Inquilab Logo

آیاتِ سجدہ کا ترجمہ، تفسیر اور شانِ نزول

Updated: March 28, 2024, 1:45 PM IST | Dr Mohammed Iqbal Khalil

آپ تلاوت کررہے ہوں یا تراویح ادا کر رہے ہوں، ان آیتوں کو پڑھتے اور سنتے وقت سجدہ کیا جاتا ہے مگر اکثر لوگ ان کی تفصیل سے واقف نہیں ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

دین اسلام میں اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنے اور سجدہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ حدیث پاک میں ہے: ’’بندہ (دورانِ نماز) سجدہ میں اپنے رب کے زیادہ قریب ہوتا ہے، لہٰذا سجدے میں کثرت سے دُعا کیا کرو۔ ‘‘ (مسلم، کتاب الصلوٰۃ)۔ 
مولانا مودودیؒ آیاتِ سجدہ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’قرآنِ مجید میں ایسے ۱۴؍ مقامات ہیں جہاں آیاتِ سجدہ آئی ہیں۔ ان آیات پر سجدے کا مشروع ہونا تو متفق علیہ ہے مگر اس کے وجوب میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سجدۂ تلاوت کو واجب کہتے ہیں اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی کریمؐ بسااوقات ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپؐ خود بھی سجدے میں چلے جاتے تھے اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا، حتیٰ کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لئے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپؐ نے جب فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں آیت ِسجدہ آئی تو جو لوگ زمین پر کھڑے تھے انہوں نے زمین پر سجدہ کیا اور جو گھوڑوں اور اُونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ 
یہ بھی ہوا کہ جب آپؐ نے دورانِ خطبہ آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اُتر کر سجدہ کیا ہے اور پھر دوبارہ منبر پر جاکر خطبہ جاری رکھا۔ اس سجدے کیلئے جمہور انہی شرائط کے قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں، یعنی: ’’ باوضو ہونا، قبلہ رُخ ہونا اور نماز کی طرح سجدے میں زمین پر سر رکھنا۔ لیکن جتنی احادیث سجدۂ تلاوت کے باب میں ہم کو ملی ہیں ان میں کہیں بھی ان شرطوں کیلئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو، جھک جائے۔ ‘‘ (تفہیم القرآن، ج۲، ص۱۱۵۔ ۱۱۶
رمضان المبارک میں صلوٰۃ التراویح میں ختم قرآن کے دوران اور تلاوتِ قرآن کے موقع پر سجدۂ تلاوت کے مواقع اور ان کا التزام بالعموم بڑھ جاتا ہے اور ہر خاص و عام، بچہ، بوڑھا، جوان، مرد اور عورت سجدۂ تلاوت باجماعت کرتے ہیں۔ اس مضمون میں ان تمام آیاتِ سجدہ کو ترتیب سے جمع کرکے ان کا ترجمہ و تفسیر اور شانِ نزول بیان کردی گئی ہے جس طرح وہ قرآن میں موجود ہیں۔ زیادہ تر حواشی تفہیم القرآن سے لئے گئے ہیں۔ صرف ایک آیت کی تفسیر، ابن کثیر سے لی گئی ہے۔ اُمید کی جاتی ہے اس مطالعے سے قاری، سجدۂ تلاوت کے موقع پر زیادہ خشوع و خضوع کے ساتھ پروردگار عالم کے حضور میں اپنا عجز وانکسار اور اپنی کوتاہ دامنی کا اظہار کرسکیں گے، ان شاء اللہ۔ 
پہلا سجدہ (۹؍واں پارہ)
’’ جو فرشتے تمہارے رب کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے، اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، اور اس کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ ‘‘
(اعراف ۷: ۲۰۶)
مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے اور اس کا نتیجہ پستی و تنزل ہے۔ بخلاف اس کے خدا کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا ملکوتی فعل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور خدا سے تقرب ہے۔ اگر تم ترقی کے خواہش مند ہو تو اپنے طرزِ عمل کو شیاطین کے بجائے ملائکہ کے طرزِعمل کے مطابق بناؤ۔ تسبیح کرتے ہیں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے نقص اور بے خطا ہونا، اس کا ہرقسم کی کمزوریوں سے پاک ہونا، اور اس کا لاشریک اور بے مثل اور بے ہمتا ہونا دِل سے مانتے ہیں، اس کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور دائماً اس کے اظہار و اعلان میں مشغول رہتے ہیں۔ 
اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے تاکہ اس کا حال ملائکہ ٔ مقربین کے حال سے مطابق ہوجائے اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں اسی کے آگے وہ بھی ان سب کے ساتھ جھک جائے، اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کردے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲، ص ۱۱۵) 
(کل ملاحظہ ہو: دوسرا، تیسرا اور چوتھا سجدہ) 
یہ کالم سابقہ رمضان میں بھی شائع ہوا تھا مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے مکرر شامل اشاعت کیا گیا ہے، قارئین نوٹ فرمالیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK