Inquilab Logo

کورونا، اومیکرون اور چین کا طرز عمل

Updated: December 24, 2022, 10:56 AM IST | Mumbai

چین سے اس لئے کچھ کہا سنا نہیں جاتا کہ کوئی بھی ملک ہزار اختلافات کے باوجود اس کی مخالفت نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس سے تجارتی مفادات متاثر ہونگے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

چین سے اس لئے کچھ کہا سنا نہیں جاتا کہ کوئی بھی ملک ہزار اختلافات کے باوجود اس کی مخالفت نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اس سے تجارتی مفادات متاثر ہونگے۔ ہم اپنے ملک کو دیکھ رہے ہیں۔ ہماری سرحدوں میں چین کی شرارتیں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں مگر ہم اس کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کرتے، شاید کرنا بھی نہیں چاہتے۔ اب تک کور کمانڈر سطح کی ۱۷؍ میٹنگیں ہندوستان اور چین کے درمیان ہوچکی ہیں مگر کوئی قابل ذکر نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ اُدھر امریکہ کا حال یہ ہے کہ چین اُسے ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر واشنگٹن بھی بیجنگ کی براہ راست مخالفت نہیں کرتا۔ اس کے باوجود یہ ضروری ہے کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے چین سے بازپرس کریں کہ کورونا یا اومیکرون سے نمٹنے کیلئے وہ کیا کررہا ہے۔ اُس سے ماضی میں کیا کچھ کیا گیا اس کی تفصیل بھی حاصل کی جانی چاہئے کیونکہ جب سے دُنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوئی ہے، کوئی بھی ملک تنہا نہیں رہ گیا ہے۔ وہ دوسروں سے بیگانہ بھی نہیں رہ سکتا کیونکہ مختلف ملکوں میں سیاحوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ تجارتی معاملات کے پیش نظر بھی لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہیں۔ تکنالوجی اور سائنسی اُمور کیلئے بھی آنا جانا جاری رہتا ہے۔ ایسے حالات میں زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہوائی اڈوں پر طبی معائنے کو سخت کیا جاسکتا ہے مگر ۲۰۲۰ء میں کیا ہوا تھا۔ سخت طبی معائنہ جاری ہونے سے پہلے ہی وائرس نہایت تیزی کے ساتھ اندرونِ ملک داخل ہوکرناقابل بیان مصیبت کھڑی کرچکا تھا۔ 
 ہم پھر کہہ رہے ہیں کہ چین کا طرز عمل قابل اعتبار نہیں ہے۔ وہاں کی حقیقی کیفیت کیا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم۔ جو اطلاعات مل رہی ہیں ضروری نہیں کہ وہ مکمل ہوں۔ ہم نہیں جانتے کہ ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں مگر اُصولاً ہونا چاہئے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا ایک اعلیٰ سطحی وفد چین کا دورہ کرے اور حقیقی صورت حال سے آگاہ ہو ۔ ’’دی ہندو‘‘ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ وہ تمام جگہیں جہاں آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں، بھیڑ سے پٹی پڑی ہیں۔ لمبی لمبی قطاریں ہیں تاکہ متوفین کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی، اسپتال عملہ پریشان ہے وہ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو قبول نہیں کرسکتا مگرسرکاری سطح پر روزانہ شرح اموات اب بھی یک عددی ہے یعنی ۹؍ یا اُس سے کم۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین بہت کچھ چھپا رہا ہے، یہی اس نے پہلے بھی کیا تھا جس کا نتیجہ قیامت خیز ثابت ہوا تھا۔ 
 جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، خدا کا شکر ہے کہ یہاں کورونا کے متاثرین کی تعداد معمولی سے بھی کم ہے۔ یہ تعداد اتنی نہیں کہ اس پر گفتگو بھی کی جائے۔ آئندہ کے حالات ان شاء اللہ اچھے ہی رہیں گے تاہم احتیاط کے طور پر ضروری ہے کہ ہوائی اڈوں پر اُترنے والے مسافروں کی طبی جانچ کو یقینی اور کسی بھی نقص سے پاک رکھا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے شہریوں میں بڑی تعداد دو ٹیکے لے چکی ہے، اس کے علاوہ ان میں ’’ہرڈ اِمیونٹی‘‘ بھی پیدا ہوچکی ہے اس لئے ہمیں زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت مہاراشٹر نے بھی گزشتہ روز اسمبلی میں یہ اعتراف کیا کہ ریاست میں کورونا قابو میں ہے اس لئے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سب بہت اچھی خبریں ہیں۔ اس کے باوجود اُمید کی جاتی ہے کہ ریاست اور ملک کے شہری جو کورونا کے ناگفتہ بہ حالات کا مشاہدہ کرچکے ہیں، احتیاط کو لازم رکھیں گے۔ اس موسم ِ سرما میں سردی زکام عام بیماریوں میں شامل ہے اسلئے سردی زکام کے بر وقت علاج پر خاص توجہ دینی چاہئے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK