Inquilab Logo

گاؤں کی باتیں:آنگن میں دوڑتی پھرتی وہ مرغیاں، نفاست پسند ماں اور تنہائی کا سہارا چوزے

Updated: March 03, 2024, 1:11 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

گزشتہ ہفتے مرغی پالن کاقصہ چھڑا مگر یہ ادھورا ہی رہ گیا تھا، اس کی بہت سی جہتیں ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، اس ہفتے بھی یہی موضوع ہے۔

Until the chicks are grown, is it permissible for someone to touch the chicks in front of the hen? Photo: INN
جب تک چوزے بڑے نہ ہوجائیں، کیا مجال کہ مرغی کے سامنے کوئی اس کے چوزوں کو ہاتھ بھی لگا دے۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ ہفتے مرغی پالن کاقصہ چھڑا مگر یہ ادھورا ہی رہ گیا تھا، اس کی بہت سی جہتیں ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، اس ہفتے بھی یہی موضوع ہے۔ ایک خاتون خانہ نے بتایا کہ آج سے بیس سال پہلے ان کے وسیع وعریض کچے آنگن میں مرغیاں پھرتی رہتی تھیں۔ وہ دن بھر نرم اور بھیگی مٹیاں کھودتی رہتی تھیں، اس کا طرح وہ کیڑے مکوڑے کا شکار کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ میرا وہ آنگن کھلا کھلا سا تھا، چاروں طرف کچی دیواریں تھیں جس کی پابندی سے لپائی پتائی کی جاتی تھی، آنگن کی کچی زمین پر ببول کے لمبے تڑنگے درخت کی چھوٹی چھوٹی پتیاں ٹوٹ کر گرتی رہتی تھیں۔ برگد کی پتیاں بھی جمع ہو جاتی تھیں، گولر کا پھل بھی گرتا رہتا تھا۔ مرغیاں اسی میں سے اپنی خوراک ڈھونڈتی تھیں، جو پتیاں رہ جاتی تھیں، انہیں شام کے وقت جھاڑو سے صاف کیا جاتا تھا، ہمارا یہی معمول تھا۔ صبح شام آنگن میں جھاڑو دیتے تھے، مہمان کی آمد پر دوپہر میں بھی آنگن کی صفائی کی جاتی تھی، گرمیوں میں سورج ڈوبنے سے پہلے پانی کا چھڑ کاؤ کیاجاتاتھا۔ اس طرح گرمی کا زور کم ہوجاتا تھا اور زمین ٹھنڈی ہوجاتی تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک دن صبح کا وقت تھا، آنگن میں میری ایک مرغی اپنے گیارہ چوزوں کے ساتھ سیر کیلئے نکلی تھی۔ وہ جگہ جگہ رک رہی تھی، اپنے بچوں پر نظر رکھ رہی تھی۔ مرغی سے نظر بچاکر اس کے ایک چوزے کو میں نے اٹھالیا، اس کو فوراً احساس ہوگیا۔ اس نے معمول سے کہیں زیادہ تیز آواز نکالی۔ اس وقت ایسالگاکہ وہ میرے ہاتھ سے اپنا بچہ چھین لے گی، حملہ کردے گی، اس کا یہ روپ دیکھ کر میں سہم گئی اور پھر اپنی زندگی میں کسی مرغی کا چوزہ اٹھانے کی جرأت نہیں کی۔ 

یہ بھی پڑھئے:گاؤں کی باتیں: پہلے گھر گھر میں مرغیاں پالی جاتی تھیں، ڈربے بنانے اور انڈا کھانے کھلانے کا چلن تھا

یہ اس دور کا قصہ ہے جب فارم (’ر‘پر زبر کے ساتھ پڑھئے)کی مرغی اور انڈے کی کوئی اہمیت نہیں تھی، لوگ دیسی مرغی اور دیسی انڈے پر اصرار کرتے تھے۔ کہتے تھے، ’’کچھ بھی ہوجائی ہم فارم کا انڈا نہ کھیبے۔ ‘‘(کچھ بھی ہوجائے، ہم فارم کا انڈا نہیں کھائیں گے۔ )
 ایک نوجوان نے بتایا کہ میری امی نفاست پسند تھیں، میرے لاکھ اصرار پر وہ مرغی پالنے کیلئے تیار نہیں ہوئیں۔ جب بھی چوزے بیچنے والا آتا تھا، میں دوڑا دوڑا گھر آتا تھا، ضد کرتا تھا، چوزے حاصل کرنے کے تمام حربے اپناتا تھا، ناراض ہوجاتا تھا، احتجاجاتیز آواز میں دروازے بند کرتا تھا مگر کبھی کامیابی نہیں ملی۔ میری امی یہی کہتی تھیں کہ مجھے مرغی کی چال پھوٹی آنکھ نہیں بھاتی ہے، پورا آنگن گندہ کرکے رکھ دیتی ہے، اس کی بدبو مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ہے، تجھے دیسی انڈے چاہئیں نا، میں روزانہ منگوا دیا کروں گی۔ میں انہیں یقین دلاتا تھا کہ مجھے تو چوزے پسند ہیں۔ ان سے کہتا، ’’مرگیا کا بچوا بہت اچھا لگ تھے موکا، سب پالے تھے، تے کا ہیں نہ پلتی امی۔ ‘‘(مجھے مرغی کا بچہ بہت اچھا لگتا ہے، سب پالتے ہیں، آپ کیوں نہیں پالتی ہیں امی؟) میرے اس سوال پر وہ کچھ نہیں کہتیں، چپ رہتی تھیں، ایک روپے کے موٹے سکے سے میرے آنسو روکتی تھیں، اس پر میں رو دھو کر چپ ہوجاتا تھا۔ ایک دن ایسے ہی دوپہر میں چوزے کیلئے میں نے ضد کی تھی، اس دن بھی وہی سب کچھ ہوا جو اس موقع پر ہوتا تھا۔ دوسری صبح دیکھا تو آنگن میں میرا ایک پڑوسی اپنے ہاتھوں میں دیسی انڈا لئے کھڑا تھا، اس نے مجھے قریب بلایا اور کہا کہ انڈے لے لو، تمہاری امی نے کہا تھا، اب میں روز اسی طرح انڈے لاؤں گا، کھاتے رہنا، صحت بن جائے گی۔ اس کے بعد سے میں روزانہ انڈے کھاتا رہا اور پھر کبھی ضد نہیں کی۔ 
 اس بچے کو انڈا مل گیا لیکن چوزہ نہ ملا۔ سچ پوچھئے تو اس زمانے میں بچے ان چوزوں سے دل بہلاتے تھے، ان سے کھیلتے تھے۔ گاؤں کی ایک لڑکی بتاتی ہے کہ میں نے بچپن میں چوزوں کو پکڑا ہے، انہیں بلی سے بچایا ہے، اس زمانے میں بلیوں کا آتنک تھا، ان کے آنگن میں قدم رکھتے ہی مرغیوں میں افراتفری مچ جاتی تھی۔ وہ مزید بتاتی ہے کہ میری شادی دہلی میں ہوگئی۔ ہمارے شوہر کی فیملی ایک ہی بلڈنگ میں رہتی ہے لیکن سب کے فلیٹ الگ الگ ہیں۔ شوہر کے جاب پر جانے کے بعد میں تنہا رہ جاتی تھی، ایک دن مارکیٹ گئی، وہاں چوزے بک رہے تھے، میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا، وہاں سے تین خوبصورت چوزے خریدے۔ اس طرح میری تنہائی ختم ہوئی، مجھے مضبوط سہارا مل گیا، میں دن بھر اُن سے لگی رہتی تھی، اس وقت لگتا تھا کہ میرا بچپن لوٹ آیا ہے۔ جب میں انہیں چھوتی تھی تو چشم تصور میں میرے گاؤں کا کچا آنگن ہوتا تھا، اس وقت میں خیالوں میں کھوجاتی تھی، وہ پل اتنے حسین ہوتے تھے کہ میں انہیں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔ اب یہ الگ بات ہے کہ یہاں بلیاں نہیں تھیں، ان کا خوف نہیں تھا۔ میرے فلیٹ میں اب ایک بچہ روتا ہے، اسلئے میں نے چوزوں کو مرغ بناکر ذبح کردیا ہے مگر اب بھی مجھ سے میرے چوزے دور نہیں ہوئے ہیں، خیالوں میں رہتے ہیں، کبھی کبھی ان کی چوں چوں سنائی دیتی ہے، جلد ہی میں چوزے لاؤں گی۔ اسے آنگن نہیں ملا مگر شہر کی بالکنی ہی میں میرا بیٹا ان چوزوں سے کھیلے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK