Inquilab Logo

مدنپورہ میں بچوں کیلئےمنعقدہ تقریب میں خواجہ احمدعباس اور بلراج ساہنی تشریف لائے تھے

Updated: May 05, 2024, 3:10 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

سانکلی اسٹریٹ، ممبئی کے ۷۸؍ سالہ انصاری محمد عمر نے ۱۲؍ سال تک ٹیوشن پڑھا کر اپنے گھر کی کفالت کی، بعد ازاں دبئی چلے گئے اور وہاں ۲۰؍ سال تک ملازمت کی۔ جنوبی افریقہ میں ۴؍عیسائیوںکو مشرف بہ اسلام کرانے کو ایک بڑی کامیابی تسلیم کرتےہیں۔

Ansari Muhammad Umar. Photo: INN
انصاری محمد عمر۔ تصویر : آئی این این

مدنپورہ کے ایک قاری گوشہ ٔ بزرگاں کالم کا پابندی سےمطالعہ کرتےہیں۔ ان کی دلچسپی کا یہ عالم ہےکہ کالم کی مناسبت سے عمررسیدہ افراد پرنظر پڑتےہی، وہ ان سے کالم کے بارے میں گفتگو کرنے لگتے ہیں اورانہیں کالم کیلئے انٹرویو دینے کی ترغیب بھی دیتےہیں۔ اسی طرح ان کے حوالے سے گزشتہ دنوں سانکلی اسٹریٹ، مدنپورہ کے ۷۸؍سالہ انصاری محمد عمر سے ملاقات ہوئی۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک ان سے ہونے والی گفتگو انتہائی کارآمد ثابت ہوئی۔ اس دوران انہوں نے اپنی زندگی کے اہم واقعات اور تجربات کی روشنی میں جومعلومات فراہم کیں وہ دلچسپ اور کارآمدبھی ہیں۔ 
 اُترپردیش کے ضلع الہ آباد کے قصبہ مئوآئمہ میں ۳؍جنوری ۱۹۴۶ء کو پیداہونےوالے انصاری محمد عمر کی ولادت تو ضرور آبائی گائوں میں ہوئی لیکن انہوں نے تعلیم وتربیت مدنپورہ کے سانکلی اسٹریٹ میں پائی۔ ان کے والدانصاری رحمت اللہ، آگری پاڑہ کی انڈین مل میں برسر ملازمت تھے، اسلئے پیدائش کے ۴۔ ۳؍سال بعد ہی محمد عمر اپنی والدہ کے ہمراہ ممبئی آگئے تھے۔ ابتدائی تعلیم پتھروالی اسکول سے حاصل کی۔ صابو صدیق پالی ٹیکنیک اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ مالی مشکلات کی وجہ سے آگے کی تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ اسکول کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کیلئے محمد عمرطالب علمی ہی کے دور سے بچوں کو ٹیوشن دینے لگے تھے۔ اس زمانےمیں ایک بچے کی ٹیوشن کی فیس ماہانہ ۱۰؍روپے تھی۔ ۲؍بچوں کی پیشگی ٹیوشن فیس، ۲۰؍روپے سے محمد عمر نے اپنے میٹرک امتحان کی فیس اداکی تھی۔ میٹرک کاامتحان پاس کرنے کے ساتھ ہی محمد عمر نے ڈرافٹس مین کابھی کورس کیاتھا۔ ملازمت ملنے میں آنےوالی دشواریوں اورٹیوشن کےمقابلے ملازمت سے موصول ہونے والی کم رقم کی وجہ سے محمد عمر نے ملازمت کے بجائے ٹیوشن ہی کو ترجیح دی۔ ۱۲؍سال تک ٹیوشن پڑھاکر اپنی اور اپنے گھرکی کفالت کی۔ بعدازیں ان کے ایک ڈرافٹس مین دوست نے اپنی کمپنی میں انہیں ملازمت دلائی۔ اس کمپنی کی ایک شاخ دوبئی میں بھی تھی۔ ایک موقع ایسا آیاجب دونوں دوست ملازمت کیلئے دوبئی گئے۔ محمد عمر نے ۲۰؍سال تک دوبئی میں ملازمت کی۔ بعد ازیں ممبئی لوٹ آئے، پھر دینی اور فلاحی کاموں سے وابستہ ہوگئے اور اب بھی ایک فریض سمجھ کر انہیں کاموں میں مصروف ہیں۔ 
  یہ ۶۰ء کی دہائی کی بات ہے۔ صابو صدیق پالی ٹیکنیک کی سلور جبلی تقریبات کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اسی دوران ہندوستانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو ممبئی کے دورے پر آئے ہوئے تھے۔ انتظامیہ کی دعوت پر وہ صابو صدیق کالج آئے تھے۔ ان کے ہمراہ دلیپ کمار بھی تھے۔ ان دونوں ممتاز شخصیات کے استقبال کیلئےطلبہ کو کالج کی راہداری پر مامور کیا گیا تھا، جن میں محمد عمر بھی شامل تھے۔ اس دوران محمدعمرکو پنڈت جواہر لال نہرو اور دلیپ کمار سےمصافحہ کرنے کاشرف حاصل ہواتھا۔ سلور جبلی تقریب میں پنڈت نہر ونے اپنے تاثرات کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ عام فیکلٹی مثلاً سائنس، کامرس، آرٹس کےمتعدد کالج ہیں لیکن پالی ٹیکنیک کالج برائے نام ہیں۔ اس طرح کے کالج زیادہ سے زیادہ قائم کئے جائیں تاکہ طلبہ ان سے مستفید ہوسکیں۔ پنڈت نہرو کی تقریرکو سننا اور ان دونوں اہم شخصیات سے مصافحہ کرنا محمد عمر کو اب بھی یادہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’۱۹۸۳ء میں مکمل سورج گہن کی وجہ سے دوپہر میں شام جیسا ہو گیا تھا

تبلغی سرگرمیوں سے متعلق محمد عمر کئی بیرونی ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔ ایک مرتبہ وہ جنوبی افریقہ گئے تھے۔ جوہانسبرگ، ڈربن اورکیپ ٹائون میں ۳؍مہینے کے قیام کےدوران اسلامی تعلیمات کو عام کرنےمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ جوہانسبرگ میں ایک روز عصر کی نمازکےبعد مقامی مسجدکے رہبر کےہمراہ گشت کے دوران ۶؍افراد کے ایک گروپ سے بات چیت کرنےکاموقع ملا جن میں ۲؍مسلمان اور ۴؍عیسائی تھے۔ محمد عمرکی دینی باتوں سے متاثر ہو کر ان۴؍عیسائیوں نے محمد عمر سےدوبارہ ملنے کی خواہش ظاہرکی۔ دوسرے دن وہ چاروں عیسائی مذکورہ مسجدمیں آئے اور وہاں کے رہبرکو اسلام قبول کرنے کی اطلاع دی۔ رہبر نےمحمد عمر کو ان کے مشرف بہ اسلام ہونےکی خبر سنائی۔ یہ سن کر محمد عمر اور ان کے دیگر ساتھی بڑے خوش ہوئے تھے۔ تبلغی کاموں میں محمد عمر اس واقعہ کو اپنی بڑی کامیابی تسلیم کرتےہیں۔ 
  مدنپورہ کی معروف سماجی، علمی اورادبی شخصیات میں مولانانذیرکانام قابل احترام ہے۔ انہوں نے ادبی اور علمی ذوق رکھنےوالوں کیلئے’حلقہ احباب‘کی بنیاد ڈالی تھی لیکن وہ بچوں کی تعلیم وتربیت کیلئے کافی فکر مند رہتےتھے۔ اسی وجہ سے بچوں اوراسکولی طلبہ کیلئے بالخصوص’حلقہ اطفال‘ قائم کیاتھاجس کےذریعے تعلیمی سرگرمیاں انجام دی جاتی تھیں۔ ان ہی میں ’ دیواری میگزین‘ ایک ایسی سرگرمی تھی جس کی اپنی اہمیت تھی۔ حلقہ اطفال کے دفترمیں ایک بڑاسابورڈ آویزاں تھاجس پر طلبہ کے تحریرکردہ ادبی مشمولات مثلاًنظم، غزل، اشعار اورانمول پارےوغیرہ کے چارٹ ہر ۱۵؍روز پرچسپاں کئے جاتے تھے۔ اس بورڈکو دیواری میگزین کا نام دیاگیاتھا۔ اس مہم میں دیگر طلبہ کے ساتھ ہی محمد عمربھی شامل تھے۔ اس پروجیکٹ کے ایک سال کی تکمیل پرمحمد عمراور دیگر ساتھیوں نے دیواری میگزین کی سالانہ تقریب منعقدکرنےکافیصلہ کیا۔ صلاح ومشورہ کےبعد تقریب میں معروف فلمی شخصیات کو مدعوکرناطے پایا۔ فلم ڈائریکٹر خواجہ احمد عباس، میوزک ڈائریکٹر نوشاد، فلم اداکار بلراج ساہنی اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کوبلانےکی تجویزطے پائی۔ ان شخصیات کو مدعوکرناآسان نہیں تھا لیکن محمدعمر اور ان کے ساتھیو ں نےہمت نہیں ہاری۔ سب سے پہلے یہ لوگ خواجہ احمد عباس کی رہائش گاہ گئے۔ انہوں نے نوعمرلڑکوں کے گروپ کی حوصلہ افزائی کی اورکہاکہ پروگرام کاشیڈول بتائو، میں ضرور آئوں گا۔ ان کےمثبت جواب سے حوصلہ پاکر یہ گروپ نوشادصاحب کی رہائش گاہ پر پہنچا، نوشادصاحب نے مقررہ تاریخ کوممبئی میں نہ ہونےکی اطلاع دےکر معذرت چاہی، بعدازیں یہ لوگ بلراج ساہنی کےبنگلہ پرپہنچے، وہ گھر پر نہیں تھے۔ ان کےفرزند پریکشت ساہنی نے بچوں کی حوصلہ افزائی کی اورکہاکہ میرے والد آپ لوگوں کےپروگرام میں ضرور آئیں گےجبکہ شکیل بدایونی نے طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی بنا پر آنے سے معذرت چاہ لی تھی۔ پروگرام حلقہ اطفال کے سامنےسانکلی اسٹریٹ میں رکھاگیا تھا۔ وعدے کےمطابق خواجہ احمدعباس اوربلراج ساہنی تشریف لائے۔ انہیں پروگرام میں دیکھ کر مقامی لوگوں کو خوشگوار حیرت ہوئی تھی۔ لوگوں کویقین ہی نہیں آرہاتھاکہ بچوں کےبلانےپر اتنی عظیم شخصیات مدنپورہ میں آجائیں گی۔ ان دونوں صاحبان نے پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے علاوہ حلقہ اطفال کےرجسٹرمیں اپنےتاثرات بھی تحریر کئے تھے۔ لکھاکہ’’ یہاں آکر ہمیں بڑی خوشی ہوئی ہے۔ جب کبھی بھی اس طرح کاپروگرام ہو، ہمیں ضروراس کی اطلاع دی جائے۔ ‘‘
 ممبئی سینٹرل پر آج جہاں مراٹھامندر سنیماگھر ہے کسی زمانےمیں مراٹھامندر نامی ایک بنگلہ ہواکرتاتھا۔ اسے منہدم کرکے مراٹھامندر سنیما گھر تعمیر کیاگیاتھا۔ سنیماگھر بنانےکےبعد اس میں سب سےپہلے فلم ’سادھنا‘ کی نمائش ہوئی تھی۔ فلم مغل اعظم بھی مراٹھامندر میں ریلیزہوئی تھی۔ مغل اعظم کی ٹکٹ کیلئے مراٹھامندر سے مدنپورہ کی رحمانی ہوٹل تک قطار لگاکرتی تھی۔ محمد عمر کو فلم دیکھنے کابڑاشوق تھا۔ وہ فلم مغل اعظم کی ٹکٹ کیلئے کوشش ہی کرتے رہے۔ فلم کے سلورجبلی ہونے تک انہیں ٹکٹ نہیں مل سکی تھی۔ سلورجبلی ہونےکےبعد انہوں نے مراٹھا مندر کےبجائے ورلی کے لوٹس سنیمامیں مغل اعظم دیکھی تھی۔ محمدعمرنے فلم مغل اعظم کے ڈائریکٹر کے آصف کو ٹوٹی چپل پہن کر مراٹھامند ر سنیما میں پریمئر شوکی تیاری کرواتے دیکھاتھا۔ پریمئر شومیں اس وقت کےگورنرکے علاوہ فلمی شخصیات کی قطارلگی تھی۔ محمد عمر نے راج کپور، دیوآنند، راج کمار، دلیپ کمار، وجینتی مالا، وحیدرحمٰن، مالاسنہا، شکیلہ اوران کی بہن کےعلاوہ متعدد فلم اداکاروں کو دیکھاتھا۔ فلم دیکھنےکے علاوہ فلم کی شوٹنگ کےدوران استعمال کئے جانے والے زیورات، جنگی سامان اور دیگر لوازمات کی مراٹھامندر سےمتصل پیٹرول پمپ والی جگہ پر نمائش بھی لگائی گئی تھی۔ لوگ فلم دیکھنے سےقبل نمائش دیکھتے تھے بعدازیں فلم دیکھنے جاتے تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK