Inquilab Logo

’’ناز پرور لہلہاتی کھیتیوں کا بادشاہ‘‘

Updated: February 17, 2024, 1:12 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

جوش ؔ نے اپنی طویل نظم ’’کسان‘‘ میں کسانوں کو ایسے کئی القاب سے نوازا ہے۔ یہ بھی کہا کہ ’’خون جس کا بجلیوں کی انجمن میں باریاب = جس کے سر پر جگمگاتی ہے کلاہ آفتاب‘‘ ، شعراء و ادباء کے دلوں میں کسانوں کیلئے یہی جذبہ تھا مگرسیاستداں چشم پوشی ہی کرتے رہے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

بچپنبھلے ہی اب معصوم نہ رہ گیا ہو مگر اب سے ربع صدی پہلے تک واقعی معصوم تھا۔ اس معصومیت کو سمجھنے کیلئے اتنا جان لینا کافی ہے کہ وہ لوگ جن کے بچپن کے دنوں  میں  ’’جے جوان، جے کسان‘‘ کی صدا ہر جانب گونجتی تھی، تب یہ بچہ سمجھتا تھا کہ جوان اور کسان محترم ہوتے ہیں ۔ یہ صدا یا نعرہ سنتے سنتے بچے کو جوان اور کسان سے انسیت ہوگئی بالخصوص کسان سے جسے وہ دیکھ سکتا تھا۔ اس نے ریل گاڑی کے سفر میں  ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن کے درمیان کھیت کھلیان میں  اسے بیج بوتے ہوئے، ہل چلاتے ہوئے یا بیل گاڑی ہانکتے ہوئے دیکھا تو اُسے بڑی اپنائیت کا احساس ہوا۔ ممکن تھا کہ وہ سوچتا کہ آبادی کا کوئی بھی طبقہ پریشان ہوسکتا ہے، کسان نہیں  ہوسکتا کیونکہ وہ تو قابل احترام ہوتا ہے مگر اُس وقت اُسے اتنی سمجھ نہیں  تھی۔
  جب یہ بچہ تھوڑا بڑا ہوا اور اسکول جانے لگا تو ابتدائی جماعتوں  کی درسی کتابوں  میں  اُس کی ملاقات پریم چند سے ہوئی جو دیہاتی زندگی کو منظر عام پر لانے میں  ید طولیٰ رکھتے تھے۔ درسی کتابو ں میں  اکا دکا ہی کہانیاں  تھیں  مگر ان کہانیوں  سے پہلی مرتبہ بچے کے ذہن میں  موجود کسان کی شبیہ متاثر ہوئی۔ وہ سوچنے لگا کہ کسان جیسی محترم شخصیت اس قدر پریشان اور مظلوم کیسے ہوسکتی ہے؟
  پھر وہ وقت آیا جب اسے اگلی جماعتو ں میں  دیگر کہانیاں  بھی پڑھائی گئیں ۔ اب تو بچپن کی تصویر بالکل ہی دھندلا چکی تھی اور اس کی جگہ ایسے کسان کی تصویر نے لے لی تھی جو مفلوک الحال تھا، فصلوں  کے ڈھیر لگادینے والا ضرور تھا مگر دانے دانے کو محتاج تھا، مہاجن اُسے ناکردہ گناہی کی ایسی سزا دیتا تھا کہ اُس کا وجود لرز جاتا تھا مگر وہ مہاجن کا کچھ نہیں  بگاڑ سکتا تھا، اول تو ہمت نہیں  تھی کیونکہ بچپن سے اُس کی سانسیں  مہاجن کے جبر تلے دبی ہوتی تھیں  اور اگر مزاحمت کا حوصلہ پیدا بھی کرلیتا تو جان کا خطرہ ستاتا تھا۔ 
 جب یہ بچہ شعور کی حدوں  تک پہنچا تو اس نے اپنے طور پر کچھ کتابیں  مطالعہ کیلئے منتخب کیں ۔ جس پریم چند سے اسکول میں  ملاقات ہوچکی تھی اُس کے مزید افسانے پڑھے۔ اُن افسانوں  کے کردار اب بھی اُس کے ذہن میں  تازہ ہیں ۔ ’’پوس کی رات‘‘ کا ہلکوؔ جو ایک کمبل کیلئے پیسے بچاتا ہے مگر ان میں  گاہے بہ گاہے شگاف پڑتا رہتا ہے یا پھر ’’گئودان‘‘ کا ہوریؔہے جس کا خواب ہے ایک عدد گائے خریدنا۔ اب اس بچے کی سمجھ میں  آیا کہ اپنے خون پسینے سے کھیت سینچنے اور دن رات کی مشقت سے فصلیں  اُگانے والے ان کسانوں  کی زندگی کیا ہے، یا تو ایک عدد کمبل کو ترسنا یا ایک عدد گائے کو آنگن میں  باندھنے کا خواب دیکھنا!
 اس بچے نے، جو اَب پختہ عمر کا ہوچکا ہے، اِن کسانوں  کی ابتلاء اور آزمائش کو گہرائی میں  جاکر محسوس کیا تو اِس کے دل میں  کسانوں  سے بلا کی ہمدردی پیدا ہوگئی۔ اُس کے دل سے آواز آئی ’’جے کسان!‘‘ مگر اسے حیرت ہے کہ آس پاس کے ماحول میں  اب ، بچپن کا وہ نعرہ نہیں  گونجتا۔ نئے نعرے جو نوعیت کے اعتبار سے سیاسی تو ہیں  مگر تشدد پسند سیاست کی علامت ہیں ، ہر طرف گونج رہے ہیں  مگر ’’جے جوان، جے کسان‘‘ کی موسیقی ریز آواز کہیں  نہیں  ہے۔ پختہ عمر کو پہنچ جانے کے بعد اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ دُنیا انیسویں  اور بیسویں  صدی کی منزلوں  سے گزر کر اکیسویں  صدی میں  داخل ہونے اور پہلے سے کہیں  زیادہ ترقی یافتہ کہلانے کے باوجود کسانوں  کو کچھ نہیں  دے سکی، اُن کیلئے کچھ نہیں  کرسکی۔ 
 ممکن ہے ہلکو کے ورثاء اب بھی ہوں ، اب وہ کمبل کیلئے تو نہیں  ترستے ہوں  گے مگر یہ طے ہے کہ کھاد کیلئے ترستے ہیں  جس کی کالابازاری اور مہنگائی اُنہیں  کمبل کے دنوں  کی یاد دِلاتی ہوگی! وقت بدل گیا مگر حالات نہیں  بدلے۔ دُنیا ترقی یافتہ ہوگئی مگر تنزلی کے نشانات ہنوز قائم ہیں ۔ جبر اور استحصال کی شکل بدل گئی مگر نہ تو جبر ختم ہوا نہ استحصال۔ مہاجن نہیں  رہا مگر ان کی ترقی یافتہ شکل آگئی  کارپوریٹ کمپنیاں ۔ گاؤں  بدل گیا مگر دوسروں  کی محنت پر اپنے منافع کی منصوبہ بندی کرنے والے اب بھی ہیں ۔ گاؤں  کو ملک کی بنیاد قرار دینے کی روش اب بھی برقرار ہے مگر گاؤں  کو ملک بدر کردینے کی سازش بھی پنپ رہی ہے۔ 
 اِن دنوں  ’’نئے بھارت‘‘ کی کوشش یہ ہے کہ کھیت تو رہیں  کسان نہ رہیں ۔ بڑی بڑی کمپنیاں  مشینوں  سے کام لیں  گی اور جو کام مشینیں  نہیں  کرسکیں  گی وہ یومیہ اُجرت والے مزدوروں  سے کروا لیا جائیگا۔ ان کمپنیوں  کو ہلکو اور ہوری جیسا نامعقول کسان نہیں  چاہئے جو فصل کی معقول اُجرت کا مطالبہ کرنے لگا ہے اور مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں  سڑکیں  جام کردیتا ہے، دھرنا دیتا ہے اور نرمی سے مگر سخت باتیں  کرتا ہے، اس کے لہجے میں  غصہ ہے، اس کے تیور مزاحمتی ہیں  اور اس میں  احساس خودی جاگ چکا ہے۔ کمپنیوں  کو یہ کسان نہیں  چاہئے، اس لئے بھی نہیں  کہ وہ پیشہ جو کسانی کہلاتا تھا جلد ہی مصنوعی ذہانت کے پروردہ روبوٹس بھی کرلیں  گے، کسانوں  کی کیا ضرورت ہے، اس لئے بڑی بڑی کیلیں  گاڑ کر ان کے راستے مسدود کرنا ضروری اور ان پر آنسو گیس چھوڑنا مجبوری ہے۔ کسان کی ضرورت نہیں  رہ گئی ہے جسے ’’ایم ایس پی‘‘ چاہئے، جس نے اُن کی ’’فلاح‘‘ کیلئے بنائے گئے تین زرعی قوانین کو واپس لینے پر مجبور کیا اور جو تھارؔ سے کچلے جانے کی واردات کو بھولنا نہیں  چاہتا، یاد رکھتا ہے اور اس واردات کے ملزم کے باپ کو کابینہ سے ہٹانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ 
 کسان مخالف حالات میں  سوچنے والے یہ بھی سوچتے ہیں  کہ ان کی آبادی الگ الگ اندازوں  کے مطابق چار کروڑ تا ساڑھے چودہ کروڑ کیوں  ہے؟ ان سے نمٹنا تو مشکل ہوجائیگا، یہی سوچ کر ان کے خلاف میڈیا کو میدان میں  اُتارا گیا کہ انہیں  خالصتانی کہو، آتنک وادی کہو، انہیں  ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے سمرتھک کہو یا جو چاہو کہو،  ان کا حوصلہ پست ہونا چاہئے۔ بلجیم، فرانس، نیدر لینڈ، جرمنی، اسپین اور دیگر ملکوں  میں  کسانوں  کا احتجاج ہوا مگر چند ہی دنوں  میں  اُن کے مطالبات کو تسلیم کرلیا گیا۔ ’’نئے بھارت‘‘ میں  ایسا نہیں  ہوا۔ 
 ان حالات میں  ہلکو ؔاور ہوریؔ کے بہی خواہ سوچ رہے ہیں  کہ کیا کسان ہونا جرم ہے، گناہ ہے؟ ان حالات میں  کہیں  ایسا تو نہیں  کہ’’جے کسان‘‘ کا نعرہ لگانے پر ایف آئی آر ہوجائیگی؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK