Inquilab Logo

غزہ: فاقہ میں روزہ

Updated: March 13, 2024, 11:45 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

موت پچھلے پانچ ماہ سے غزہ باسیوں کا تعاقب کررہی ہے۔ جو آسمان سے برسنے والے بموں سے نہیں مرتے وہ رائفل کی گولیوں سے مارے جاتے ہیں،جو گولیوں سے بچ جاتے ہیں وہ ان عمارتوں کے ملبے تلے دب کر مر جاتے ہیں جنہیں صہیونی بمباری زمیں بوس کردیتی ہے۔ اب تو بھوک سے جاں بلب فلسطینی بھی ایک ایک کرکے مرنے لگے ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

جو بائیڈن کی سر توڑ کوششوں کے باوجود رمضان کے مہینے میں غزہ میں عارضی جنگ بندی ممکن نہ ہوسکی۔ وہ امریکہ جو غزہ پر ا سرائیلی بمباری کے آغاز کے بعد سے جنگ بندی کی ہر تجویز کی مخالفت اور اقوام متحدہ میں پیش کی گئی سیز فائر کی ہر قرارداد کو ویٹو کررہا تھا وہ پچھلے پندرہ دنوں سے اچانک جنگ بندی کی پرزور وکالت کرنے لگا۔ فروری کے اواخر میں بائیڈن نے یہ مژدہ سنایا کہ ماہ رمضان کی آمد تک غزہ میں جنگ بندی کا قوی امکان ہے لیکن مارچ آتے آتے وہ کہنے لگے کہ جنگ بندی مشکل نظر آرہی ہے۔
 قاہرہ میں اسرائیل اور حماس میں چالیس دنوں کی عارضی جنگ بندی پر سمجھوتہ نہیں ہوسکاکیونکہ بنجامن نیتن یاہو نے جارحیت پر روک لگانے، اسرائیل افواج کو غزہ سے واپس بلانے اور اجڑے ہوئے فلسطینیوں کی گھروں کی واپسی کی تمام تجاویز کو مسترد کردیا۔ جب نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی نے بائیڈن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تو امریکی صدر نے یہ وارننگ دے ڈالی کہ اگر رمضان کی آمد کے بعد بھی غزہ میں خونریزی نہیں تھمی تو صورتحال بے حد خطرناک ہوجائے گی۔
 اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق طویل عرصے سے جاری بمباری نے غزہ میں ایسی تباہی مچائی ہے کہ ۸۰؍ فیصد شہر ناقابل رہائش ہوچکاہے اور فاقہ کشی کی شرح ۱۰۰؍فیصد ہے۔ غزہ کی اس ہولناک تباہی اور انسانی جانوں کے اتنے بڑے پیمانے پر ہوئے اتلاف کیلئے جتنا اسرائیل ذمہ دار ہے اتنا ہی امریکہ بھی ہے کیونکہ غزہ کی دھرتی پر گرنے والا ہر بم، اسے روندنے والا ہر ٹینک اور فضاؤں سے موت کی بارش کرنے والاہر طیارہ امریکہ ہی تل ابیب کو فراہم کررہا ہے۔سوال یہ ہے کہ بائیڈن رمضان میں جنگ بندی کے لئے اس قدر بے چین کیوں ہوگئے جبکہ موت تو پچھلے پانچ ماہ سے غزہ باسیوں کا تعاقب کررہی ہے۔ جو آسمان سے برسنے والے بموں سے نہیں مرتے وہ رائفل کی گولیوں سے مارے جاتے ہیں،جو گولیوں سے بچ جاتے ہیں وہ ان عمارتوں کے ملبے تلے دب کر مرجاتے ہیں جنہیں صہیونی بمباری زمیں بوس کردیتی ہے اور تو اور کچھ بدنصیب تو آسمان سے گرنے والے امداد ی بوریوں کی زد میں آکر مرجاتے ہیں۔ اب تو بھوک سے جاں بلب فلسطینی بھی ایک ایک کرکے مرنے لگے ہیں۔ دنیا حیران  ہے کہ غزہ والے فاقہ میں روزہ رکھ رہے ہیں یا روزہ میں فاقہ کررہے ہیں؟
 اس بار وہائٹ ہاؤس سے رمضان کی آمد پر جو صدارتی پیغام جاری کیا گیا ہے وہ کافی طویل بھی ہے اور خاصا جذباتی بھی۔ خاتون اول جل اور صدر جو بائیڈن نے پہلے امریکہ اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو رمضان کی مبارکباد دی اور اس کے بعد غزہ کے قیامت خیز حالات کا تفصیل سے تذکرہ کیا۔ پانچ ماہ میں پہلی بار بائیڈن نے تسلیم کیا کہ جنگ نے غزہ کے فلسطینی باشندوں کو ہولناک مصائب سے دوچار کردیا ہے۔’’تیس ہزار سے زیادہ فلسطینی شہری جن میں ہزاروں بچے شامل ہیں مارے گئے ہیں۔ جنگ نے بیس لاکھ فلسطینیوں کو بے گھر کردیا ہے۔ بے شمار لوگوں کو غذا، پانی، ادویات اور رہائش کی فوری ضرورت ہے۔ اگلے چند روز اور چند ہفتوں تک جب دنیا بھر میں مسلمان روزہ کھولنے کے لئے اکٹھا ہوں گے ان کے ذہن میں پہلا خیال فلسطینی عوام کے مصائب کا آئے گا۔ (یہ خیال) میرے ذہن میں بھی ہر وقت موجود ہے۔‘‘ امریکی صدر نے مسلمانوں کو یہ یقین دہانی کرائی کہ امریکہ غزہ میں انسانی امداد پہنچانے اور چالیس دنوں کی جنگ بندی کو یقینی بنانے کیلئے مسلسل کوشاں ہے۔
بائیڈن کے دل میں فلسطینیوں کے لئے اتنا درد اس لئے جاگا ہے کیونکہ ان کے مشیروں نے ان کو آگاہ کردیاہے کہ اگر روزے کی حالت میں فلسطینیوں پر اسرائیل نے بم برسائے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں تو سارے عالم عرب میں جذبات مشتعل ہوجائیں گے اور خطے میں اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نفرت کی طاقتور لہر ابھرے گی۔ یہ ممکنہ صورتحال واشنگٹن کے ایک نئے مڈل ایسٹ کا سار امنصوبہ بگاڑ سکتی ہے۔ بائیڈن کو خدشہ ہے کہ اگر غزہ میں رمضان میں بھی حسب معمول ہردن لاشیں گرتی رہیں گی تو تشدد مغربی کنارے میں بھی بھڑک سکتا ہے۔ ہر سال کی طرح مسجد اقصیٰ میں ہزاروں کی تعداد میں روزے دار عبادت میں مصروف ہیں۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ کسی اسرائیلی فوجی یا جنونی یہودی کی قبلہ اول میں عبادت گزاروں کے ساتھ کی گئی شرپسندی سے بھی حالات بے قابو ہوسکتے ہیں۔ رمضان میں جنگ بندی کیلئے امریکہ کے اس قدر پریشان ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے۔نیتن یاہو بار بار یہ دھمکی دے رہے ہیں کہ اسرائیلی فوج اب رفح پر دھاوا بولے گی جہاں اس وقت پندرہ سولہ لاکھ فلسطینی موجود ہیں۔ اسرائیل نے پہلے یہ اعلان کیاتھا کہ رفح سیف زون ہے اور جو فلسطینی جان بچانا چاہتے ہیں تو وہاں کوچ کرجائیں۔ لیکن صہیونیوں کی فلسطینیوں کے خون کی پیاس ابھی بجھی نہیں ہے۔بائیڈن کو اندیشہ ہے کہ اگر رفح میں قتل وغارت گری شروع ہوجاتی ہے تو بہت برا ہوگا۔اسی لئے وہ اسرائیلی وزیر اعظم کو انتباہ کررہے ہیں کہ ’’رفح وہ ریڈ لائن‘‘ ہے جسے وہ ہرگز پار نہ کریں۔  
 بائیڈن جو خود کو فخر سے صہیونی کہتے ہیں، ظالم کا ہاتھ پکڑ نہیں سکتے  اس لئے مظلوم کی مدد کا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ امریکہ چند دنوں سے غزہ میں ہوائی جہاز سے رسد گرارہا ہے اور بائیڈن بحیرہ روم کے ساحلی کنارے پر ایک گھاٹ تعمیر کروانے کا حکم دے رہے ہیں جسے وہ عارضی بندرگاہ کہہ رہے ہیں تاکہ سمندر کے راستے کھانا، پانی اور دوائیں غزہ پہنچائی جاسکیں۔ امریکہ پہلے تو اسرائیل کو غزہ کے باشندوں کی نسل کشی کے لئے اربوں ڈالر کے ہتھیار فراہم کرتا ہے اور پھر بمباری سے جان بچاکر بھاگنے والے بھوکے پیاسے لوگوں کے لئے کھانا اور پانی فراہم کرنے کا ڈرامہ بھی رچاتا ہے۔
 عالمی ادارے چیخ رہے ہیں کہ اگر انہیں فوری خوراک نہیں ملی تو غزہ کے دس لاکھ سے زیادہ بچے فاقہ کشی سے مرجائیں گے۔ Save The Children کے سربراہ جیسن لی نے وارننگ دی ہے کہ بھوکے بچوں کے پاس ہفتے نہیں گھنٹے بچے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک اہلکار کا دعویٰ ہے کہ غزہ کے باہر کھڑے ٹرکوں میں اتنی خوراک موجود ہے جوساری آبادی کا پیٹ بھرنے کیلئے کافی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیلی فوج امدادی قافلوں کو غزہ کے اندر داخل ہونے سے روکتی ہے،ان پر گولیاں چلاتی ہے کھانالینے کیلئے جمع ہوئے لوگوں پر بمباری کرتی ہے۔ اگر رمضان میں اہل غزہ کو راحت فراہم کرنے کے ان کے دعوؤں میں خلو ص نیتی ہوتی تو امریکی صدر اسرائیل پر دباؤ ڈال کر انسانی امداد سے لدے ان ٹرکوں کو غزہ میں بلا روک ٹھوک داخلے کی اجازت دلوادیتے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK