اس بات کو سمجھنے کیلئے یہ نکتہ ذہن نشین رکھیں کہ اگر اللہ بھی عطا کرنے یا دینے کا یہی پیمانہ بنا لے کہ میرا جو بندہ میری شرائط پر پورا اُترے گا اسی کو عطا کیا جائے گا تو کون بندہ ہے جو اس کے حضور میں مانگنے کی جرأت کر سکے گا؟
EPAPER
Updated: February 17, 2023, 1:44 PM IST | Dr. Mufti Organization Alam Qasmi | Mumbai
اس بات کو سمجھنے کیلئے یہ نکتہ ذہن نشین رکھیں کہ اگر اللہ بھی عطا کرنے یا دینے کا یہی پیمانہ بنا لے کہ میرا جو بندہ میری شرائط پر پورا اُترے گا اسی کو عطا کیا جائے گا تو کون بندہ ہے جو اس کے حضور میں مانگنے کی جرأت کر سکے گا؟
یہ قدرت کا نظام ہے کہ اس نے دنیا میں مختلف حیثیتوں اور درجات کے لوگوں کو پیدا کیا۔ کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم، کوئی مال دار ہے تو کوئی غریب ، کوئی مالک ہے تو کوئی مزدور۔ ایک شخص جب گھر بنانا چاہتا ہے تو تمام وسائل کے باوجود تنہا وہ گھر نہیں بنا سکتا بلکہ مزدور اور کچھ فنی ماہرین کی ضرورت پیش آتی ہے جن کے تعاون سے ایک بڑی بلڈنگ کھڑی ہو جاتی ہے، اگر تمام لوگ مال دار اور اہل ثروت ہوتے تو پھر کوئی کسی کی مزدوری کرتا اور نہ ہی کسی کے ماتحت رہنا چاہتا، اس طرح پورا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت الگ الگ خانوں میں لوگوں کو تقسیم کردیا ہے اور ہر ایک کی ضرورت دوسرے سے وابستہ کردی ہے، جس کے نتیجے میں دنیا کا پورا نظام مربوط اور مرتب ہے اور کسی خلل کے بغیر دنیا اپنی صحیح سمت کی طرف رواں دواں ہے ۔
دنیا کے اس نظام کے تحت اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مال دار اور باحیثیت بنایا، عزت عطا کی اور آپ راحت کی زندگی گزار رہے ہیں تو اللہ کا آپ پر بے پایاں کرم ہے کہ اس نے دیگر ہزاروں نعمتوں کے ساتھ یہ نعمت بھی عطا کی اور آپ اس قابل ہوئے کہ عزت اور راحت کا سانس لے سکیں، معاشرہ اور سماج میں ممتاز زندگی گزار سکیں۔ ایسے وقت آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ سب سے پہلے خدا کا شکر ادا کریں جس نے اس مقام پر فائز کیا اور طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا۔ اس نعمت پر اکڑ اور تکبر پیدا ہونے کے بجائے تواضع و انکساری، بندوں کی حاجت روائی اور ان کی خدمت کے جذ بات پیدا ہونے چاہئیں اور سوچنا چاہئے کہ ہم پہلے نادار تھے خدا نے غنی بنایا، محتاج تھے اس نے ضرورت پوری کرکے احتیاج کو دور کیا، کسی استحقاق کے بغیر اس نے سماج میں عزت اور بلندی سے نوازا لہٰذا رب کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اس کے محتاج بندوں پر خرچ کیا جائے، ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کی جائے، کوئی اپنا دکھ سنائے تو اس کا درد بانٹنے کی کوشش کی جائے۔ ہم مانگنے والوں سے تنگ دل نہ ہوں اور حاجت مندوں کے سوال سے گھبرا کر جھڑکنے، ڈانٹنے اور گالی گلوج کرنے کا شیوہ ہرگز اختیار نہ کریں اور یاد رکھیں کہ جس خدا نے یہ نعمتیں دی ہیں وہ واپس لینے پر بھی قادر ہے۔ کرسی پر بیٹھنے والوں کو زمین پر بٹھانے میں اسے دیر نہیں لگتی، کروڑوں انسان ایسے ہیں جو باحیثیت اور مال دار تھے لیکن ان کی غلط روش نے انہیں سائل بنادیا اور وہ خود محتاجگی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
قرآن کریم میںرسول اکرم ﷺ کو جو ہدایات دی گئیں ان میں بطور خاص سائلین اور ضرورت مندوں کے ساتھ خوش اخلاقی برتنے اور ان کی ضرورت پوری کرنے کی ہدایت بھی شامل ہے۔ ارشاد باری ہے :
’’ کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا تو آپ کو ٹھکانہ دیا، آپ کو راستہ سے ناواقف پایا تو راستہ دکھایا، آپ کو نادار پایا تو دولت مند کردیا، تویتیم پر سختی نہ کیجئے اور مانگنے والوں کو جھڑکی نہ دیجئے اور اپنے پروردگار کے انعامات کو بیان کرتے رہئے۔‘‘ (الضحیٰ ۔۶؍تا۱۱)
رسول اکرم ﷺکی ذات اقدس ان تمام صفات سے پہلے سے متصف تھی ۔ یہ در حقیقت مسلمانوں کو تعلیم دینا اور انہیں ہدایت کرنا مقصد ہے کہ اپنا ماضی ہمیشہ یاد رکھو کہ کل کیسے تھے، محتاج، نادار، بے سہارا، غریب اور بے حیثیت لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں کہاں سے کہاں پہنچایا اور کتنی نعمتوں سے نوازا۔ اس میں تمہارا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ خالصتاً رب العالمین کا لطف و کرم ہے جس نے کسی استحقاق کے بغیران چیزوں سے نوازا۔ وہ چاہتا تو دیگر لوگوں کی طرح تمہیں بھی سائلین اور محتاجوں کی صف میں کھڑا کردیتا، اس لئے اکڑ پیدا کرنے کے بجائے اس کے بندوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور لب و لہجہ درست رکھو۔ مانگنے والے کی باتیں سنو، جہاں تک ہو سکے اس کی ضرورت پوری کرو اور تند خوئی سے اجتناب کرو۔ رسول اکرم ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا: مانگنے والے کا حق ہے خواہ وہ گھوڑے پر بیٹھ کر آئے۔ ( سنن ابوداؤد۔ ۱۶۶۵) یعنی مانگنے والے کی ظاہری حالت سے ایسا محسوس ہو کہ یہ سوال سے مستغنی ہے، اس کو مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، اس کے بدن پر اچھے اور خوبصورت کپڑے ہیں، پاؤں میں جوتا ہے، ہشاش بشاش ہے، سواری پر سوار ہو کر آیا ہے، کسی طرح بھی نہیں لگتا کہ یہ محتاج اور بے بس ہے پھر بھی اس کی مدد کرنی چاہئے۔ ایسے وقت سائل کی ظاہری حالت کو دیکھ کر بعض لوگ طعنے کس دیتے ہیں اور اس کے ساتھ نازیبا سلوک کرتے ہیں۔ آپ ؐ نے ہدایت دی کہ جب کوئی تمہارے سامنے ہاتھ پھیلادے تو اس کا حق ہے کہ اس کی مدد کی جائے اور اس کو کچھ نہ کچھ دے دیا جائے ۔ تمہیں اس کے اندرونی حال کے بارے میں کیا معلوم ہے ، ممکن ہے کہ وہ واقعی ضرورت مند ہو جس کے لئے اس نے تم سے سوال کیا ہے، احتیاج کے لئے بوسیدہ حال ہونا اور میلے کچیلے کپڑوں میں ہونا ضروری نہیں ہے۔
انسان کا مزاج ہے کہ وہ دوسرے کیلئے پیمانہ الگ رکھتا ہے اور خود اپنی ذات کے لئے پیمانہ الگ بناتا ہے ۔ کسی کی مدد کرنے کے لئے یہ دیکھتا ہے کہ یہ اس کا مستحق ہے یا نہیں، محتاج ہے یا نہیں وغیرہ لیکن جب یہی بندہ اللہ سے اپنی ضرورتیں مانگتا ہے اور اس کے در پر سائل بن کر کھڑا ہوتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا ہے کہ جو چیزیں میں اپنے رب سے مانگ رہا ہوں خود میں اس کا حق دار ہوں یا نہیں، ان کا استحقاق میرے اندر ہے یا نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ بھی یہی پیمانہ دینے کابنا لے کہ میرا جو بندہ میری شرائط کے مطابق اترے گا اسی کو ملے گا، استحقاق کے بغیر کسی کو سوال کرنے کا حق نہیں ہے تو اس پیمانہ اور شرط کے بعد کون بندہ ہے جو اس کے حضور میں مانگنے کی جرأت کر سکے گا اوراس کی تمام شرائط کی تکمیل کر سکے گا ؟
مولانا مفتی تقی عثمانی البلاغ کی خصوصی اشاعت ’’ مفتی اعظم نمبر‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ بازار میں بھیک مانگنے والے بھکاریوں کے ساتھ بھی حضرت والد صاحب (حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ) کا عجیب طرز عمل تھا ، عام طور سے جو کوئی سائل آتا آپ اسے کچھ نہ کچھ دے دیتے تھے ۔ ایک مرتبہ احقر موٹر میں آپ کے ساتھ تھا، کسی جگہ گاڑی رکی اور ایک سائل آدھمکا ، آپ نے اپنی جیب میں سے کچھ نکال کر اسے دے دیا ۔ احقر نے پوچھا کہ ابا! اس قسم کے سائل عام طور سے مستحق نہیں ہوتے، ان کو دینا چاہئے یا نہیں؟ اس کا جو عجیب و غریب جواب آپ نے دیا وہ آج تک لوح دل پر نقش ہے۔ فرمایا: ’’ہاں میاں بات تو ٹھیک ہے لیکن یہ سوچو کہ اگر ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے استحقاق کی بنیاد پر ملنے لگے تو ہمارا کیا بنے گا؟ ‘‘
حضرت ام بجید ؓ نے ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ! بسااوقات کوئی سائل میرے دروازے پر پہنچ کر دست سوال دراز کرتا ہے حالانکہ میرے پاس اسے دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا، آپؐ نے فرمایا: اگر تمہارے پاس کسی جانور کا جلا ہوا کھر ہو وہی اسے دے دو ۔ (سنن ابو داؤد ، ۱۶۶۷) … اس ارشاد گرامی کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی حال میں تم سائل کو اپنے در سے خالی ہاتھ واپس نہ کرو، معمولی سے معمولی چیز بھی تمہارے پاس ہو وہ اسے دے دو اور کوشش کرو کہ تمہارے پاس سے وہ خوش ہوکر جائے، اگر تمہارے پاس دینے کے لئے کچھ نہ ہو تو اچھے لب و لہجے میں معذرت کرو اور اس سے بات کرتے ہوئے جھڑکنے کا انداز اختیار مت کرو کہ جس سے اس کی دل آزاری ہو اور وہ تمہارے پاس سے جائے تو بڑبڑاتا ہوا جائے۔ اس کی دل آزاری اور بددعا ممکن ہے کہ تمہارے مستقبل کو ضائع کر دے اور تمہیں عرش سے فرش پر پہنچا دے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مانگنے والوں اور ضرورت مندوں کابہر حال حق ہوتا ہے، اس کے ساتھ بہتر سلوک کیا جائے اور اپنی وسعت کے مطابق اس کی ضرورت کی تکمیل میں ہاتھ بٹایا جائے، اس سے اللہ تعالی خوش ہوگا اور مزید اپنے خزانۂ غیب سے عطا کرے گا۔ اسی حکم میں وہ لوگ بھی ہیں جو ہم سے عاریتاً کام چلانے کیلئے کچھ مطالبہ کرتے ہیں، ان کا مقصد لینا نہیں ہوتا بلکہ کچھ دیر کے لئے اس کا استعمال کرنا ہوتا ہے، وقتی طور پر ضرورت پوری کرکے پھر وہ سامان واپس کردیا جاتا ہے جیسے ڈول، رسی، ہنڈیا، دیگچی، کلہاڑی، سوئی، دھاگہ، قلم ، کتاب وغیرہ جو سامان عام طور پر زیادہ قیمتی بھی نہیں ہوتااور استعمال کے بعد واپس بھی مل جاتا ہے، اس کے دینے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ فراخ دلی اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ جو لوگ معمولی چیزوں کے دینے اور خرچ کرنے سے کتراتے ہیں اور اس میں بھی بہانہ بازی کرتے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورہ ماعون کی آخری آیت میں اپنی سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے ۔
انسان جو کچھ خرچ کرتا ہے وہی کام آنے والا ہے، وہ در حقیقت اللہ کے یہاں جمع ہوجاتا ہے جس کو دیکھ کر وہ قیامت کے دِن خوش ہوگا اور سوچے گا کہ اے کاش! دُنیا کی ساری دولت مَیں راہ خدا میں قربان کردیتا تو اچھا ہوتا۔ خرچ کیا ہوا مال اس دن سہارا بنے گا جس دن کہ انسان سب سے زیادہ بے سہارا ہوگا، اس لئے آج ہمیں چاہئے کہ کسی کو محروم نہ کریں اور ان افراد کو بھی تلاش کریں جو ہمارے عزیزوں میںسے ہیںیا پاس پڑوس میںرہتے ہیں،بہت محتاج ہیں لیکن غیرت کی بنیاد پر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔