Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں: فروری کی ایک دوپہر میں گاؤں کی سیر، کنچے کا کھیل اور بطخوں کاشور

Updated: February 18, 2024, 12:35 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

دس فروری کی دوپہر تھی، دھوپ کھلی ہوئی تھی، سردی کا ذرا بھی احساس نہیں ہورہا تھا، کسی کے جسم پر گرم کپڑا نہیں تھا، صبح کے وقت تھا، لیکن دوپہر ہوتے ہوتے سب اتر گیا۔ 

Ducks are not seen in cities, but in villages and rural areas, ducks are still reared with passion. Photo: INN
شہروں میں بطخ دیکھنے کو نہیں ملتیں لیکن گاؤں اور دیہی علاقوں میں آج بھی بطخ شوق سے پالی جاتی ہیں۔ تصویر : آئی این این

دس فروری کی دوپہر تھی، دھوپ کھلی ہوئی تھی، سردی کا ذرا بھی احساس نہیں ہورہا تھا، کسی کے جسم پر گرم کپڑا نہیں تھا، صبح کے وقت تھا، لیکن دوپہر ہوتے ہوتے سب اتر گیا۔ 
 بچے، جوان اور بوڑھے سب عام دنوں کی طرح تھے، کچھ دوڑ بھاگ رہے تھے، توکچھ لوک کسی کے دوارے (دروازے) پر بیٹھے گپ شپ کررہے تھے، کچھ مویشیوں کی خدمت کررہے تھے، انہیں چارا پانی دے رہے تھے، انہیں اس کھونٹے سے اس کھونٹے میں باندھ رہے تھے۔ برسبیل تذکر ہ کھونٹے کی بھی وضاحت ضروری ہے، دیکھئے، کھونٹاعام طور پر بانس کا استعمال ہوتا ہے۔  حسب ضرورت اس کا مضبوط حصہ کاٹا جاتا ہے، اسے تراشا جاتا ہے، پھر زمین میں  گہرائی تک گاڑ ا جاتا ہے، اسی میں   جانور کو باندھا جاتا ہے۔ 
نوجوان کسی پلیا یا کسی تناوردرخت کے نیچے بیٹھے با آواز بلند گیم کھیل رہے تھے۔ کچھ بڑے بوڑھے چارپائی پر لیٹے موبائل پر یوٹیوب سے استفادہ کررہے تھے، آس پاس سے بےخبر دنیا جہان سے باخبر ہورہے تھے، خبریں دیکھ اور سن رہے تھے، صحافیوں کے تبصروں پر بھی غور کررہے تھے۔ شیخ چلی اور دیگر مزاحیہ پروگراموں کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ گویا گاؤں والے اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ ہرشخص عام لباس میں تھا، کچھ ہاف ٹی شرٹ والے نوجوان بھی نظر آرہے تھے۔ یہ کالم نگار فروری کی دوپہر میں گاؤں کی سیر کیلئے نکلا تھا، آبادی کی سڑکوں پر کم کم ہی لوگ دکھائی دے رہے تھے، ہاں کچھ بچے راستے ہی میں کرکٹ کھیل رہے تھے، کوئی وہاں سے گزرتا تو وہ رک جاتے تھے اور اس کے آگے بڑھنے کے بعد ہی کھیلتے تھے۔ ایک زمانے میں فروری کی دوپہر میں سب سے زیادہ گولی یعنی کنچے کھیلے جاتے تھے، بچے تو بچے نوجوان بھی اس کھیل میں شامل ہو جاتے تھے اور وہ بھی بچوں کے ساتھ بچے بن جاتے تھے، خوب شور کرتے تھے، بیچ بیچ میں کھیل روک کر اچھی خاصی بحث ہوجاتی تھی، کبھی کبھار ہاتھاپائی تک کی نوبت آجاتی تھی۔ بات بڑھ جاتی تھی تو بڑے بوڑھے مداخلت کرتے تھے اور کل سے یہاں کھیلنے مت آنا کی تاکید کرکے گھر بھیج دیتے تھے مگر صبح ہوتے ہی دشمنی دوستی میں بدل جاتی تھی، کدورت ختم ہوجاتی تھی، سارے گلے شکوے دور ہوجاتے تھے، پھر وہی دوست یار ہوتے تھے، اسی راستے پر کانچ کی گولیاں بچھ جاتی تھیں، کنچے سے کنچے میں نشانہ لگایا جاتا تھا، زیادہ دور سے نشانہ لگانے والے کو داد ملتی تھی، تماشائی بھی کم نہیں ہوتے تھے، وہ دل کھول کر داد دیتے تھے، شور کرنے میں وہ بھی پیش پیش رہتے تھے۔ کچی زمین پر نشان بنائے جاتے تھے، چھوٹے چھوٹے گڑھے کھودے جاتے تھے، جیتنے والوں کی جیب کنچوں سے بھر جاتی تھی، وہ فاتح کی طرح اسے بجاتے ہوئے گھر لے کرجاتے تھے، کنچوں کی آواز سے اپنے مخالف کو چڑاتے تھے، اس کا مذاق اڑاتے تھے، ہارنے والی کی جیب خالی ہوجاتی تھی، وہ شکل سے ناکام و نامراد نظر آتا تھا، لٹا پٹا سا لگتا تھا، سر جھکائے رہتا تھا، دوستوں یاروں سے نظریں بچاتا تھا، ہار کا غم لئے بوجھل قدموں سے گھرکی راہ لیتا تھا۔ 
 اس دن دوپہر میں گاؤں کی گلیوں میں کنچے کھیلتے ہوئے کوئی نظر نہیں آیا۔ ایسا لگا کہ گاؤں کی ایک اور روایت آخری سانسیں گن رہی ہے، ایک اور روایتی کھیل کا کھیل تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: فروری میں ٹھنڈ کا زور کم ہوگیا ہے، گاؤں کی رونق ایک بار پھر لوٹ آئی ہے

 کنچے والے نہیں ملے تو اس کالم نگار نے آبادی سے بہت قریب کے کھیتوں کا رخ کیا جہاں اب کچھ گھر بھی بن چکے ہیں، اس جگہ ایک باغیچہ ہے۔ اس میں مختلف نسلوں کے بکرے پالے گئے ہیں، یہاں خرگوش بھی دوڑتے پھرتے رہتے ہیں، مرغیاں بھی کٹ کٹ کرتی رہتی ہیں۔ بہترین بکروں اور مرغوں کا یہ انتخاب سب سے زیادہ بچوں کو بھاتا ہے، وہ اس انجمن میں بار بار آتے ہیں، خرگوش کو ستاتے ہیں، اسے دوڑاتے ہیں، بکروں کو ہاتھ سے چھوتے ہیں۔ اس دن دوپہر کے وقت باغیچے میں کوئی نہیں تھا، بکرے اور خرگوش بھی باڑے میں آرام کررہے تھے۔ ایک نوجوان چارپائی پر سر سے پاؤں تک کمبل لپیٹےخواب خرگوش میں تھا، اس کے خراٹے بھی سنائی دے رہے تھے۔ ایک دو کتے دھول میں لیٹے تھے، وہ بھی اونگھ رہے تھے۔ جانوروں کا چارا بالنے(کاٹنے) والی مشین بھی خاموش تھی۔ یہ کالم نگار یہاں سے خالی لوٹ رہا تھا کہ اس کی نگاہ ایک نوجوان پرپڑی جو سامنے ننھے کھلاڑیوں کی والی بال کی فیلڈ میں کھڑا تھا، وہ بڑی بڑی بطخوں کو قابو میں کررہا تھا، وہ مسلسل شور مچا رہی تھیں۔ اپنی لمبی لمبی چونچ سے اسے زخمی کرنے کی کوشش کررہی تھیں مگر وہ انتہائی مہارت کے ساتھ ان سے بچ رہا تھا، پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس نے بطخ کے ایک بچے کو اٹھا لیا تھا، بس یہی اس کا گناہ ہے، اسی پر یہ بطخیں بھڑک گئی ہیں۔ چپ ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں، کوئی اور ہوتا تو زخمی کردیتیں۔ بطخ اور مرغی کے چوزوں کو چھونے پر ہمیشہ ایسا ہی ردعمل ہوتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK