Inquilab Logo

یوپی میں لڑائی ۸۵ ؍فیصد بمقابلہ ۱۵ ؍فیصد

Updated: January 18, 2022, 3:31 PM IST | Hassan Kamal

اتر پردیش میں ہندو ووٹ ۸۰ ؍ فیصد اور مسلم ووٹ۲۰ ؍فیصد کے قریب ہیں۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ یو پی میںتو اس کے سوا کوئی اور ایشو ہے نہیںلیکن یہ چال اس وقت الٹ گئی جب یو پی کے عوام نےلڑائی ۱۵؍ فیصد بمقابلہ ۸۵ ؍فیصد بنا دیا۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

پانچ صوبوں کے اسمبلی انتخابات کی تاریخیں جیسے جیسے قریب آتی جارہی ہیں، سیاسی پارٹیوں میں ہلچل اور بھاگم بھاگ میں ویسے ویسے اضافہ نظر آرہاہے۔ہندوستان کی سیاست میں الیکشن سے پہلے لوگوں کا ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی کادامن تھامنے کا نظارہ نیا نہیں ہے۔ یہ ایک عام رسم ہے اور اس کا تعلق ہر بات سے ہوتا ہے بس کسی نظریاتی وفاداری یا کسی نظریاتی اصول کی پابندی کے نہیں ہوتا۔  الیکشن کے وقت ادھر سے ادھربھاگنے والوں کی زیادہ بڑی تعداد ان عناصرکی ہوتی ہے، جن کے جائزاور نا جائز دھندے حکومت وقت کی سرپرستی کے بغیر چل ہی نہیں سکتے۔ یا پھر جنہیں اپنی اپنی مجرمانہ حرکتوں کی وجہ سے عتاب سے بچنے کے لئے سرکار کی مدد چاہئے ہوتی ہے لیکن آج جو بھگدڑ نظرآرہی ہے اس کے چند دوسرے پہلو ہیں۔ یہ پہلو بہت دلچسپ ہیں۔  بی جے پی کو خاصے طویل عرصہ کے بعد یہ تجربہ ہو رہا ہے کہ بھاگنے والوں کا رخ دوسری جماعتوں کی طرف ہے، اس کی طرف نہیں ہے ۔ مغربی بنگال کے الیکشن سے پہلے تک بھاگنے والوں کا رخ ہمیشہ بی جے پی کی طرف رہا تھا۔ مغربی بنگال میں بھی الیکشن سے پہلے درجنوں کے بھائو سے ترنمولی کانگریسی، بی جے پی کی طرف بھاگ رہے تھے اور ایک وقت تو ایسا لگا کہ دیدی بالکل اکیلی رہ جائیں گی لیکن الیکشن کے نتائج آتے ہی پہیہ الٹا گھومنے لگا،درجنوں کے بھائو سے بی جے پی کے ممبر ٹی ایم سی کا رخ کرنے لگے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس کا پیغام بہت دور تک گیا۔ پیغام یہ گیا کہ بی جے پی اب جیتنے والی پارٹی نہیں رہ گئی ہے ۔ گودی میڈیا کی مدد سے بی جے پی نے اس تاثر کو زائل کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن یہ تاثر دور نہیں ہو سکا۔ آج یو پی میں جو بھگدڑ مچی ہوئی ہے وہ اسی تاثر کا نتیجہ ہے لیکن صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ یو پی کی بھگدڑ کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مودی اور یوگی اسے خالص ہندو مسلم ایشو بنانا چاہتے تھے۔ ایک بار پھر قبرستان اور شمشان ، کاشی اور متھرا کے نعرے پورے زور و شور سے سنائی دے رہے تھے۔ نقطۂ عروج یہ تھا کہ آدتیہ ناتھ نے اعلان کر دیا کہ ساری لڑائی ۸۰؍ فیصد اور ۲۰؍ فیصد کے مابین ہونے والی ہے۔ اس اشارے کو سمجھنے کے لئے کسی کا راکٹ سائنسداںہونا ضروری نہیں تھا۔ اتر پردیش میں ہندو ووٹ ۸۰ ؍ فیصد اور مسلم ووٹ۲۰ ؍فیصد کے قریب ہیں۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ یو پی میںتو اس کے سوا کوئی اور ایشو ہے نہیںلیکن یہ چال اس وقت الٹ گئی جب یو پی کے عوام نے  لڑائی ۱۵؍ فیصد بمقابلہ ۸۵ ؍فیصد بنا دیا۔خیال رہے کہ صرف ۱۵ ؍فیصد ہندو سورن یا اپر کاسٹ ہیں، باقی ۸۵ ؍فیصد ہندودلت اور پسماندہ ہیں۔گزشتہ چند برسوں میں بی جے پی اور آر ایس ایس نے پسماندہ طبقات اور دلتوں کی کئی برادریوں کو یہ یقین دلایا تھا کہ اگر وہ ہندوتوا کی چھتر چھایا میں آجائیں تو انہیں پسماندہ یا او بی سی اور دلتوں کے بجائے صرف ہندو سمجھا جائے گا اور حکومت کی فراہم کردہ کئی ایسی سہولیات جو ابھی صرف او بی سی اور دلتوں کی چند مخصوص برادریوں کو مل رہی ہیں، وہ انہیں بھی دی جائیں گی۔کئی او بی سی اور دلت برادریاں اس جھانسے میں آگئیں۔ یہی نہیں انہیں یہ بھی یقین دلایا گیا کہ اگر وہ مسلم دشمنی میں بی جے پی اور آر ایس ایس کا ساتھ دیں تو ان کی سماجی منزلت میں بھی اضافہ ہوگا۔   لیکن مودی کے سات سالہ اور یوگی کے ساڑھے چار سالہ راج میں انہیں یہ تلخ تجربہ ہوا کہ انہیں پہلے جو مراعات میسر تھیں ، ان میں اضافہ کے بجائے کمی ہوتی جا رہی ہے۔  او بی سی اور دلت برادریوں کو احساس ہونے لگا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے لیکن ایک تو بی جے پی اور آر ایس ایس کی گرفت بہت مضبوط تھی۔ دوسرے ان کے کئی بڑے لیڈر وزارتی اور جماعتی عہدوں کے ذریعہ خرید لئے گئے تھے اور کو ئی ایسی لیڈر شپ موجود نہیں تھی جو اس منتشر شیرازہ کویکجا کر سکے۔ ملائم سنگھ اب اتنے سرگرم عمل نہیں رہ گئے تھے، مایاوتی کو مقدمات میں پھنسا دیا گیا تھا ، لالو پرساد جیل میں بند تھے ۔ چند اور ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس کی زد میں تھے۔ غرض کوئی ایسا لیڈر نہیں تھا، جو انہیں ایک چھت کے نیچے اکٹھا کر سکتا۔ کورونا کی وجہ سے کوئی بڑی تحریک بھی ممکن نہیں تھی۔پسماندہ طبقات اور دلتوں کو بی جے پی کے خلاف یکجا کرنے میں سب سے اہم رول وامن میشرام نے ادا کیا ہے۔ وامن میشرام کا تعلق یوں تو مہاراشٹر کے مراٹھواڑے سے ہے، لیکن ان کی اپیل ہندوستان بھر کے اپیلوں تک پائی جاتی ہے۔وہ دلتوں کے بہت بڑے سوشل ریفارمر کے طور پر بین الاقوامی حلقوں میں بھی جانے جاتے ہیں۔ انہیں کانشی رام کے بعد سب سے بڑا دلت رہنما مانا جاتا ہے۔  ابھی تک وہ عملی سیاست سے فاصلہ بنائے ہوئے تھے لیکن پچھلے چند ماہ سے انہوں نے اتر پردیش میں ڈیرہ ڈال رکھے تھے۔ وہ پسماندہ طبقات اور دلتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے رات دن کام کر رہے تھے۔ انہوں نے ان برادریوں کو ایک بار پھر اکٹھا کر دیا ہے، جنہیں بی جے پی اور آر ایس ایس نے ایک دوسرے سے دور کر دیا تھا۔ ان کی کوششوں کے سبب ہی اس وقت یادو، گوجر، کرمی، پٹیل، پاسی(راج بھر)،ملاحوں کی برادریاں موریہ، نشاد،سینی، شاکیہ اور چھوٹی دلت برادریاں جیسے جاٹو، والمیکی، وشو کرما(لوہار)،پرجا پتی(کمہار) سنار وغیرہ ایک ساتھ آچکے ہیں۔ اس کے علاہ تیلی، دھوبی اور نائی برادریاں بھی ان کے ساتھ آگئی ہیں۔ اس طرح ۸۵ ؍فیصد ایک طرف ہیں اور ۱۵ ؍فیصد سورن ہندو یعنی برہمن، کشتری اور ویشیہ ایک طرف ہیں اور سیاسی طاقت کے حصو ل کیلئے دونوں میں زبردست رسہ کشی ہو رہی ہے۔ وامن میشرام نے اب ان تمام چھوٹی بڑی برادریوں کو اکھلیش یادو کے پیچھے لا کھڑا کیاہے۔حالانکہ نوجوان چندر شیکھر آزاد المعروف (راون) ابھی سماجوادی گٹھ بندھن میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن یہ ایک اہم ڈیولپمنٹ ہے۔ ان کا تعلق جاٹو(چرم کار) برادری سے ہے۔ اس برادری کے یو پی میں ۱۶ ؍فیصد ووٹ ہیں۔ اب تک یہ برادری پوری طاقت سے مایا وتی کے ساتھ رہی ہے۔ لیکن موجودہ سیاسی ماحول سے مایاوتی کی لا تعلقی کی روش نے جاٹو برادری کو بہت مایوس کیا ہے۔ چندر شیکھر کا مغربی یوپی میں اچھا خاصہ اثر ہے۔ ہمارے ذرائع ہمیں بتاتے ہیں کہ وامن میشرام نے ان سب عناصر کو اکھلیش کے پیچھے اس شرط پر اکٹھا کیا ہے کہ اکھلیش سرکار بناتے ہی صوبہ میں کاسٹ کی بنیاد پر مردم شماری کرائیں گے اور اکھلیش نے اس کا وعدہ بھی کیا ہے۔  کاسٹ کی بنیاد پر مردم شماری پہلی اور آخری بار ۱۹۱۱ءمیں ہوئی تھی۔ اگر یہ مردم شماری ہو گئی تو حتمی طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ہندوئوں میں کس کاسٹ کی کیا تعداد ہے۔ یہ منڈل سے بھی بڑا ڈیولپمنٹ ہوگا۔ ظاہرہے کہ آر ایس ایس اس ڈیولپمنٹ سے سخت خوفزدہ ہے۔ یہ مردم شماری ۸۵ ؍فیصد بمقابلہ ۱۵؍ فیصد کی لڑائی کا نقطہ ٔ عروج ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK