Inquilab Logo

گاؤں دیہاتوں میں پرانے دور کے گیتوں اور نغموں کی فضا اب بھی قائم ہے

Updated: May 05, 2024, 3:53 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

پنے آبائی گاؤں کے کئی بار کے سفر میں اس کالم نگار نے دیکھا کہ اس عہد کے گاؤں کے بچے انتہائی چالاک اور ذہین ہوگئے ہیں۔ وہ ایسے ایسے سوالات کرتے ہیں کہ نوجوان اور بوڑھے سب حیران رہ جاتے ہیں۔

Once such swings were considered incomplete without lyrics. Barha was sung, Sawan songs were also sung according to the season. Photo: INN
ایک زمانے میں اس طرح کے جھولے گیت کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے تھے۔ برہا گایا جاتا تھا، موسم کی مناسبت سے ساون کے گیت بھی گائے جاتے تھے۔ تصویر : آئی این این

اپنے آبائی گاؤں کے کئی بار کے سفر میں اس کالم نگار نے دیکھا کہ اس عہد کے گاؤں کے بچے انتہائی چالاک اور ذہین ہوگئے ہیں۔ وہ ایسے ایسے سوالات کرتے ہیں کہ نوجوان اور بوڑھے سب حیران رہ جاتے ہیں۔ گاؤں کے گلی کوچوں میں بچوں کی زبانی سوشل میڈیا پر موضوع بحث رہنے والے نغمے، گیت، ترانے اور ڈائیلاگ سنائی دیتے ہیں، اس طرح گاؤں دیہات میں پرانے دور کے گیت اور نغموں کی فضا اب بھی قائم ہے۔ گزشتہ برس بہت سے بچے’میں نہیں تو کون بے، بول بول....‘کی نقل کرتے ہوئے نظر آئے۔ ان سے ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری....‘اور’عبدالہادی اچھا بچہ ہے...‘بھی سننے کا اتفاق ہوا۔ 
  اسی طرح گزشتہ برس ہی ۱۴؍ اگست کی شام تھی۔ ایک جگہ کم سن بچے جمع ہوئے، ان بچوں نے اپنے ماموں سے ضد کرکے چھت پر ایک ترنگا لگوایا۔ بچوں نے بانس کا انتظام خود کیا تھا۔ ترنگا ایک ریڑھے(ارہر کے ڈنڈے) میں کھونس دیا گیا یعنی ریڑھے میں ترنگے کا سلا ہوا حصہ ڈال دیا گیا، پھر ریڑھے کو بانس میں رسی سےباندھ دیا گیا، یہ مرحلہ طے ہونے کے بعد ترنگے والے بانس کو چھت کی دیوار کے ایک سوراخ سے ملا کر اسےمضبوطی سےباندھ دیا گیا۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے ترنگا لہرانے لگا۔ بچوں نے پہلے ترنگے کو سلامی دی اور پھر قومی ترانہ’جن گن من...‘ترنم کے ساتھ اور کورس میں گایا۔ ۱۵؍ سے ۲۰؍ منٹ تک اس کا سلسلہ چلتا رہا۔ اسی انداز سے’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ اور ’لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری‘ بھی گایا گیا۔ پھر بچوں نے اپنی اپنی پسند کے کلام سنائے۔ ایک بچی نے’حسبی ربی ...‘سنایا تو ایک بچے نے’اے میرےپیارے بابا جان...‘اور’چڑیا رانی بہت سیانی‘گایا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ ایک دو سالہ بچے پر’چڑیا رانی بہت سیانی‘کا اتنا اثر ہوا ہے کہ اب وہ کسی بھی چڑیا کو دیکھ کر مچل جاتا ہے اور انگلی کے اشارے سے کہتا ہے کہ دیکھو’چیا رانی .....چیا رانی.‘پھر اسے اپنے ہاتھوں سے بلاتا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: گاؤں کی باتیں: ٹکورے کا ’سراب‘، اسٹیٹس، بچپن کے دو دوستوں کی ملاقات اور بور کی خوشبو کا وہ احساس

اس چھت پر موجود سب سے چھوٹے بچے نے’ایک موٹا ہاتھی...‘ہی سنا دیا۔ ایک بچہ بمبا(پانی کی نکاسی پلاسٹک کا موٹا پائپ) کے قریب منہ لے جاکر ادھر ادھر کا کلام سناتا رہا، بہت سے گیت اور اشعار کو ملا دیا۔ کھچڑی کلام تھا۔ اس نے بمبے کو مائک بنالیاتھا۔ اس طرح اس شام چھت پر بہت دیر تک بچے اپنا کلام سناتے رہے، ترنگے کو سلامی دیتے رہے۔ ان میں سے کچھ بچوں کے اسکول میں ۱۵؍ اگست پر تقریب ہونے والی تھی، حالانکہ ان میں سے کسی بچے نے اس میں حصہ نہیں لیا تھا، پھر بھی حب الوطنی کے جذبے کا اظہار کررہے تھے۔ 
 اسی طرح گزشتہ برس پنچئی(ناگ پنچمی) کے دن یہ کالم نگار چہل قدمی کرتے کرتے صبح دس بجے پڑوسی گاؤں پہنچاتھا، وہاں آم کے ایک درخت پر لال رنگ کا دوپٹہ لٹک رہا تھا۔ اس پر سوار ایک بچہ آگے پیچھے ہو رہا تھا، جھولا جھول رہا تھا۔ ساتھ میں بھوجپوری گانا بھی گا رہا تھا۔ بتاتے ہیں کہ ایک زمانے میں یہ جھولے گیت کے بغیر ادھورے سمجھے جاتے تھے۔ برہا گایا جاتا تھا، موسم کی مناسبت سے ساون کے گیت بھی گائے جاتے تھے۔ اسی طرح محرم پر نوحہ، مرثیہ اور سلام پڑھے جاتے تھے، بارہ وفات(بارہ ربیع الاول) پر نعتیہ کلام سنانے والوں کی ٹولیاں ہوتی تھیں جو گاؤں گاؤں گھوم کر نعت سناتی تھیں، گویا گاؤں والے شعر و نغمہ کے دلدادہ تھے۔ ان کے بغیر کوئی بھی خوشی ادھوری سمجھی جاتی تھی۔ گاؤں والوں و شعر وشاعری سے غیر معمولی دلچسپی تھی۔ 
  دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر اور ماہر اقبالیات پروفیسر عبدا لحق جونپور ضلع کے پہاڑ پور گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ اس بارے میں وہ ریختہ کے طویل انٹرویو’روبرو‘ میں بتاتے ہیں، ’’گاؤں گاؤں میں برہا گایا جاتا تھا۔ بیت بازی ہوتی تھی۔ گاؤں کے ناخواندہ لوگ بھی شعر کہہ لیتے تھے تک بندی کرکے۔ میرا ہلواہا جو زمین کی دیکھ ریکھ کرتا تھا۔ وہ خودی کو کر بلند اتنا سنایا کرتا تھا اور کہتا تھا:بابو! ای شعر ہمین بہت اچھا لگے تھے۔ (بابو!یہ شعر ہمیں بہت اچھا لگ رہا ہے۔ )۔ بفضلہ تعالی یہ روایت آج بھی موجود ہے۔ میرے پڑوس میں ایک صاحب بالکل ناخواندہ ہیں لیکن وہ بھی تک بندی کرکےاکثر مجھ سے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب یہ شعر سن لیجئے۔ وہ اپنی زبان میں غلط لہجے میں تک بندی کر کے سنادیتے ہیں۔ گاؤں میں ایک رواج برہا کا تھا۔ گرمیوں کی راتوں میں برہا گانے کا بڑا چلن تھا، اسکے ماہرین ہوتے تھےاور ان کی ٹولیاں ہوتی تھیں۔ ایک گاؤں والوں کی دوسرے گاؤں والوں سے مقابلہ آرائی بھی ہوتی تھی۔ ‘‘
 وہ مزید کہتے ہیں، ’’ساونی کا ایک میلہ ہوتا تھا، اس میں گروپوں میں مقابلہ ہوتا تھا، ان کی کسی نہ کسی استاد سے وابستگی ہوتی تھی، آج بھی ربیع الاول کا جو جلوس نکلتا ہے، اس میں بھی اساتذہ کے کلام سنائے جاتے ہیں۔ اسی طرح اسکولوں میں بیت بازی ہوتی تھی، دو صفوں میں لوگ بیٹھتے تھے، دونوں طرف کے بچوں میں بیت بازی کا مقابلہ ہوتا تھا۔ اس طرح ڈھونڈ ڈھونڈ کر اشعار یاد کرنے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ ایسے اشعار ڈھونڈے جاتے تھے جو ’دال‘ پر ٹوٹتے تھے یا ’ت‘ پر ٹوٹتے تھے تاکہ اس کا کوئی جواب نہ مل سکے، دوسری ٹیم کو کوئی اور شعر نہ مل سکے، درجہ تین اور درجہ چار کے طلبہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کتابوں سے مشکل اشعار لاتے تھے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK