

Updated: December 12, 2019, 10:25 PM IST | Dr Mushtaque Ahmed

اِس وقت اردو ایک ساتھ کئی مسائل سے دوچار ہے جن میں ایک بڑی وجہ سرکاری اور عوامی بے توجہی ہے۔ اترپردیش اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اس کے برعکس مہاراشٹر اورکرناٹک میں اردو بہت اچھی پوزیشن میں ہے کیونکہ ان دو ریاستوں میں اردو رسم الخط کو بچائے رکھنے کی شعوری کوشش کی جارہی ہے، جس کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں

(کتابیں ( تصویر: جاگرن
(کتابیں ( تصویر: جاگرن

اردو معاشرے میں اکثر اس بات پر فکر مندی ظاہر کی جاتی ہے کہ اب اردو کی کتابوں اور رسائل وجرائد کے قارئین کی تعداد میں روز بروز کمی واقع ہورہی ہے۔ بالخصوص ادبی اور علمی موضوع پر مبنی کتابوں کی خریداری مایوس کن ہے ۔ نتیجہ ہے کہ اب قد آور سے قد آورناقد وادیب اور شعراء کی کتابوں کی اشاعت کی تعداد پانچ سو سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بلکہ اب توالمیہ یہ ہے کہ سودو سو تک اردو کی ادبی اور علمی کتابوں کی اشاعت محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔
 اب جبکہ سائنس اینڈٹیکنالوجی کا انقلابی دور ہے اور ڈیجیٹل طباعت کی سہولت میسر ہو گئی ہے تو جتنی تعداد میں کتاب شائع کرنا چاہیں، ممکن ہے۔ پہلے جب لیتھو پریس کی طباعت کا زمانہ تھا تو ہزار سے کم کتابیں نہیں چھپتی تھیں اور مشہور ومعروف ادباء  وشعراء کی کتابیں ایڈیشن در ایڈیشن مسلسل شائع ہوتی رہتی تھیں۔اب تو شاذ ونادر ہی ایسے ادیب وشاعر کی کتابیں ایک ایڈیشن کے بعد دوسرے ایڈیشن کے مرحلے تک پہنچ پاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب تک بازارِ کتب میں اردو کتابوں کی نکاسی نہیں ہوگی، اس وقت تک کتابوں کی تعداد میں اضافہ بھی نا ممکن ہے۔ دراصل اس کی دو وجوہات ہیں ۔ اول تو معیاری کتابوں کا فقدان اور الّم غلّم کتابوں کی بھرمار ہے اور دوسری اہم وجہ اردو رسم الخط سے دور ہوتا ہوا اردو معاشرہ ہے ۔
 ہم جن علاقوں کو اردو بستی کے نام سے جانتے تھے، اس علاقے میں اردو رسم الخط جان کنی میں ہے۔ مثلاً اتر پردیش جہاں کبھی اردو نہ صرف رابطے کی زبان تھی بلکہ درس وتدریس کا وسیلہ بھی تھی لیکن آج رابطے میں تو ہے لیکن درس وتدریس سے بالکل کٹ کر رہ گئی ہے ۔ یوں تو آزادی کے بعد ہی اردو زبان تعصب کی شکار ہوگئی اور اتر پردیش میں اردو کے خلاف ماحول سازی ہوئی ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو مکتب کا نام ونشان ہی ختم ہو کر رہ گیا اور دیگر تعلیمی اداروں میں بھی اردو رسم الخط کے ذریعہ تعلیم ختم کر دی گئی۔ رہی سہی کسر تو انگلش میڈیم کے نجی اسکولو ں نے نکال دی۔شمالی ہند میں نجی اسکولوں کا جال بچھا اور اردو معاشرے کے بچے بھی اس کا حصہ بنے اور اپنی تہذیبی وراثت یعنی اردو کی تعلیم سے محروم ہوگئے ۔ البتہ جنوبی ہند میں مہاراشٹر اور کرناٹک میں اردو کے تحفظ کے لئے مسلسل کوششیں جاری رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان ریاستوں میں آج اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے اور اردو رسم الخط کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ بھی مین اسٹریم یعنی غیر اردو داں طلبہ سے کم نہیں ہیں۔ 
 بہر کیف! اس وقت میرا موضوع یہ ہے کہ اردو کتابوں کی اشاعت کی محدود ہوتی تعداد پر فکر مندی ظاہر کرنے سے زیادہ اردو رسم الخط کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ بین العلومی موضوعات پر کتابوں کی اشاعت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگرچہ مذہبی موضوعات پر کتابوں کی اشاعت اب بھی بڑی تعداد میں ہوتی ہے جیسا کہ بازارِ کتب کے اشاریہ سے پتہ چلتا ہے،اسی طرح شخصی اور مسائل وامکانات کے موضوع پر مبنی کتابوں کی فروخت کا مسئلہ بھی نہیں ہے۔
  حال ہی میں ۲؍ ایسی کتابیں سامنے آئیں جن کا محض دوتین ماہ کے عرصے میں دوسرا ایڈیشن سامنے آیا ہے ۔ اس میں ایک کتاب پروفیسر محمد سجاد کی ہے۔ واضح ہو کہ پروفیسر محمد سجاد کا تعلق اُردو زبان وادب کے شعبے سے نہیں ہے ۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں شعبۂ تاریخ سے وابستہ ہیں لیکن اپنی مادری زبان اردو سے والہانہ عشق رکھتے ہیں۔ اس لئے انگریزی اور ہندی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی لکھتے پڑھتے رہتے ہیں۔اخبار ورسائل میں عصری مسائل پر خوب لکھتے ہیں، اس لئے حال ہی میں ان کی کتاب ’’ہندوستانی مسلمان : مسائل وامکانات‘‘ شائع ہوئی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے بازارِ کتب میں ان کی کتاب کمیاب ہوگئی لہٰذا انہیں برائون پبلی کیشن سے دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا ہے۔ چوں کہ یہ پبلی کیشن اردو کی کتابیں بھی مغربی طرز کے گیٹ اپ میں شائع کرتا ہے شاید اس لئے بھی قارئین کی پسندیدگی کا سبب بنتاہے۔ موضوع کے اعتبار سے بھی یہ کتاب ہندوستانی مسلمانوں کے سماجی اور تعلیمی مسائل اور امکانات پر روشنی ڈالتی ہے اور عصری حالات سے مقابلہ کرنے کے نسخے بھی تجویز کرتی ہے ۔اسی پبلی کیشن سے اردو کے ایک نامور قلم کار پروفیسر شافع قدوائی کی کتاب ’’ سوانح سرسید : ایک بازدید‘‘کامحض دو مہینے کے عرصے میں دوسرا ایڈیشن شائع ہوا ہے۔سرسید کی ہمہ جہت شخصیت پر سیکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مضامین کا انبار ہے ۔ باوجود اس کے سرسید کی شخصیت اور ان کے افکار ونظریات سے دلچسپی رکھنے والوں کی تعداد میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ آج بھی سرسید کی عصری معنویت برقرار ہےجس کا اندازہ روز بروز سرسید سے متعلقہ کتابوں کی اشاعت سے ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر سجاد اختر ڈائریکٹر برائون بکس علی گڑھ نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ اردو میں ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور شخصی موضوعات پر مبنی کتابوں کے لئے بازار میں سازگار ماحول ہے البتہ مقابلہ کتابوں کی اچھی طباعت اور گیٹ اپ کا بھی ہوتا ہے ۔ کتاب صاف ستھری اور دیدہ زیب شائع ہو تو اس کی طرف قارئین کی توجہ مبذول ہوتی ہے۔ البتہ انہو ں نے ادبی کتابوں کی نکاسی کے معاملے میںسست روی کا اظہار کیا ۔ میرے خیال میں اردو زبان وادب سے متعلق بیشتر کتابیں جامعاتی اساتذہ اور ریسرچ اسکالر کی ہوتی ہیںاور جن میں پیش پا افتادہ مضامین کتابوں کی ضخامت میں اضافہ تو ضرور کرتے ہیں لیکن بازارِ کتب میں اس کا مطالبہ بہت کم ہوتا ہے ۔
  نتیجہ یہ ہے کہ کتابیں مفت تقسیم کی جاتی ہیں یا پھر سرکاری اداروں کے ذریعہ مخصوص اسکیموں میں خریدی جاتی ہیں ۔ سرکاری اداروں کے ذریعہ کتابوں کی خریداری سے صاحبِ کتاب کو مالی امداد تو ضرور مل جاتی ہے لیکن کتاب کی اشاعت کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے کہ وہ قارئین کے بڑے حلقوں تک نہیں پہنچ پاتی۔اس لئے اردو میں لکھنے پڑھنے والوں کو اس طرف بھی توجہ دینی ہوگی کہ وہ پیش پا افتادہ مضامین سے اپنا دامن بچائیں تاکہ کتاب معنوی اعتبار سے مفید ثابت ہو اورجدید سائنسی ٹیکنالوجی کے سہارے کتابوں کی اشاعت کو صوری اعتبار سے بھی دیدہ زیب بنائیں کہ وہ قارئین کو اپنی طرف متوجہ کر سکے۔میرے خیال میں اردو میں بین العلومی موضوعات پر کتابوں کا فقدان ہے۔ بس لے دے کر ادبی موضوع پر ہی کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ مختلف اردو اکیڈمیوں اوردیگر سرکاری اداروں  کے ذریعہ بھی ادبی کتابوں کی اشاعت کو فروغ دیا جا رہاہے ۔ البتہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی نے حالیہ دنوں میں دیگر موضوعات پر کتابیں شائع کی ہیں۔ چوں کہ کونسل کی کتابوں کی طباعت واشاعت بھی دیدہ زیب ہوتی ہے اسلئے اس ادارہ کی کتابوں کا بازار بھی بہت وسیع ہے۔ اسلئے دیگر اداروں کو بھی مطالبۂ بازارِ کتب کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ اردورسم الخط کے زندہ رہنے کی سبیل پیدا ہو سکےلیکن سب سے اہم مسئلہ تو اردو رسم الخط میں تعلیم کا ہے کہ اس سے اردو سماج محروم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے اور اس پر صرف انفرادی طورپرآنسو بہانے کی نہیں بلکہ اجتماعی فکر کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK