سیاست کمنڈل پر مرکوز رہے یا منڈل کے گرد گھومے، یہ امکان کم ہے کہ نچلے طبقات کے ساتھ بامعنی انصاف ہوگا اور انہیں حق ملے گا۔
EPAPER
Updated: September 30, 2023, 9:56 AM IST | Shahid Latif | Mumbai
سیاست کمنڈل پر مرکوز رہے یا منڈل کے گرد گھومے، یہ امکان کم ہے کہ نچلے طبقات کے ساتھ بامعنی انصاف ہوگا اور انہیں حق ملے گا۔
سب سے پہلے ایک مختصر نظم سن لیجئے۔ اس کے خالق ہندی کے مشہور شاعر اوم پرکاش والمیکی ہیں۔ والمیکی اب اس دُنیا میں نہیں ہیں مگر اُن کی تخلیقات آج بھی زندہ ہیں، پڑھی جاتی ہیں اور موضوع بحث بنتی ہیں۔ جو نظم ابھی آپ پڑھیں گے وہ آر جے ڈی کے رُکن پارلیمان منوج جھا نے پارلیمنٹ کے حالیہ خصوصی اجلاس میں سنائی جسے سن کر بہت سے لوگ انگاروں پر لوٹ رہے ہیں مگر جھا ؔ کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اُنہوں نے ابتداء ہی میں یہ کہہ کر اپنا دفاع کرلیا کہ نظم کسی ذات یا طبقے کے خلاف نہیں بلکہ سرکش نفس ِ انسانی کے خلاف ہے مگر ایک ایسی نظم پر یہ وضاحت کون قبول کرسکتا ہے جس کا ایک ایک مصرعہ نشتر چبھوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اعتبار سے ایک بڑا داؤ کھیلتے ہوئے منوج جھا نے کمنڈل کی سیاست کو منڈل کی سیاست کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔ نظم کا عنوان ہے ’’ٹھاکر کا کنواں‘‘:
چولہا مٹی کا/ مٹی تالاب کی/ تالاب ٹھاکر کا
بھوک روٹی کی/ روٹی باجرہ کی/ باجرہ کھیت کا/ کھیت ٹھاکر کا
بیل ٹھاکر کا/ ہل ٹھاکر کا/ ہل کی مو‘ٹھ پر ہتھیلی اپنی / فصل ٹھاکر کی
کنواں ٹھاکر کا/ پانی ٹھاکر کا/ کھیت کھلیان ٹھاکر کے
گلی محلے ٹھاکر کے / پھر اپنا کیا؟
نظم میں ’’ٹھاکر‘‘ واضح ہے مگر یہ سماج کے اُن افراد کی علامت بھی ہے جو اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے طرح طرح کے حربے آزماتے ہیں، ہر شے کو اپنی جاگیر اور عوام کو اپنی رعیت یا غلام سمجھتے ہیں۔تمام دستیاب وسائل کو اپنی متاع سمجھنے کا ان کا رجحان انہیں اُکساتا ہے کہ سماج کو اپنے اشاروں پر چلائیں خواہ اس کیلئے ظلم و جبر کی حدوں سے گزر جانا پڑے۔ ان افراد کیلئے سماج کو اونچی ذات اور نیچی ذات کے زمروں میں بانٹ کر متوازی حکومت قائم کرلینا، جس میں اُنہی کا سکہ چلتا ہو، بہت آسان ہے۔ ہمارے ملک میں طبقاتی نظام کی جڑیں اتنی گہری اور مضبوط ہیں کہ نچلی ذاتوں میں پیدا ہونے والے لوگ بچپن سے ایک غیر قانونی سرکار کو اپنا مائی باپ سمجھتے ہیں۔ آس پاس کا ماحول، اپنے سے بڑوں کی بات چیت اور حالات و واقعات کے سبب ان کے ذہنوں پر یہ بات نقش ہوجاتی ہے کہ ظلم سہنا اُن کا مقدر ہے اور یہ جنم جنم سے ہورہا ہے کیونکہ وہ نیچی ذات کے ہیں۔ یہ ذہنیت بھی آج کی نہیں، صدیوں پرانی ہے۔
اتفاق سے اوم پرکاش والمیکی کا عنوان وہی ہے جو اس موضوع پر لکھے گئے پریم چند کے متعدد افسانوں میں سے ایک کا ہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ والمیکی کی نظم کی طرح پریم چند کا یہ افسانہ بھی مختصر ہے۔
افسانہ ’’ٹھاکر کا کنواں‘‘ کچھ اس طرح ہے:
جوکھو نے پانی پینے کیلئے لوٹا منہ سے لگایا تو اس میں سے سخت بدبو آئی۔ اس نے بیوی (گنگی) سے شکایت کی۔ وہ بے چاری کیا کرتی؟ وہ ایک ہی کنویں سے پانی بھر سکتی تھی، دوسرے کنوؤں پر جانا ’’ممنوع‘‘ تھا۔ جوکھو کئی دن سے بیمار ہے اور اِس وقت پیاس کی شدت سے تڑپ رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بدبودارہی سہی پانی پی لے مگر گنگی اُسے منع کرتے ہوئے تسلی دیتی ہے کہ وہ کنویں سے دوسرا پانی لے آئے گی۔ جوکھو جانتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کنویں پر نہیں جاسکتی اور جس کنویں سے روزانہ پانی لاتی ہے اس میں بدبودار پانی ہے، شاید کوئی جانور مرا ہے۔ جوکھو مطمئن نہیں ہوتا مگر اپنی پیاس کو بہلانے کی کوشش کرتا ہوا سو رہتا ہے۔ رات جب گنگی کو محسوس ہوتا ہے کہ اکا دکا جو لوگ اب تک جاگ رہے تھے وہ بھی سوچکے ہیں تو گھڑا اَور رَسی ّ لے کر گھر سے نکلتی ہے تاکہ ٹھاکر کے کنویں سے پانی بھر لے۔ وہ چھپتی چھپاتی اور اتنی چوکنا ہوکر آگے بڑھتی ہے کہ بقول پریم چند: ’امرت چرا لانے کیلئے جو راج کمار کسی زمانے میں گیا تھا، وہ بھی شاید اتنی ساؤدھانی کے ساتھ اور سمجھ بوجھ کر نہ گیا ہوگا۔‘ گنگی ہر طرح سے اطمینان کرلینے کے بعد کہ اُسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے گھڑے میں رسی کا پھندا لگاکر گھڑے کو پانی میں اُتار دیتی ہے اور جلدی جلدی ہاتھ مار کر گھڑے میں پانی بھر لیتی ہے۔ اس سے قبل کہ وہ گھڑے کو پکڑ کر جگت (کنویں کی مینڈھ) پر رکھتی، یکایک ٹھاکر کا دروازہ کھلتا ہے، کون ہے، کون ہے کی آواز گونجنے لگتی ہے اور ٹھاکر کنویں کی طرف آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ گنگی کے ہوش اُڑ جاتے ہیں اور وہ پکڑی جانے کے ڈر سے بے تحاشا بھاگنے لگتی ہے۔ اس وقت قاری گنگی کی بے چارگی پر آنسو بہاتا ہے مگر جتنی بے چارگی کا اب تک اظہار نہیں ہوا تھا، وہ افسانے کے آخری جملے سے سر اُبھارتی ہے۔ افسانہ اس جملے پر ختم ہوتا ہے: (ہانپتی کانپتی گنگی گھر پہنچی تو) دیکھا کہ جوکھو لوٹا منہ سے لگائے وہی میلا گندا پانی پی رہا ہے۔‘‘
وطن عزیز میں نیچی ذات پر ہونے والے مظالم کی تاریخ خاصی طویل ہے۔ قوانین بنے، نیچی ذات کے لوگوں کو اوپر لانے کی سیاسی کوششیں ہوئیں مگر زمینی سطح پر حالات کو جس قدر بدلنا چاہئے تھا، نہیں بدلے۔آج بھی دلتوں کے ساتھ کم و بیش ویسا ہی سلوک کیا جاتا ہے جیسا اب سے پچاس برس پہلے یا سو برس پہلے کیا جاتا تھا، اسی لئے اوم پرکاش والمیکی کی نظم ہو یا پریم چند کا افسانہ، ان کی معنویت کم نہیں ہوئی ہے۔ نچلی ذاتوں پر ہونے والے مظالم کا فنی احاطہ کرنے والی سیکڑوں کتابیں مختلف ہندوستانی زبانوں میں دستیاب ہیں۔ یہ دلت ادب ہے جس کی اُردو میں نمائندگی پریم چند سے لے کر آج تک کے افسانہ نگار کررہے ہیں، یہ الگ بات کہ اُردو میں اس نوع کا ادب آج بھی قلیل ہے البتہ تراجم سے استفادہ ممکن ہے۔
اس سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ جس قوم کو مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تھا، وہ اپنے پر ہونے والے مظالم ہی میں اُلجھی رہی، اُس نے اپنے آس پاس پھیلی ہوئی اس آبادی کے ساتھ نہ تو ہمدردی اور دوستی کی نہ ہی اُسے غیر انسانی تعصبات سے بچانے کے مقصد سے کوئی تحریک چلائی جبکہ مشترک انسانی درد ایسی کڑی ہے جو ایک کو دوسرے سے جوڑنے کی غیر معمولی طاقت رکھتی ہے۔
والمیکی، پریم چند اور ایسے ہی دیگر ادیبوں شاعروں کو پڑھئے تو پتہ چلتا ہے کہ وطن عزیز میں ایک ہی قوم نہیں ہے جو مظلوم ہے۔ کئی برادریاں اور طبقات زیادہ مظلوم ہیں جن کے استحصال کی کوئی حد نہیں ہے۔ ’’ٹھاکر کا کنواں‘‘ میں گنگی کی خود کلامی معرکہ کی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیچی ذات کی مزاحمت بھی ٹھاکر کیخلاف اپنے آپ سے کچھ نہیں کہہ پاتی۔ لرزتی اور ڈرتی ہے۔