Inquilab Logo

گودی اینکروں کو آئینہ دکھانا ضروری تھا

Updated: September 20, 2023, 7:30 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

اپوزیشن پارٹیوں کے اتحادکے چودہ ٹی وی نیوز اینکرزکے پروگراموں میں شرکت نہ کرنے کے اعلان پربھارتیہ جنتا پارٹی اتنا واویلا کیوں مچارہی ہے؟

Photo. INN
تصویر:آئی این این

اپوزیشن پارٹیوں کے اتحادکے چودہ ٹی وی نیوز اینکرزکے پروگراموں میں شرکت نہ کرنے کے اعلان پربھارتیہ جنتا پارٹی اتنا واویلا کیوں مچارہی ہے؟امیت مالویہ اور سمبت پاترا ہی نہیں پارٹی صدر جے پی نڈا بھی انڈیا اتحاد کے اس اقدام کو میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ پچھلے دس برسوں میں قومی میڈیا کو راگ درباری گانے پر مجبور کرنے اور پریس فریڈم کے عالمی انڈیکس میں وطن عزیز کو161ویں پائیدان پر دھکیلنے والی بی جے پی کے منہ سے پریس کی آزادی کی دہائی سن کر کسی مہاپرش کا یہ قول یاد آگیا:" Hypocrisyکی بھی سیما ہوتی ہے۔"آج انڈیا اتحاد نے گودی میڈیا کو آئینہ دکھایا ہے کل پورا انڈیا دکھائے گا۔
اگر انڈیا اتحاد کے اس فیصلے پر بی جے پی اتنا چراغ پا ہے تو اس کامطلب صاف ہے کہ اپوزیشن کا یہ فیصلہ صحیح سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔ویسے انڈیا اتحاد نے وضاحت کردی ہے کہ وہ نہ تو اینکروں کا بائیکاٹ کررہا ہے اور نہ ہی ان پر پابندی لگا رہا ہے: اس نے اینکروں کے ساتھ عدم تعاون کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
میرے خیال میں پر امن عدم تعاون ایک جائز جمہوری بلکہ گاندھیائی طریقہ ء احتجاج ہے۔ جو آئین پریس کی آزادی کی گارنٹی دیتا ہے وہی کسی فرد، تنظیم یا پارٹی کو اس بات کا فیصلہ کرنے کی آزادی بھی دیتا ہے کہ وہ کس سے رشتہ یا رابطہ رکھے یا نہ رکھے۔گودی میڈیا اپوزیشن کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرتا رہا ہے۔ اگر اس کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اپوزیشن نے اس سے دور رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ 
 بی جے پی کی تقلید کرتے ہوئے گودی میڈیا کے اینکرز پچھلے دس برسوں سے کانگریس، عام آدمی پارٹی، ترنمول کانگریس، آر جے ڈی، ڈی ایم کے اورسماج وادی پارٹی جیسی تمام پارٹیوں کے خلاف مسلسل محاذ آرائی کررہے ہیں ۔ ڈیبیٹ میں وہ میڈیا کے نمائندے کم اور سیاسی کارندے زیادہ نظر آتے ہیں ۔ یہ اینکرز بی جے پی کے ترجمان سے بھی زیادہ جوش و خروش سے حکومت اور حکمراں جماعت کی وکالت اور اپوزیشن کے ترجمانوں پررکیک حملے کرتے ہیں ۔ یہ خصوصاً کانگریس کے خلاف جس طرح کی جارحانہ روش اختیار کرتے ہیں اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہوں نے مودی جی کے "کانگریس مکت بھارت "مشن کو کامیاب بنانے کی قسم کھائی ہے۔ یہ اینکرزسونیا گاندھی اور راہل گاندھی، ممتا بنرجی، اروند کیجریوال، ادھو ٹھاکرے، لالو یادو، نتیش کمارپر تنقیدنہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی کردار کشی کرتے ہیں ۔ یہ دن رات نہ صرف مودی جی کا بلکہ بی جے پی کے تمام لیڈران کاگن گان کرتے رہتے ہیں ۔ یہ ایسے لیڈروں کا دفاع کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جنہوں نے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہو۔ بے گناہ کسانوں کو اپنی گاڑی سے روندنے والے اور پہلوان بچیوں کو جنسی ہراسانی کا شکار بنانے والے لوگوں کی کارستانیوں پر پردہ ڈالنے میں بھی انہیں شرم نہیں آتی ہے صرف اس لئے کہ ملزم بی جے پی کے ایم پی یا ایم ایل اے یا منتری کے صاحبزادے ہیں ۔
 ان نیوز اینکرز سے عدم تعاون کا فیصلہ صرف ان کے سیاسی اور نظریاتی تعصبات کے سبب نہیں کیا گیا ہے۔ پچھلے چند برسوں سے ان اینکرز نے مسلمانوں کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈہ مہم چلارکھی ہے۔
 یہ اینکرز ایک سازش کے تحت اکثریت پسندی(majoritarianism)، عدم رواداری، نفرت،تعصب اور ننگی فرقہ واریت کو فروغ دے ر ہے ہیں اور اپنے مذموم مقصد کے حصول کی خاطر جھوٹی اور من گھڑت خبروں کا سہار ا لینے میں بھی انہیں کوئی عار نہیں ہے۔انہوں نے معاشرے میں اس قدر زہر بھر دیا ہے اور نوجوانوں کی ایسی برین واشنگ کردی کہ ہے چلتی ٹرین میں مسافروں کی حفاظت کے لئے تعینات RPFکا اہلکار تین بے گناہ لوگوں کو صرف ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے گولی ماردیتا ہے۔
 رویش کمار کی یہ وارننگ "گودی میڈیا ہمارے بچوں کو دنگائی اور ہتھیارا بنارہا ہے" سچ ثابت ہورہی ہے۔ ایک گودی اینکر میوات کے حالیہ دنگوں کے بعد کہتا ہے کہ ان لوگوں ( مسلمانوں ) کا" پرماننٹ علاج" کردیا جانا چاہئے۔ جرمنی میں یہودیوں کی نسل کشی کے لئے نازیوں نے Final Solution کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ آج یہ نیوز اینکر ہٹلر کی زبان بول رہا ہے۔
 انڈیا کی لسٹ میں شامل چند اینکرز نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ جمہوریت کی پاسبانی کرنے کی وجہ سے انڈیا اتحاد کے عتاب کا شکار ہوئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلسل جمہوریت کی بیخ کنی میں سرکار کی مدد کررہے ہیں ۔ 2014 سے پہلے میڈیا احتجاج کرنے والوں کی حمایت کرتا تھا اور ان کی تحریکوں کی رپورٹنگ کی جاتی تھی۔ پچھلے دس برسوں میں گودی میڈیا نے احتجاج اور مظاہروں کا صر ف بلیک آؤٹ ہی نہیں کیا بلکہ وہ ہر جمہوری اور پرامن احتجاج کو بدنام اور سبوتاژکرنے کی بھی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ احتجاج خواہ جے این یو کے اسٹوڈنٹس کا ہو یاشاہین باغ کی خواتیں کا، تحریک کسانوں کی ہو یا اگنی ویر کی مخالفت کی، گودی میڈیامنظم طریقے سے ان تحریکوں سے جڑے لوگوں کو جہادی، خالصتاتی، اربن نکسل، دیش دروھی، پاکستانی ایجنٹ وغیرہ وغیرہ قرار دیتا رہتا ہے۔ میڈیا کے اسی رویے کے سبب کسان اندولن کے دوران نے کسانوں نے بڑے بڑے بینرز لگادئے تھے جن پر لکھا تھا"زی نیوز، ریپبلک، آج تک۔ ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ۔ تم فیک نیوز چلاتے ہو۔ تم گودی میڈیا ہو۔" یہ ٹی وی مباحثے اب جان لیوا ہوچکے ہیں ۔تین سال قبل ایک ٹی وی ڈیبیٹ کے دوران کانگریس ترجمان راجیو تیاگی کو ایسے اعصاب شکن اذیت کا شکار ہونا پڑا کہ دل کے دورے سے ان کی موت ہوگئی۔ آج کل ٹی وی مباحثوں میں اس قدر شور شرابا، دھینگا مستی اورہاتھا پائی ہونے لگی ہے کہ کسی بھی حساس دل شخص کو ہارٹ اٹیک کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
 یہ اینکرزاگر اقتدار کی گود میں بیٹھ کر خوش ہوتے ہیں تو انہیں یہ خوشی مبارک لیکن اپنے سیاسی آقاؤں کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لئے وہ معاشرے میں مذہبی منافرت پھیلارہے ہیں اور فرقہ وارانہ فساد بھڑکارہے ہیں جو ایک سنگین جرم ہے۔ اگر سڑک پر چلتا ہوا ایک شخص ہیٹ اسپیچ دیتا ہے تو اس سے مٹھی بھر لوگ متاثر ہوتے ہیں لیکن جب ایک معروف اینکر پرائم ٹائم میں آگ اگلتا ہے تو پورا ملک اسے سنتا ہے اور لاکھوں اذہان اس کے فاسد خیالات سے پراگندہ ہوتے ہیں ۔ اس طرح کی ذہن سازی(indoctrination)عوام کو خونی بھیڑ میں تبدیل کردیتی ہے جس کے باعث سماج میں تشدد اور انتشارپھیل سکتا ہے۔ میڈیا کی نفرت صرف کسی فرد یا برادری کو نشانہ نہیں بناتی ہے بلکہ پوری قوم کو دنگوں اور تشدد کے لئے اکساتی ہے۔ روانڈا کی خانہ جنگی میں جس بربریت کا مظاہرہ کیا گیا وہ لوگوں کے ذہن میں تازہ ہے کیونکہ اس المیے کو ابھی تیس سال بھی نہیں ہوئے ہیں ۔1994 میں ہوتواکثریت نے توتسی قبائلی باشندوں کاجو اقلیت میں تھے قتل عام شروع کردیا۔ سو دنوں تک چلی نسل کشی میں آٹھ لاکھ توتسی باشندے مارے گئے۔ اس قتل عام کے لئے ہوتو کی ذہن سازی میں روانڈا کے ریڈیو اسٹیشنRTLM نے بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل آف روانڈا نے جنگی جرائم کے مقدموں میں RTLMکے بانی، چیئر مین اور عہدے داروں کو عمر قید کی سزا سنائی۔ گودی میڈیا کے اینکروں پر اگر لگام نہیں لگائی گئی تو وہ ہندوستان جنت نشان کو بھی خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دے سکتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK