Inquilab Logo

ای ڈی اور مودی نےراجستھان میں کانگریس کو متحد کردیا، بی جےپی کا پانسہ اُلٹا پڑگیا

Updated: October 29, 2023, 11:42 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

بی جے پی کو ایسا لگا ہوگا کہ گووند سنگھ ڈوٹا سرا اور اوم پرکاش ہڈلا کے یہاں چھاپوں اوروزیراعلیٰ گہلوت کے بیٹے کو سمن جاری کئے جانے سے پائلٹ کا خیمہ خوش ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا، اس کے برعکس کانگریس پوری طرح سے متحد ہوگئی۔

Sachin Pilot dashed BJP`s hopes by opposing ED action. Photo: INN
سچن پائلٹ نے ای ڈی کی کارروائی کی مخالفت کرکے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ تصویر:آئی این این

 پانچ ریاستوں میں انتخابی سرگرمیاں عرو ج پر ہیں ، ان میں سے تین ریاستیں ایسی ہیں ، جہاں ’کانگریس مکت‘ کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کا براہ راست مقابلہ کانگریس سے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے۲؍ ریاستوں چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں وہ پہلے ہی شکست تسلیم کرچکی ہےجبکہ تیسری ریاست راجستھان میں جہاں کانگریس کے انتشار کی وجہ سے اسے کچھ امید تھی، اب وہاں بھی اس کی امید دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ راجستھان کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ای ڈی اور مودی نے کانگریس کو متحد کردیا ہے۔
 گزشتہ ۳۰؍برسوں سے راجستھان میں ہرپانچ سال پر اقتدار کی تبدیلی کی روایت رہی ہے۔ بی جے پی یہ سوچ کرمطمئن تھی کہ وہ کچھ کرے، نہ کرے اس بار تو باری اُسی کی ہے۔اس کے اطمینان کی ایک بڑی وجہ کانگریس لیڈر سچن پائلٹ تھے جو خود ہی اپنی حکومت کیلئے اپوزیشن کا کردار نبھا رہے تھے۔ انہوں نے گہلوت حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا، بھوک ہڑتال بھی کی اور اس طرح پارٹی کی مرکزی قیادت کو ریاستی حکومت کے کام کاج میں مداخلت پر مجبور کیا۔ بی جے پی کو ایسا لگ رہا تھا کہ کانگریس کا یہ انتشار آسانی سے اسے راجستھان میں اقتدار تک پہنچا دے گا۔ حالات تھے بھی کچھ اسی طرح کے، جس کا اعتراف خود راہل گاندھی نے بھی کیا تھا۔انتخابی نتائج سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں کانگریس جیت رہی ہے جبکہ راجستھان میں مقابلہ برابری کا ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں ریاست میں ای ڈی کے چھاپوں نے ہوا کا رُخ پلٹ دیا ہے۔ بی جے پی نے جس فیصلے سے بہت زیادہ امید لگا رکھی تھی، وہی اب اس کیلئے سیلف گول محسوس ہونے لگا ہے۔ خواص تو خواص، عوام بھی مودی حکومت پر تنقید کرنے لگے ہیں اور چھاپوں کے وقت پر سوال کررہے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کی گہلوت حکومت جو اس سے قبل تک دفاعی انداز میں کھیل رہی تھی، اچانک فرنٹ فٹ پر آکر کھیلنے لگی اورمودی حکومت کو گھیرنے لگی۔ اب ریاست میں گہلوت بنام مودی چلنے لگا ہے۔ یہ بی جے پی کیلئے سبکی کی بات ہے کہ اس کے سب سے بڑے اور ’ناقابل تسخیر‘ لیڈر کا مقابلہ کانگریس کے ایک ریاستی لیڈر سے ہورہا ہے۔ بی جے پی یہ سوچ کر خوف زدہ ہے کہ اگر وہ ہار گئی، تو آئندہ انتخابات میں کس منہ سے مودی کو آگے کرے گی؟ ہماچل پردیش اور کرناٹک میں بی جے پی کو ان حالات کا سامنا نہیں ہوا تھا۔ وہاں مودی کا مقابلہ کانگریس کی ریاستی قیادت سےنہیں بلکہ مرکزی قیادت سے تھا۔
راجستھان میں اگر بی جے پی اِن حالات کا سامنا کررہی ہے تو اس کی وجہ خود وزیر اعظم مودی ہیں ۔ پانچ ریاستوں میں جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ، انہوں نے راجستھان کی ذمہ داری شاید یہ سوچ کر لی تھی کہ انہیں یہ ایک آسان ہدف لگا تھا۔ کانگریس وہاں پر ۲؍ واضح حصوں میں منقسم تھی لیکن ای ڈی کو سرگرم کرکے انہوں نے کانگریس کومتحد کردیا ہے۔ چھاپوں کے بعد بی جے پی یہ دیکھ کر حیران رہ گئی ہوگی کہ اشوک گہلوت کے بیٹے کے دفاع میں سب سے پہلے سچن پائلٹ سامنے آئے اور ایک جامع پریس کانفرنس کا انعقاد کیا جہاں انہوں نے میڈیا کے چبھتے ہوئے تمام سوالوں کا نہایت خوش اسلوبی سے جواب دیا۔
  بی جے پی کو ایسا لگا ہوگا کہ ریاستی کانگریس کے سربراہ گووند سنگھ ڈوٹا سرا اورکانگریس کے امیدوار اوم پرکاش ہڈلا کے یہاں چھاپوں اور اشوک گہلوت کے بیٹے ویبھو گہلوت کو سمن جاری کئے جانے سے سچن پائلٹ کا خیمہ یہ سوچ کر خوش ہوگا کہ اس کی وجہ سے گہلوت کی شبیہ متاثر ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سچن اس کے دام میں نہیں آئے۔ اس کے برعکس سچن پائلٹ نے نہ صرف ڈوٹا سرا، ہڈلا اور ویبھو کی بھرپور حمایت کی بلکہ بی جے پی کی سیاست کے بخئے بھی ادھیڑ کر رکھ دیئے۔ کافی عرصے کے بعد ایساہوا ہے کہ کانگریس پوری طرح سے متحد نظر آئی۔چھاپوں کی خبر سنتے ہی جہاں این ایس یو آئی (نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا) سے وابستہ طلبہ ڈوٹاسرا کے گھر پہنچ گئے اور ای ڈی پر سیاسی کارروائی کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا، وہیں وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ نے آناً فاناً پریس کانفرنس کا انعقاد کیا اور اپنا موقف واضح کیا۔ اسی طرح کانگریس کے آفیشیل ’ایکس‘ ہینڈل کے ساتھ ہی کانگریس سربراہ ملکارجن کھرگے اور کانگریس ترجمان سپریہ شرینیت نے فوری طور پر اس کارروائی کی مذمت کی اور اسے بی جے پی کی بوکھلاہٹ سے تعبیر کیا۔
  اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کی پریس کانفرنس کے بعد اب عوام بھی مودی حکومت سے سوال پوچھنے لگے ہیں کہ کیا واقعی ’ای ڈی‘ ایک آزاد ادارہ ہے اور اپنی مرضی سے کام کرتا ہے؟ اگر یہ کارروائی ’پیپر لیک‘ معاملے کی ہے تو اس کی جانکاری ای ڈی کے بجائے بی جے پی کیوں دے رہی ہے؟ اور اگر معاملہ ’پیپر لیک‘ ہی کا ہے تو اس میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی؟ الیکشن کے اعلان کا انتظار کیوں کیا گیا؟ اور وہ بھی اُس صورت میں جبکہ ریاستی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں خاطر خواہ کارروائیاں کی جا چکی ہیں ۔ ایک سوال یہ بھی کہ کیا ’پیپر لیک‘ جیسے معاملے کی جانچ بھی ای ڈی جیسی ایجنسی کرے گی؟ اگر ایسا ہی ہے تو راجستھان ہی کی طرح پیپر لیک کے معاملات اُترپردیش میں بھی ہوئے ہیں، وہاں کب کارروائی ہوگی؟ اشوک گہلوت کا کہنا ہے کہ کیس درج کئے بغیر ای ڈی نے پارٹی سربراہ ڈوٹاسرا کے یہاں چھاپہ مارا ہے۔ ایسے میں عوام کا یہ پوچھنا حق بجانب ہے کہ کیا یہ قانون کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہے؟لوگ یہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ کسٹم ڈپارٹمنٹ کے سابق افسر اوم پرکاش ہڈلا کو اگر کانگریس ٹکٹ نہیں دیتی تو کیا اُس صورت میں بھی ان کے یہاں چھاپہ پڑتا؟ خیال رہے کہ ملازمت چھوڑنے کے بعد انہوں نے بی جے پی ہی دامن کا تھام کر سیاست میں داخلہ لیا تھا اور ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد اُس وقت کی وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا نے انہیں اپنا پارلیمانی سیکریٹری بنایا تھا۔ یہ حقیقت بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ کے بیٹے ویبھو گہلوت کو ۱۲؍ سال پرانے ایک معاملے کیلئے سمن جاری کیا گیا ہے۔ ویبھو کے ساتھ ہی عوام بھی یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ اگر اتنے پرانے معاملے کی جانچ میں کچھ کمی رہ گئی تھی تو اس کیلئے انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کا انتظار کیوں کیا گیا؟ یہ پوچھ تاچھ پہلے کیوں نہیں کی گئی؟
ریاست میں ان سوالوں کی بازگشت نے بی جے پی کو پریشان کردیا ہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں اسے پانچ ایک سے ہونے والی شکست اب پانچ صفر میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK