Inquilab Logo Happiest Places to Work

اپنی دنیا میں کھونے کے بجائے انسانیت کا درد محسوس کیجئے

Updated: August 25, 2025, 4:34 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

صرف دنیا کو مقصد بنانے والا دراصل آخرت کی سعادت سے محروم رہتا ہے، جبکہ اصل کامیابی اسی میں ہے کہ انسان اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا محور بنائے۔

Increasing conveniences are not proof of the increase in humanity, but humanity comes alive when one person feels the pain of another in their heart. Photo: INN
سہولتیں بڑھ جانا انسانیت کے بڑھ جانے کی دلیل نہیں ، بلکہ انسانیت تب زندہ ہوتی ہے جب ایک انسان دوسرے کا درد اپنے دل میں محسوس کرے۔ تصویر: آئی این این

دین ِ اسلام کی اصل بنیاد اس حقیقت پر قائم ہے کہ انسان کی زندگی کا نقطۂ آغاز اور انجام دونوں ایک ہی مرکز پر ہوں اور وہ ہے خالق ِ کائنات کی رضا۔ یہ کائنات اپنے تمام مظاہر اور انسان اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ محض اسی مقصد کیلئے وجود میں آئے ہیں کہ اپنے رب کو پہچانیں، اس کی بندگی کریں اور اس کی رضا کے ذریعے ابدی سعادت حاصل کریں۔ زندگی کے تمام مشاغل، خواہشات اور جدوجہد اس ایک حقیقت کے مقابل محض ثانوی درجہ رکھتے ہیں۔ اگر انسان اس مرکزی نکتہ کو فراموش کر دے تو وہ اپنی حقیقت اور مقصد ِ وجود دونوں کو گم کر بیٹھتا ہے۔ گویا اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ زندگی نہ تو محض جسمانی لذتوں کے لئے ہے، نہ ہی فانی جاہ و منصب کے لئے، بلکہ اس کا حقیقی جوہر رب کی رضا اور آخرت کی کامیابی ہے۔ یہی وہ تصور ہے جو انسان کو بلندیٔ فکر عطا کرتا ہے، اسے مادیت کے دائرے سے نکال کر لامحدود روحانی افق سے جوڑ دیتا ہے اور اس کے وجود کو حقیقی معنوں میں بامقصد بنا دیتا ہے۔ 
قرآن مجید انسان کی تخلیق کے مقصد کو نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ ‘‘ (الذاریات:۵۶) یہ آیت واضح کر دیتی ہے کہ انسان کا وجود کسی وقتی غرض یا دنیاوی کامیابی کے لئےنہیں بلکہ صرف اللہ کی معرفت، اس کی رضاء اور اس کی بندگی کے لئے ہے۔ 
ایک اور مقام پر اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں : ’’جو شخص دنیوی کھیتی چاہے گا ہم اسے دنیا ہی میں دے دیں گے، لیکن آخرت میں اس کیلئے کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ ‘‘ (الشورىٰ:۲۰) یہاں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ صرف دنیا کو مقصد بنانے والا دراصل آخرت کی سعادت سے محروم رہتا ہے، جبکہ اصل کامیابی اسی میں ہے کہ انسان اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا محور بنائے۔ 

یہ بھی پڑھئے:جب اللہ کا خوف دل میں ہوتا ہے…

اگر ہم ایمانداری سے سوچیں تو اس نتیجے پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتے کہ دنیا کی ہر شے فانی ہے اور عقل یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ فانی مقصد کو زندگی کا ہدف بنانا محض دھوکہ ہے۔ انسان کی فطرت بھی اس بات کی گواہ ہے کہ وہ لامحدود سکون اور دائمی کمال کا متلاشی ہے اور یہ صرف اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ اپنے خالق کی رضا اور آخرت کی کامیابی کو اپنا مقصد بنائے۔ مزید برآں، عقل یہ بھی کہتی ہے کہ دنیا میں نیک اور بد اکثر ایک جیسی زندگی گزار لیتے ہیں، لیکن عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق پورا بدلہ ملے، اور یہ بدلہ صرف آخرت میں ممکن ہے۔ اس طرح قرآن اور عقل دونوں یکساں طور پر اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی ابدی سعادت ہے۔ عقل یہ تسلیم کرتی ہے کہ محض انسان اپنی فطرت اور تجربے سے اس مقصد اصلی تک پوری طرح نہیں پہنچ سکتا، کیونکہ انسانی عقل محدود ہے اور انسان مختلف خواہشات و اغراض کا غلام بن جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کے لئے لازمی تھا کہ اللہ تعالیٰ خود اس مقصد تک پہنچنے کا راستہ دکھائے اور اس پر چلنے کا پیغام دے۔ 
اسی مقصد کے تحت اللہ رب العزت نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا اور ان پر آسمانی کتابیں نازل فرمائیں، تاکہ انسان اپنے خالق کو پہچان سکے، اس کی رضا کے مطابق زندگی گزار سکے اور آخرت کی سعادت حاصل کر سکے۔ اور جب انسانیت اپنے ارتقائی مرحلوں سے گزر گئی تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر مکمل فرمایا اور قرآن مجید کو آخری اور کامل کتاب بنا کر نازل کیا، جس میں انسان کی دنیا و آخرت کی رہنمائی کے لئے مکمل دستور حیات موجود ہے۔ چونکہ نبوت کا مشن اب براہِ راست امت کے سپرد ہے، اس لئے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے اندر رضائے الٰہی کے حصول کا شوق اور جستجو کو بیدار کرے۔ یہ جستجو محض ایک جذباتی کیفیت نہیں بلکہ وجود کی گہرائیوں سے اٹھنے والی وہ طلب ہے جو انسان کو اپنی حقیقت اور مقصدِ تخلیق کی طرف لے جاتی ہے۔ جب انسان اپنے باطن میں اس جذبے کو پروان چڑھاتا ہے تو اس کے اندر ایک ایسی روشنی پیدا ہوتی ہے جو نہ صرف اس کی اپنی زندگی کو منور کرتی ہے بلکہ دوسروں کے لیے بھی چراغِ راہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام محض ذاتی نجات کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسا پیغام ہے جو انسان کو اپنے رب کی رضا تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کے دکھ درد میں شریک ہونے کا درس دیتا ہے۔ 
اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے آپﷺ لوگو ں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے: ’’اے لوگو! لا اله الا الله کہو، کامیاب ہو جاؤ گے۔ ‘‘ (مسند احمد) یہ وہ الفاظ ہیں جو مکہ کی گلیوں میں، حج کے ایام میں منیٰ اور عرفات کے میدانوں میں، اور مختلف قبائل کی مجالس میں گونجتے رہے۔ اس جملے کے اندر ایک نبی کا دلِ دردمند دھڑکتا ہے جو ساری انسانیت کو فانی دنیا کے دھوکے سے نکال کر حقیقی کامیابی اور ابدی سکون کی طرف بلا رہا تھا۔ 
اسی حقیقت کی ایک صاحبِ دل نے یوں ترجمانی کی ہے کہ: اسلام درد کو اپنے اندر جذب کرنے اور پھر اسے دوسروں میں بانٹنے کا نام ہے۔ گویا مسلمان وہ ہے جو انسانیت کے بے راہ روی کے زخموں کو محسوس کرے، ان کے بوجھ کو اپنے دل میں سمیٹے اور پھر اس بوجھ کو تقسیم کرکے دوسروں کو راحت پہنچائے۔ اس طرح اسلام ایک فرد کی باطنی سچائی سے نکل کر اجتماعی سکون اور عالمی ہمدردی کا ضامن بن جاتا ہے۔ 
اِن حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے سوچیں ! یہ کیسا وقت آ گیا ہے کہ انسان کے پاس دوسروں کے دکھ سمجھنے کے ذرائع تو بے شمار ہیں، بھٹکے ہوئے لوگوں تک پیغام پہنچانے کے راستے بھی آسان ہو گئے ہیں، مگر دل کی دنیا اس قدر خالی ہو چکی ہے کہ انسان کو انسان کی فکر کرنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ آج ہمارے ہاتھوں میں سوشل میڈیا ہے، ہر خبر لمحوں میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جاتی ہے، لیکن ہمارے دل کی دیواریں اتنی سخت ہو چکی ہیں کہ قریب بیٹھے ہوئے بھائی کا درد بھی ہمیں نہیں تڑپاتا۔ مادیت کی چمک دمک نے ہمیں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ ہم اپنی دنیا میں کھوئے رہتے ہیں اور ہمیں یہ احساس تک نہیں رہتا کہ ہمارے آس پاس کتنے دل ٹوٹے ہوئے ہیں اور کتنی جانیں بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں۔ کاش ہم سمجھ سکیں کہ سہولتیں بڑھ جانا انسانیت کے بڑھ جانے کی دلیل نہیں ، بلکہ انسانیت تب زندہ ہوتی ہے جب ایک انسان دوسرے کا درد اپنے دل میں محسوس کرے۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے لئے اصل کام اپنی چھوٹی سی دنیا میں کھو جانا نہیں بلکہ انسانیت کے سچے درد کو محسوس کرنا ہے۔ وہ درد جو ہمیں یہ احساس دلائے کہ ہمارا بھائی بھٹک رہا ہے اور ہمیں اس کی رہنمائی و دلجوئی کرنی ہے۔ اگر ہم اپنی ذات کے حصار سے نکل کر دوسروں کے دکھوں کو اس طرح سمجھنے لگیں تو یہی دراصل انسانیت ہے، اصل ہمدردی ہے اور یہی اسلام کی روح ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK