Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں: پہلے گھر گھر میں مرغیاں پالی جاتی تھیں، ڈربے بنانے اور انڈا کھانے کھلانے کا چلن تھا

Updated: February 25, 2024, 3:50 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

گزشتہ کالم میں چوزے کو چھونے پر بطخوں کے شور کا ذکر ہوا تھا۔ اس پر گاؤں کے ایک قاری نے مرغی پالن پر لکھنے کی فرمائش کی۔ باتوں ہی باتوں میں  وہ کہنے لگے کہ ان کی امی نے مرغیاں  پالی تھیں۔

The practice of keeping chickens is gradually disappearing. Photo: INN
مرغیاں پالنے کا رواج اب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ کالم میں چوزے کو چھونے پر بطخوں کے شور کا ذکر ہوا تھا۔ اس پر گاؤں کے ایک قاری نے مرغی پالن پر لکھنے کی فرمائش کی۔ باتوں ہی باتوں میں  وہ کہنے لگے کہ ان کی امی نے مرغیاں  پالی تھیں۔ آنگن کے ایک حصے میں ان کا بڑا سا چکنی مٹی کا ایک دربہ(ڈربہ) تھا جو اُن کی امی نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا۔ بیٹے کی مدد سے اسے سنوارا تھا، پہلے پتلے اینٹ اور گارے کی دیوار کھڑی کی تھی، پھر اس پر تالاب کی چکنی مٹی لگا کر اسے چکنا کیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے وہ چولہہ(مٹی کا چولہا)بناتی تھیں۔مٹی میں بھوسا بھی ملایا جاتا تھا، جس دن وہ ڈربہ بناتی تھیں، خود کو بھول جاتی تھیں، ان کے کپڑے گندے ہوجاتے تھے۔ ان کے ہاتھ بھی مٹی سے سنے رہتے تھے، ان کے ساتھ گھر کا ہر فرد لگا رہتا تھا، یہاں تک کہ بچے بھی کچھ نہ کچھ کرتے  تھے، چین سے نہیں بیٹھتے تھے،کچھ نہیں تو کام ہی بگاڑتے تھے۔ امی جس مٹی کو گوندھ کر رکھتی تھیں، اسی سے بچے اپنے کھلونے بناتے تھے، گھروندے تیارکرتے تھے، جب تک بچے اپنے کام سے کام رکھتے تھے، امی کے کام میں مداخلت نہیں کرتے تھے، اس وقت تک انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا تھا لیکن جیسے ہی وہ امی کو پریشان کرنے کاموڈبناتے تھے، بہنیں ہی انہیں ڈانٹ دیتی تھیں، پکڑ کر دور ہٹادیتی تھیں۔
  اس طرح وہ انہیں امی کے عتاب سے بچالیتی تھیں کیونکہ کام میں ٹانگ اڑانے والے بچے ان کے ہاتھ آجاتے تھے تو وہ ان کی ٹانگ توڑنے کے موڈ میں  ہوجاتی تھیں، کام وام چھوڑ کر پہلے لاتوں اور گھونسوں کی بارش کرتی تھیں، پھر کچھ کرتی تھیں۔ بے تحاشہ مارتی تھیں،کسی بڑی بوڑھی یا بڑے بوڑھے کی مداخلت ہی پر اُن کا ہاتھ رکتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اس بچے کو خود مناتی بھی تھیں،بچوں کے موٹے موٹے آنسوؤں کا سیلاب روکنے  کیلئے اٹھنی(آٹھ آنے) کا چڑھاوا بھی چڑھاتی تھیں، امی کا بھی غصہ جائز ہوتا تھا، کیونکہ بچے ڈربے کی دیوار کو ہاتھ لگا کر گھنٹوں کی محنت ایک لمحے میں ضائع کر دیتے تھے۔ دیوار بننے کے بعد بانس کے ٹکڑے گارے سے جوڑے جاتے تھے، مختلف خانے بنائے جاتے تھے۔ پھر گھاس پھوس ریٹھا(ارہر کا سوکھا پودا) اور سرپت کی مدد سے اس کی چھت بنائی جاتی تھی،مئی اور جون کی گرمیوں میں ڈربہ ایک دن میں سوکھ جاتا تھا۔ نئے گھر میں مرغیوں کی آمد کی کوئی تقریب نہیں ہوتی تھی، ’پرویش گرہ‘ پر کوئی پروگرام نہیں ہوتا تھا۔ مرغیاں نئے گھر میں شان سے داخل ہوتی تھیں، وہ انعام کے طور انڈےدیتی تھیں جو عام طور پر امی نہیں کھاتی تھیں، گھر کے دوسرے لوگ ہی کھاتے تھے، اس پر وہ کبھی احسان نہیں جتاتی تھیں۔ دوسروں کو انڈا کھلا کر انہیں خوشی ہوتی تھی اور اگر ان کی مرغی یا چوزے کی کوئی تعریف کر دیتا تو وہ پھولے نہیں سماتی تھیں، اس خصوصی نوازش کرتی تھیں۔ مزید انڈوں سے نوازتی تھیں۔ 
 ابھی بیس سال پہلے تک گاؤں دیہات کے ہر گھر کا یہی قصہ تھا۔ اسی طرح ڈربے بنانے اور انڈا کھانے کھلانے کا چلن تھا، گھر گھر میں مرغیاں پالی جاتی تھیں۔

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: فروری کی ایک دوپہر میں گاؤں کی سیر، کنچے کا کھیل اور بطخوں کاشور

اس دور میں مرغی پالنے کے ایک نہیں انیک فائدے تھے۔ اچانک کوئی مہمان آجاتا تویہی مرغیاں کام آتیں۔ فون تھا نہیں، پیدل چلتے چلتے اچانک مہمان آجاتے تھے، اس زمانے میں بازار بھی گاؤں سے دور تھے، ایسی صورت میں یہ مرغیاں ہی  رُسوائی سے بچاتی تھیں۔خاص مہمان ہوتے تو مرغیاں ذبح کی جاتی تھیں، عام مہمان ہوتے تو انڈے کے پکوان ان کی خدمت میں پیش کئے جاتے تھے۔ اِس دور میں گاؤں والوں کو بھی مرغی کا دیسی انڈا نصیب نہیں ہوتا، قیمت دینے پر بھی نہیں ملتا ،حالانکہ اس دور میں بھی دیسی انڈوں کے قدرداں ہیں، وہ ہزار مخالفت کے باوجود مرغیاں پالتے ہیں اور روزانہ صبح صبح اس کا پھل پاتے ہیں۔ 
 جب گاؤں میں مرغیاں زیادہ تھیں،مرغیوں کے انڈے جا بجا ملتے تھے، کونے اترے (سنسان گوشے) میں پڑے رہتے تھے۔ کچھ بچے یہ انڈے چرا بھی لیتے تھے۔ اس لئے گھر کے کچھ بچے مرغیوں پر نظر رکھتے تھے۔ ایک دو دن انڈا نہیں ملتا تو یہ بچے مرغیوں کے ٹھکانوں پر پہنچتے تھے، جگہ جگہ چھاپے مارتے تھے۔ اکثر ان کی تلاشی مہم کامیاب ہوجاتی تھی، وہ انڈے لے کر لوٹتے تھے۔ اگرخالی ہاتھ رہتے تو چور کا سراغ  لگا لیتے تھے۔
 اس دور میں پوروانچل کے دیہاتوں میں مرغی پالن کا کاروبار تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔ جدید طریقے سے ڈر بے کے بجائے بڑے بڑے فارم بنائے جارہے ہیں مگر ان فارم سے دیسی مرغی اور دیسی انڈے تو نکلیں گے نہیں، وہ پرانا دور کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا جب کچے آنگن ،دالان اور بیٹھک میں صبح سے شام تک مرغیوں کی کٹ کٹ سنائی دیتی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK