Inquilab Logo

کووڈ۔۱۹؍ اور بزرگ شہری

Updated: June 05, 2020, 9:25 AM IST | Editorial

کووڈ۔۱۹؍ کے متاثرین میں ۶۰؍ سال سے زائد عمر کے لوگوں کا فیصد ۱۹؍ ہے مگر اس ۱۹؍ فیصد میں فوت ہونے والوں کا فیصد ۶۳؍ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بزرگ شہریوں میں کووڈ۔۱۹؍ سے نبرد آزمائی کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور اگر وہ عمر کے حساب سے کئی عوارض میں پہلے ہی سے مبتلا چلے آرہے ہوں تو کورونا کو پچھاڑ دینے کی اُن کی طاقت اور بھی کم ہوجاتی ہے

Old age people - Pic : INN
بزرگ شہری ۔ تصویر : آئی این این

کووڈ۔۱۹؍ کے متاثرین میں ۶۰؍ سال سے زائد عمر کے لوگوں کا فیصد ۱۹؍ ہے مگر اس ۱۹؍ فیصد میں فوت ہونے والوں کا فیصد ۶۳؍ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بزرگ شہریوں میں کووڈ۔۱۹؍ سے نبرد آزمائی کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور اگر وہ عمر کے حساب سے کئی عوارض میں پہلے ہی سے مبتلا چلے آرہے ہوں تو کورونا کو پچھاڑ دینے کی اُن کی طاقت اور بھی کم ہوجاتی ہے۔ مختلف عمر کے لوگوں میں وہ افراد جو پہلے سے کسی عارضے میں مبتلا تھے مثلاً ذیابیطس، بلڈ پریشر اور عوارض قلب و جگر، اُن میں قلیل تعداد کورونا کا مقابلہ کرسکی چنانچہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کورونا کے مہلوکین میں ۸۶؍ فیصد وہ مریض تھے جو کسی نہ کسی بیماری کا مقابلہ کرتے آرہے تھے اور اب کورونا سے متاثر ہوئے۔یہ صورتحال ۶؍ اپریل کو وزارت صحت کے حوالے سے شائع شدہ خبروں سے اُجاگر ہوئی تھی۔ گزشتہ دو مہینوں میں کوروناکے متاثرین اور مہلوکین میں اضافہ ہوا ہے۔ عمر کے اعتبار سے تازہ اعدادو شمار ہمارے سامنے نہیں ہیں مگر عام مشاہدہ یہی کہتا ہے کہ بزرگ شہریوں کے کورونا سے متاثر ہونے اور مقابلہ نہ کرپانے کی جو صورتحال پہلے تھی وہی اب بھی ہے۔ 
 یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کورونا کے بحران سے گزرنے کے بعد ہم اپنے بزرگ شہریوں کی صحت کیلئے کوئی جامع منصوبہ تیار کریں گے اور اُسے مخلصانہ طور پر عمل میں لائینگے؟ اس بحران سے بہت کچھ سیکھا جانا چاہئے اور اُس میں سے ایک بزرگ شہریوں کی صحت ہو کیونکہ ان شہریوں کی حالت زار کا مشاہدہ صرف ہندوستان نہیں بلکہ بیشتر ممالک کررہے ہیں۔ ہندوستان میں ہونے والی اموات میں کورونا سے فوت ہونے والے ۴۰؍ سے ۶۰؍ سال کی عمر کے لوگ ۳۰؍ فیصد ہیں جبکہ ۴۰؍ سے کم عمر کے ۷؍ فیصد۔ ان کے مقابلے میں بزرگ شہری ۶۳؍ فیصد ہیں جیساکہ اوپر بیان کیا گیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جانا چاہئے کہ بزرگ شہریوں کی صحت کی فکر حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ 
  ملک میں بزرگ شہریوں کی مجموعی آبادی ۱۰۴؍ ملین ہے۔ ان میں ہر طبقے کے لوگ ہیں۔ وہ بھی جن کا علاج فائیو اسٹار اسپتالوں میں ہوتا ہے اور وہ بھی جنہیں کسی نجی اسپتال سے اس لئے باہر آجانا پڑا کہ وہاں پیشگی رقم کا مطالبہ کیا گیا۔ ان میں وہ بزرگ شہری بھی شامل ہیں جن کے رشتے دار بے حد غریب ہیں جو اپنے مریض کو بہتر علاج کی سہولت فراہم نہیں کرسکتے۔ انہی لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ 
 بزرگ شہریوں کا علاج معالجہ ایک مستقل خرچ ہوتا ہے۔ حکومت کی جاری کردہ اسکیمیں ہیلتھ انشورنس سے متعلق ہیں ۔ ان سے اُنہی سینئر سٹیزنس کا فائدہ ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے جنہوں نے صحت کا بیمہ کروا رکھا ہے۔ جن کا بیمہ نہیں، اُنہیں اچانک اسپتال داخل ہونا پڑے تو صحت کے ساتھ ساتھ اُنہیں یہ فکر بھی پریشان رکھتی ہے کہ اسپتال کا بل کتنا بنے گا۔ اگر وہ نجی اسپتال میں نہیں، سرکاری اسپتال میں داخل کئے گئے تو صحیح دیکھ بھال اور مناسب طبی نگہداشت کی فکر اُن کے سر پر سوار رہتی  ہے۔ 
 ملک میں سینئر سٹیزنس کو جو فوائد حاصل ہیں اُن میں ریل اور ہوائی ٹکٹ میں رعایت، بینک کاری میں سہولت،کورٹ سماعت میں اولیت، سماجی بہبود کی بعض اسکیموں سے فائدہ اور پاسپورٹ کی عرضی میں آسانی وغیرہ شامل ہیں۔ طبی سہولت کا جو میکانزم ہونا چاہئے وہ نہیں ہے۔ مثلاً یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی بزرگ شہری اپنے علاقے کے جس اسپتال کا رُخ کرے وہاں اُس کا بآسانی داخلہ ہو، فی الفور دیکھ بھال شروع ہوجائے اور بل صرف ۲۵؍ فیصد چارج کیا جائے۔ مثالی میکانزم تو ہوگا کہ ہر شہر میں سینئر سٹیزنس کیلئے چند اسپتال مخصوص ہوں یا ہر اسپتال میں ایک شعبہ بزرگ شہریوں کا ہو۔ 
 کورونا کی وجہ سے ملک نے اپنے بہت سے بزرگ شہریوں کو کھویا ہے۔ دیر سے ہی سہی، کاش ہم ان کے تئیں زیادہ حساس ہوں اور اب اُنکا زیادہ خیال رکھیں

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK