Inquilab Logo

بٹ گئے ہیں مگر بکھرنا نہیں

Updated: July 04, 2020, 10:19 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

مشترکہ خاندان جو مثالی ہوتے تھے، ٹوٹ گئے، چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں تبدیل ہوگئے۔ اس کی اپنی وجوہات ہیں جن سے مفر نہیں ۔ اس کے باوجود بہت کچھ بچایا جاسکتا ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ رشتوں کی جو حرارت مشترکہ خاندانوں میں تھی وہی ان چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں بھی موجود رہے تاکہ جسمانی دوری ہے تو رہے مگر جذباتی دوری نہ پیدا ہو۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

بچپن میں پڑھی ہوئی اُس کسان کی کہانی یاد آتی ہے جس نے اپنے بچوں کو اتحاد کا سبق دینے کیلئے اُنہیں لکڑی کا گٹھا توڑنے کیلئے کہا تھا۔ وہ نہیں توڑ پائے تھے۔ پھر اُس نے اُنہیں حکم دیا تھا کہ ایک ایک لکڑی اپنے ہاتھ میں لو اور اُسے توڑ دکھاؤ۔ اُن میں سے ہر ایک نے اپنے ہاتھ کی لکڑی بآسانی توڑ دی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین یہ کہانی بھولے نہیں ہوں گے جس سے اتحاد کا سبق ملتا تھا۔ آج اگر وہی کسان دوبارہ جنم لے لے اور چاہے کہ اپنے بیٹوں کو بلائے اور وہی سبق دے جو اُس نے پچیس پچاس برس پہلے دیا تھا تو اکا دکا بیٹے ہی اُس کے سامنے ہوں گے۔ باقی سب اپنی اپنی ’فیملی‘کے ساتھ ’’الگ‘‘ رہتے ہوں گے۔ ہم میں سے ہر ایک بخوبی واقف ہے کہ نئے دور میں خاندان چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں یا اکائیوں میں منقسم ہوگئے ہیں اور ہر ٹکڑی یا اکائی فیملی کہلاتی ہے ۔ 
 اُردو لغت میں خاندان کا معنی گھرانا، نسل اور قبیلہ ہے جبکہ انگریزی لغت میں فیملی کا معنی ہے والدین اور اُن کے بچے ّجو ایک یونٹ کے طور پر ساتھ رہتے ہوں ۔ اس یونٹ کو فیملی یا نیوکلیائی فیملی کہا جاتا ہے۔ کل تک خاندان کے لوگ، خواہ اُن کی تعداد کتنی ہی ہو، ایک ساتھ، ایک چھت کے نیچے رہا کرتے تھے۔ اُس دور میں بڑے بڑے پشتینی گھر ہوتے تھے جو خاندان کی بڑھتی ہوئی آبادی کا بوجھ بھی سہار لیتے تھے۔ اب یہ ممکن نہیں رہ گیا ہے چنانچہ ایک چھت کئی چھتوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور ان چھتوں کے نیچے خاندان کے چھوٹے چھوٹے حصے آباد ہیں ۔ 
 وقت، حالات اور رہائشی مسائل کے سبب خاندانوں کی اس ٹوٹ پھوٹ کا اپنا جواز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نہیں کئی جواز ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ فی نفسہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تب ہوتا ہے جب اہل خاندان جذباتی طور پر ایک دوسرے سے دور ہوجائیں ۔ کورونا وائرس کے اِس دور میں احتیاطی تدبیر کے طور پر یہ سمجھایا جارہا ہے کہ جسمانی طور پر دوررہئے مگر جذباتی طور پر متحد۔ یہی مشورہ موجودہ طرز رہائش کیلئے بھی سود مند ہوگا کہ بھلے ہی الگ چھت تلاش کرلیجئے مگر اپنے اہل خانہ و خاندان سے قلبی طور پر دور مت ہوجائیے۔
  ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں جو ۲۴ء۸۸؍ کروڑ کنبے رہتے بستے ہیں اُن کا ۵۲ء۱؍ فیصد یعنی ۱۲ء۹۷؍ کروڑ کنبے چھوٹی چھوٹی اکائیوں پر مشتمل ہیں ۔ مردم شماری کا یہ تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ ملک کے عوام میں اپنی اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کا چلن عام ہی نہیں ہوا، روز افزوں بھی ہے کیونکہ ۲۰۰۱ء کی مردم شماری میں نیوکلیئر فیملیز کی تعداد کم (۹ء۹۸؍ کروڑ) تھی۔
 اِس وقت ملک کے بہت سے شہر اور علاقے لاک ڈاؤن یا شٹ ڈاؤن کے تحت متعدد پابندیاں جھیل رہے ہیں ۔ ا س کیفیت میں وہ لوگ زیادہ فائدے میں ہیں جن کا مشترکہ خاندان ہے۔ دادا، دادی، چاچا چاچی اور بہت سے بھائی بہن۔ گھر ہی میں پوری دُنیا آباد۔ اس کے مقابلے میں چھوٹی چھوٹی فیملی والے گرچہ نقصان میں نہیں ہیں مگر وہاں اُتنا بھرا پورا ماحول نہیں پایا جاتا۔ مَیں نہیں جانتا کہ لاک ڈاؤن میں کتنے لوگ بھرے پرے خاندان کی کمی کو محسوس کررہے ہیں ۔ بہرکیف جتنے بھی لوگوں میں یہ احساس ہو وہ اگر اس بات کو یقینی بنالیں کہ اُن کے بچے جذباتی طور پر اپنے تمام رشتے داروں کے قریب رہیں گے اور اُن میں کسی قسم کی دوری نہیں ہوگی تو اس سے نئی نسل کو بہت فیض پہنچ سکتا ہے۔ 
 فیض کیسا؟ شفقت، محبت اور مروت کا۔ مل جل کر رہنے کی برکت کا۔ بڑے ہیں تو ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کا۔ بچے ہیں تو ایک دوسرے کے ساتھ پروان چڑھنے کا۔ عورتیں ہیں تو اُمور خانہ داری میں ایک دوسرے کی مدد کا اور تمام لوگوں کا ایک دوسرے کے کام آنے کا۔ مشترکہ خاندان کا پنپنا دورِ جدید میں آسان نہیں ۔ آج نہیں تو کل اُسے ٹوٹنا ہی پڑتا ہے اس لئے نئی نسل کی تربیت میں جو خلاء پیدا ہوتا ہے وہ کئی شخصیات کی عدم موجودگی کے سبب ہوتا ہے۔ مثلاً دادا کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ باپ چاہے بھی تو اس کمی کو پورا نہیں کرسکتا کیونکہ اُس کا اپنا رول ہے۔ 
 اگر ایک خاندان منقسم ہونے کے باوجود جذباتی طور پر جُڑا ہوا ہے تب بھی دادا سے ہفتے میں ایک بار ملنا اور ہفتے بھر اُن کے زیر سایہ رہنا دو الگ الگ باتیں ہیں ۔ ہفتے بھر زیر سایہ رہنے میں نئی نسل کا فرد وقتاً فوقتاً بہت سی چیزیں سیکھتا ہے، بہت سی عادات و اطوار کا مشاہدہ کرتا ہے، اُن کی محبت کی حرارت کو محسوس کرتا ہے اور یہی اوصاف غیر شعوری طور پر اُس کے اندر پیدا ہونے لگتے ہیں ۔ اسی طرح دادی اب بھلے ہی پرانی دادیوں کی طرح بچوں کو سمیٹ کر اُنہیں روزانہ کوئی سبق آموز کہانی نہ سناتی ہو مگر اُس کی بات چیت میں آج بھی سیکڑوں کہانیاں ہیں ۔ اُس کے حافظے میں بہت سے محاورے اور کہاوتیں ہیں ۔ اُس کی اپنی لفظیات ہے۔ اُس کا اپنا تجربہ اور مشاہدہ اور ان سے کشید کیا ہوا کوئی سبق ہے۔ 
 مشترکہ ،بھرا پرا خاندان مثالی ہوتا ہے جبکہ چھوٹے خاندان یا نیوکلیئر فیملی مجبوری ہے۔ مثالی اور مجبوری کے فرق کا ملحوظ رکھا جانا نہایت ضروری ہے۔ اسے مجبوری کے طور پر ہی برتنے کی ضرورت ہے۔ جب یہ ہوگا تب اہل خاندان وقتاً فوقتاً ملاقاتوں اور آئے دن کے ارتباط و مراسم کو ترجیح دیں گے تاکہ جذباتی وابستگی نہ صرف برقرار رہے بلکہ اس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو اور یہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں اُتنی ہی شدت کے ساتھ منتقل ہو جتنی شدت سے یہ پہلی نسل میں موجود تھی۔ 
 بڑھتی آبادی، مکانات کی قلت، چھوٹے مکانات کی ضرورت، معاشی خوش حالی اور ایسے ہی دیگر محرکات سے مشترکہ خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے اور اب وہ وقت آنے کو ہے جب مشترکہ خاندان اگر موجود ہے تو خبر بنے گا۔ مگر اس سے بہتر خبر یہ ہوگی کہ وطن عزیز میں مشترکہ خاندانوں کی تعداد کم ہوجانے کے باوجود ہر خاندان اپنی چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں بھی وہی اشتراک، اتحاد، میل جول، ہم آہنگی، ربط ضبط اور ایک دوسرے کیلئے دوڑ پڑنے کی کیفیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے جو اگلے وقتوں میں ہوا کرتی تھی تو سمجھ لیجئے کہ ہم اپنے معاشرہ اور سماج کی حفاظت میں کامیاب رہیں گے جو بذات خود ٹوٹ رہا ہے، افراتفری کا شکار ہے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK