Inquilab Logo

کیا امریکہ دیوالیہ ہوسکتا ہے؟

Updated: May 24, 2023, 10:18 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

اس وقت امریکی حکومت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور اگر کانگریس(پارلیمنٹ) قومی قرضے کی بالائی حد میں اضافہ کرنے کے لئے راضی نہیں ہوتی ہے یعنی حکومت کو مزید قرضہ لینے کی اجازت نہیں دیتی ہے تو ملک ڈیفالٹ کرجائے گا۔اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کے بھیانک نتائج بر آمد ہوں گے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

آپ کو یہ سن کر شاید حیرت ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ دنیا کا امیر ترین ملک امریکہ اس وقت ایک ایسی معاشی بے یقینی کا شکار ہے کہ اگر مسئلے کا جلد ہی کوئی حل نہیں نکالا گیا تو ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ یہاں میں یہ اضافہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ گرچہ مسئلہ بادی النظر اقتصادی لگتا ہے تاہم در حقیقت یہ سیاسی ہے۔ اس وقت امریکی حکومت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور اگر کانگریس(پارلیمنٹ) قومی قرضے کی بالائی حد میں اضافہ کرنے کے لئے راضی نہیں ہوتی ہے یعنی حکومت کو مزید قرضہ لینے کی اجازت نہیں دیتی ہے تو ملک ڈیفالٹ کرجائے گا۔اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کے بھیانک نتائج بر آمد ہوں گے،حکومت قرضوں پر سود ادا نہیں کرسکے گی، اپنی وفاقی ذمہ داریاں نبھانے کے لائق نہیں رہے گی اورلاکھوں امریکی عوام مصائب میں گھر جائیں گے اور امریکہ کی عالمی ساکھ کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔
  یہ صحیح ہے کہ امریکہ کی جی ڈی پی تقریباً۲۴؍ ٹریلین ڈالر ہے اور وہ ابھی بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ امریکی شہریوں کی اوسطاً فی کس آمدنی ۶۵؍ہزار ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ لیکن ان متاثر کن اعدادو شمار سے پرے بھی ایک امریکہ ہے جہاں افلاس بھی ہے بیماری بھی،جہاں بیکاری بھی ہے اور بے گھری بھی۔امریکہ میں لاکھوں ایسے خاندان ہیں جن کا انحصار سرکاری امداد پر ہے۔ بے شمار ایسے لوگ ہیں جو سوشل سیکوریٹی اور میڈی کئیر کے تحت ملنے والی سہولیات(جن میں رہائش، غذا، تعلیم اور طبی امداد شامل ہیں) سے مستفید ہوتے ہیں۔ اگر قومی قرضے کی حد کو یکم جون تک نہیں بڑھایا جاتا ہے تو حکومت ضرورتمند شہریوں کو یہ سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے گی، لاکھوں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور سابق فوجی اہلکاروں کے پنشن کی ادائیگی میں بھی رخنہ پڑسکتا ہے اور امریکی شہریوں کے بڑے پیمانے پر بے روزگار ہوجانے کا خطرہ بھی پیدا ہوسکتاہے۔
  امریکی نظام کے تحت قومی قرضوں کی بالائی حد طے کرنے اور اس میں اضافہ کرنے کا اختیار کانگریس(پارلیمنٹ) کو ہے۔ کانگریس کے ایوان زیریں جسے ایوان نمائندگان کہا جاتا ہے میں ووٹنگ کے ذریعہ ہی قرضوں پراس سال کے لئے مقررکردہ حد ۴ء۳۱؍ ٹریلین ڈالر کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ عام حالات میں یہ ایک روٹین کارروائی ہوتی لیکن اس بار کیپٹل ہل میں اس پر زبردست سیاسی رسہ کشی ہورہی ہے۔ بائیڈن کی پریشانی یہ ہے کہ ایوان نمائندگان میں ریپبلیکن پارٹی کی اکثریت ہے جو اس اقتصادی مسئلہ کو سیاسی محاذ آرائی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ ایوان نمائندگان کے ریپبلیکن اسپیکر کیون مکارتھی نے بائیڈن پر واضح کردیا ہے کہ جب تک وہ وفاقی اخراجات میں بھاری کٹوتی کے لئے تیار نہیں ہوں گے قرضوں کی حد نہیں بڑھائی جائے گی۔ وہائٹ ہاؤس کانگریس کی شرطیں ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ہندوستان کی کانگریس پارٹی کی طرح امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی سماج کے کمزور اورپس ماندہ طبقے کو سرکاری مراعات فراہم کرنے میں یقین رکھتی ہے جبکہ ریپبلیکن پارٹی ضرورتمند شہریوں کو دی جانے والی امداد کو ہماری بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرح مفت کی ریوڑیاں قرار دیتی ہے۔دو سال قبل کووڈکی وجہ سے غربت کا شکار ہونے والے کنبوں کے بچوں کے لئے بائیڈن حکومت نے تین سو ڈالر ماہانہ وظیفہ دینے کا فیصلہ کیا تو ریپبلیکن اراکین نے کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اس فلاحی اسکیم کی پرزور مخالفت کی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا موقف یہ ہے کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کی زندگیوں میں بہتری لائے۔ اس کے برعکس ریپبلیکن جسے گرینڈ اولڈ پارٹی یا ’جی او پی‘ بھی کہا جاتا ہے کا نظریہ ہے کہ سرکاری امداد کی فراہمی سے شہریوں کو مفت خوری کی عادت لگ جاتی ہے اور وہ کاہل ہوجاتے ہیں۔ ریپبلیکن سمجھتی ہے کہ صحت اور سوشل سیکوریٹی پر اسی رفتار سے خرچ کیا جاتا رہا تو ریاست کا خزانہ خالی ہوجائے گا۔
 دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی دفاعی بجٹ میں تخفیف کا روادار نہیں ہے۔ ریپبلیکن پارٹی نے تو بائیڈن کے تازہ دفاعی بجٹ کو ناکافی قرار دے دیا تھا۔امریکی حکومت فلاحی منصوبوں کے بعد سب سے زیادہ خرچ دفاع پر کرتی ہے۔ امریکہ کا سالانہ دفاعی بجٹ بڑھتے بڑھتے ۹۰۰؍بلین ڈالر ہوگیا ہے۔ ہر سال ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالر امریکی حکمرانوں کے جنگی جنون اور اسلحہ سازوں کی دولت کی ہوس کی بھینٹ چڑھادیئے جاتے ہیں۔ امریکہ کی سلامتی، آزادی اور خودمختاری کو کسی ملک سے کوئی خطرہ نہیں ہے اورنہ ہی اسے کسی ملک کے ساتھ جنگ کی ضرورت ہے لیکن امریکہ کا طاقتور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس جو سیاستدانوں، پنٹاگان کے اعلیٰ عہدے داروں، اسلحوں کے پرائیویٹ سوداگروں اور دفاعی ٹھیکیداروں پر مشتمل ہے، امریکہ کو ہر وقت کسی نہ کسی جنگ میں ملوث رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اسی میں اس کا مفاد ہے۔ ۲۰۰۱ء سے ۲۰۲۲ء تک افغانستان، عراق، لیبیا اور سیریا جیسی مختلف جنگوں میں امر یکہ ۸؍ٹریلین ڈالر گنوا چکا ہے۔
  یوکرین کی قطعی غیر ضروری جنگ میں بائیڈن حکومت اب تک ۷۵؍ بلین ڈالر دے چکی ہے۔ ایک جانب روس کے ساتھ یوکرین میں پراکسی وار جاری ہے دوسری جانب تائیوان کے بہانے چین کے ساتھ بھی جنگ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ہر امریکی صدر کی طرح بائیڈن بھی دوسرا صدارتی الیکشن جیتنے کے لئے کسی نئی جنگ کا سہارا لے سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری خزانے پر مزید بوجھ لادا جائے گا۔
  اس وقت واشنگٹن میں تناؤ صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ریپبلیکن لیڈروںکے ساتھ بائیڈن کے پہلے دور کے مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔میں پیر کی شام میں یہ کالم مکمل کررہا ہوں اور ا ب سے چند گھنٹوں بعد واشنگٹن میں بائیڈن اور ہاؤس اسپیکر مکارتھی کے درمیان دوبارہ مذاکرات ہونے والے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں اور اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ اگردونوں فریقین میں سمجھوتہ ہوجاتا ہے تو موجودہ ڈیڈ لاک ختم ہوجائے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو وزیر خزانہ جینٹ یلین کی وارننگ یاد رہے کہ اگر قرضے کی حد نہیں بڑھائی گئی تو تاریخ میں پہلی بار امریکہ ڈیفالٹر ہوجائے گا۔اگر نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو دنیا میں امریکہ کی ساکھ گر جائے گی،امریکی معیشت پانچ فی صد تک سکڑ جائے گی اور ملک ایک بار پھر کساد بازاری کا شکار ہوجائے گا۔ اور ہاں! امریکہ میں اگر معاشی اتھل پتھل ہوئی تو  اس کے جھٹکے ساری دنیا میں محسوس کئے جائیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK