شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) کسی عذر شرعی کے بغیر محض سستی وکاہلی کی بنا پریا اسے غیر اہم سمجھتے ہوئے قصداً ترک جمعہ کرنے والوں کیلئے سخت وعیدیں وارد ہیں (۲) طلاق کا مسئلہ (۳) سود کے پیسے اور تاوان۔
EPAPER
Updated: September 27, 2024, 5:26 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) کسی عذر شرعی کے بغیر محض سستی وکاہلی کی بنا پریا اسے غیر اہم سمجھتے ہوئے قصداً ترک جمعہ کرنے والوں کیلئے سخت وعیدیں وارد ہیں (۲) طلاق کا مسئلہ (۳) سود کے پیسے اور تاوان۔
مفتی صاحب، ہم نے سنا ہے کہ تین جمعہ چھوڑنے والا منافق ہو جاتا ہے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟سعید الرحمٰن، نئی دہلی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: کسی عذر شرعی کے بغیر محض سستی وکاہلی کی بنا پر(یا اسے غیراہم سمجھتے ہوئے) قصداً ترک جمعہ کرنے والوں کیلئے حدیث پاک میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص سستی وکاہلی کی بناء پر تین جمعہ چھوڑدے من جانب اللہ اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ دوسری ایک روایت میں ہے کہ اسے منافق لکھ دیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ بھی روایات ہیں جن سے ترک جمعہ پر حضورﷺ کی شدید ناراضگی کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ ملحوظ رہے کہ وعید ان لوگوں کیلئے ہے جنہیں کوئی شرعی عذر نہ ہو۔ کوئی واقعی عذر ہو تو پھر یہ صورت وعید میں داخل نہیں، جیسے کوئی ایسا مریض ہے کہ جمعہ کیلئے پہنچنا ا س کے لئے دشوار ہے، کسی دشمن یا درندے کا خوف ہے، اتنی بارش ہے کہ وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا، یا ارباب اقتدار کی طرف سے کسی وجہ سے سختی کے ساتھ ممانعت ہے جیسے لاک ڈاؤن کے دنوں میں تھا وغیرہ وغیرہ ( بہت سے لوگ آج بھی اس تذبذب میں ہیں کہ ان ایام میں جو لوگ جمعہ نہیں پڑھ سکے کیا وہ اس وعید کا مصداق ہونگے۔ یہاں لاک ڈاؤن کی مثال اسی شبہ کے دفع کرنے کی غرض سے دی گئی ہے)۔ جو وعیدیں آئی ہیں ان سے جمعہ کی اہمیت اور قصداً ترک جمعہ کی قباحت کا اظہار مقصود ہے۔ یہ مقصد نہیں کہ واقعی یہ شخص کافر یا حقیقی منافق لکھ دیا جاتا ہے البتہ اس کیلئے توبہ اور استغفار کا حکم ہوگا۔ اگر توبہ کرکے چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرلے تو اب وعید کا مصداق نہ ہوگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
یہ بھی پڑھئے:فتاوے: ذہنی طور سے معذور ہونا وراثت سے مانع نہیں
طلاق کا مسئلہ
زید نےاپنی بیوی کو دو طلاق دے کر رجعت کرلیا ہے تو اب اسے کتنے طلاق کا اختیار باقی رہے گا؟ ایک طلاق یا ازسرنو تین طلاق ؟ اویس احمد ، یوپی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صریح طلاق کی صورت میں جب وہ ایک یا دو ہوں شوہر کو دوران عدت رجوع کا حق رہتا ہے، لیکن رجوع کے بعد بھی یہ رجعی طلاق شمار میں باقی رہتی ہے لہٰذا شوہر نے ایک طلاق دی ہو تو اسے دوکا اختیار رہتا ہے، دو دی ہوں تو صرف ایک کا اختیار باقی رہتا ہے اس لئے صورت مسئولہ میں اگر زید نے دو طلاق رجعی کے بعد دو ران عدت رجوع کرلیا تھا تو ان کے درمیان زوجیت کا رشتہ استوار ہوگیا اور اب وہ حسب سابق میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں لیکن زید کو آئندہ طلاق سے مکمل احتیاط رکھنی ہوگی اس لئے کہ اب اسے صرف ایک طلاق کا اختیار باقی ہے، آئندہ مزید ایک طلاق سے تین پوری ہوجائیں گی جس سے بچنا چاہئے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
سود کے پیسے اور تاوان
ہمارے دفتر میں چوری ہوئی جس کا تخمینہ مبلغ تیس ہزار روپے لگایا گیا۔ ہم نے بغیر ثبوت کے ایک ملازم سے تفتیش کی تو اس نے اقرار کرلیا، اس کے بعد ہم نے مذکورہ ملازم سے بطور جرمانہ تیس ہزار روپے وصول کر لئے جو کہ اس نے کہیں سے سود کی مد میں اٹھا کر ادا کئے۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ہم مذکورہ رقم کو ذاتی مد میں خرچ کرسکتے ہیں یا مسجد و مدرسے میں صرف کر سکتے ہیں ؟
عبد اللہ، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اول تو صورت مسئولہ میں یہی غیر یقینی ہے کہ اس ملازم نے واقعی چوری کی تھی۔ آپ نے خود لکھا ہے بغیر ثبوت کے تفتیش کی گئی تھی۔ ایسی تفتیش میں مالکان کی طرف سے عموما ً تشدد بھی ہوسکتا ہے ورنہ کم از کم اکثرایسی دھمکیاں بہر حال ہوتی ہیں جن کے خوف سے غریب ملازم ناکردہ گناہ کا اقرار کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے لہٰذا اس صورت میں کہیں سے سود کے مد کی رقم لاکر اس نے جو رقم بطور جرمانہ ادا کی ہے بہتر تو ہوگا کہ اسی کو یہ رقم دےدیں کیونکہ بہت ممکن ہے اس نے کسی سے سودی قرض لے کر یہ جرمانہ ادا کیا ہو البتہ اگر کسی جبری تفتیش کے بجائے اسے رنگے ہاتھوں غبن کرتے ہوئے پایا گیا ہو یہ الگ صورت ہے۔ لیکن اگر سودی قرض کے بجائے خالص سود کی رقم ہو تو اس کے ذاتی استعمال سے آپ حضرات کو بچنا ہوگا۔ ( علماء نےمال حرام سے اجرت کو بھی منع لکھا ہے)۔ مسجد اور مدرسے میں بھی مال حرام کا استعمال درست نہیں۔ اس لئے ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ بغیر ثواب کی نیت کے غرباء ومساکین کو بطور صدقہ دےدی جائے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم