Inquilab Logo

’’۱۹۸۳ء میں مکمل سورج گہن کی وجہ سے دوپہر میں شام جیسا ہو گیا تھا

Updated: April 28, 2024, 4:03 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

بھیونڈی کے ۸۲؍سالہ ڈاکٹر عبدالرئوف مومن نے ۱۹۷۲ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی ،اُس وقت وہ تھانے ضلع میں سائنس کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے واحد طالب علم تھے، ۲۰۰۲ء میں وائس پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔

Dr. Abdul Rauf Hafiz Abdul Quddus Momin. Photo: INN
ڈاکٹر عبدالرؤف حافظ عبدالقدوس مومن۔ تصویر : آئی این این

گوشہ ٔبزرگاں کالم کی کامیابی میں جن خیرخواہوں کاتعاون رہا ہے، ان میں بھیونڈی کےمعروف اور سینئر معلم عبدالملک مومن بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کی ایماء پر بھیونڈی کے ۸۲؍سالہ بزرگ ڈاکٹر عبدالرئوف حافظ عبدالقدوس مومن سےکالم کیلئے ہونے والی گفت وشنید انتہائی دلچسپ اورمعلوماتی رہی۔ 
 بھیونڈی، دھامنکرناکہ کے ڈاکٹر عبدالرؤف مومن، مرحوم حافظ عبدالقدوس کےبڑے فرزند ہیں۔ حافظ عبدالقدوس اُترپردیش کے قصبہ پھولپور اور محلہ جمیل آباد سے بھیونڈی ذریعۂ معاش کیلئے آئےتھے۔ بعد ازیں یہیں سکونت اختیار کرلی۔ آپ کا نام اہالیان بھیونڈی کیلئے لائقِ تعظیم ہے۔ اسلام آباد، بنگالپورہ اور اطراف کے محلوں کی کئی نسلوں نے ان سے قرآن پڑھا ہے۔ جب آپ تراویح پڑھاتے تو ان کی پاٹ دار آواز دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ 
ڈاکٹر عبدالرؤف مومن ۱۹؍ ستمبر ۱۹۴۲ء کو پھول پور الہ باد یو پی میں پیدا ہوئے تھے لیکن ان کی پرورش وپرداخت بھیونڈی میں ہوئی۔ ان کا پورا گھرانہ تعلیم یافتہ ہے۔ آپ نے دینی اور تعلیمی ماحول میں پرورش پائی۔ ابتدائی تعلیم میونسپل اسکول نمبر۲۰ ؍ بنگالپورہ اور پتھر والی اسکول منڈئی بھیونڈی سے حاصل کی۔ رئیس ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد اسماعیل یوسف کالج جوگیشوری ممبئی سے کیمسٹری سے بی ایس سی اور پھر رائل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس ممبئی سے علم نباتات میں بی ایس سی کی سند حاصل کی۔ اسی ادارے سے ایم ایس سی (بوٹانی) کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت آپ کو حکومتِ مہاراشٹر سے ۶۰؍ روپے وظیفہ ملتا تھا۔ ۱۹۷۲ء میں رائل انسٹی ٹیوٹ ممبئی ہی سے علم نباتات میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی تھی جس کیلئے انہیں یو جی سی سے ۵۰۰؍ سو روپے ماہانہ وظیفہ ملا کرتا تھا۔ ان کے تحقیقی مقالے کو ٹوکیو (جاپان)میں ایگریکلچرل یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کناٹے کے پاس بھیجا گیا تھا جنھوں نے اس مقالے کو جانچا اور منظور کیا۔ اس کے بعد یونیورسٹی نے عبدالرؤف مومن کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔ 
 ۱۹۶۲ء میں عملی زندگی کا آغازبحیثیت معلم، اپنی مادرِ علمی رئیس ہائی اسکول سے کیا۔ بعد ازاں ۷۸۔ ۱۹۷۷ء میں بھیونڈی نظام پور نگر پالیکاکالج کے شعبۂ سائنس کے صدر منتخب ہوئے۔ اسی کالج کے وائس پرنسپل ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اسی عہدہ پر رہتے ہوئے ۲۰۰۲ء میں سبکدوش ہو ئے۔ سبکدوشی کے بعد جب صمدیہ سینئر کالج آف آرٹس و کامرس بھیونڈی کا آغاز ہوا تو اس کے اولین پرنسپل بھی مقرر ہوئے۔ یہاں ۶؍سال تک اپنی خدمات پیش کیں۔ ان کے پڑھانے کا انداز بہت دلچسپ ہوتا تھا۔ طلبہ میں ذرا بھی اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہنستے ہنساتے تدریس کا پورا مواد بچوں کے ذہنوں میں اتار دیا کرتے تھے۔ آج کی تاریخ میں انہیں استاذالاساتذہ کا مرتبہ حاصل ہے۔ بھیونڈی شہر اور اطراف کےمتعدد سائنس گریجویٹس کو ان کا شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہے جن میں سے بیشتر ٹیچر ہیں۔ 
  بھیونڈی ویورس ایجوکیشن سوسائٹی کے بانی رکن ہونے کے ساتھ ہی طویل عرصے تک اس کے خازن بھی رہے۔ فی الحال بھیونڈی ویورس ایجوکیشن سوسائٹی کے نائب صدر ہیں۔ رابعہ گرلز ہائی اسکول اور عبدالشکور پرائمری اسکول بھیونڈی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ لائنس کلب آف بھیونڈی کے صدر کے عہدہ پر بھی فائزرہ چکے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: ’’۱۹۶۱ء میں پہلی بار حج کیلئے گئی تھی، واپسی پربحری جہاز سمندر میں پھنس گیا تھا ‘‘

۱۹۷۰ءمیں روٹریکٹ کلب آف بھیونڈی کی جانب سے انہیں مثالی مدرس کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس وقت جی کے گدرے بھیونڈی نظام پور نگر پالیکاکالج کے پرنسپل تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ اس کالج میں صرف ڈاکٹر عبدالرؤف مومن ہی اس ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرحمان فقیہ بیرونِ ملک سے فیلوشپ کرکے آئے تھے جبکہ ڈاکٹر عبدالرؤف مومن نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی تھی۔ ان دونوں کے اعزاز میں ایک شاندار تہنیتی جلسہ کا رئیس ہائی اسکول گراؤنڈ میں انعقاد کیا گیا تھا۔ اس میں اس وقت کے بھیونڈی کےرکن پارلیمان شری بھاؤ صاحب دھامنکر نے فخریہ اندازمیں کہا تھا کہ میرے پڑوسی اور میرے دوست کے صاحبزادے ڈاکٹر عبدالرؤف حافظ عبدالقدوس مومن نے تھانے ضلع کا نام روشن کردیا ہے، اس کیلئے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ خیال رہے کہ اُس وقت وہ پورے تھانے ضلع میں سائنس کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والے واحد طالب علم تھے۔ 
  ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو جب ملک کوآزادی ملی۔ اس وقت ان کی عمر ۵؍ سال تھی۔ اس وقت بھیونڈی میونسپل پرائمری اسکول کے طلبہ صبح ہی صبح پربھات پھیری کی شکل میں پتھر والی اسکول(منڈئی) بھیونڈی پہنچے تھے جہاں ایک شاندار جلسہ منعقد ہوا تھا۔ ان بچوں میں عبدالرؤف مومن بھی شامل تھے۔ اس موقع پر آزادی کی مناسبت سے طلبہ نے شاندار تقاریر کی تھیں۔ جلسہ کے اختتام پر تمام بچوں کے درمیان گلابی کاغذ میں لڈو اور چونی (چار آنے کا سکہ) تقسیم کئے گئے تھے۔ اس وقت چار آنے کی بڑی اہمیت تھی۔ حالانکہ آزادی کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا لیکن آزادی کا سورج طلوع ہونے پر بڑی خوشی ہوئی تھی۔ 
 ہندوستان اورپاکستان کےمابین ۱۹۶۵ءمیں ہونےوالی جنگ کو ڈاکٹرمومن نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ بھیونڈی شہر میں مکمل بلیک آئوٹ ہونےسےڈروخوف کا ماحول پیداہوگیاتھا۔ کسی گھر سے زرا سی بھی روشنی باہر آتی تو پولیس فوراً پہنچ جاتی تھی۔ گھروالوں کو سختی سے تنبیہ کی جاتی تھی کہ باہر بالکل روشنی نہیں آنی چاہئے۔ لوگ چھپ چھپ کر گھروں کے اند رریڈیو پر جنگ کی خبریں سنا کرتے تھے۔ سڑکوں پر کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ اس جنگ کے بعد ڈاکٹر مومن نے ایسا ماحول کبھی نہیں دیکھا۔ 
  ڈاکٹر عبدالرؤف مومن کی رہائش گاہ بھیونڈی شہر کے آخری سرے دھامنکر ناکہ پر واقع تھا، جس کے بعد جنگل شروع ہو جاتا تھا۔ ان کے پڑوس میں بھیونڈی شہر کے رکن پارلیمان بھاؤ صاحب دھامنکر رہتے تھے۔ ۱۹۷۰ ء میں جب فرقہ وارانہ فساد شروع ہوا تو شہر میں خوف کا ماحول تھا۔ ہر ایک کو جان و مال کی فکر ستا رہی تھی۔ ایسے دہشت ناک ماحول میں دھامنکر صاحب نے ان کے گھر آکر کہا تھا کہ آپ لوگوں کو ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ جب تک میں ہوں، آپ لوگوں کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اس دوران یہاں فساد متاثرین کا کیمپ بھی لگا ہوا تھا جس میں ہندو اور مسلم دونوں ہی ٹھرے ہوئے تھے۔ یہ ایک بھیانک فساد تھا جس کی گونج اقوام متحدہ میں بھی سنائی دی تھی۔ بقول عبدالرؤف مومن کے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے روح کانپ جاتی ہے۔ 
  ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش سے ہونےوالی جنگ کےدوران ڈاکٹر عبدالرؤف مومن ممبئی کے گورنمنٹ ہاسٹل میں رہتے تھے۔ ان کا تحقیقی مقالہ آخری مرحلے میں تھا۔ اُن دنوں بار بار سائرن کی آوازیں آتی تھیں۔ آسمان پر اینٹی ائیر کرافٹ شیل کی روشنی نظر آتی تھی۔ پہلے تو لوگ سمجھ نہیں پائے، شیل کی روشنی سے محظوظ ہوئے لیکن جب حقیقت کا علم ہوا تو لوگ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے۔ تمام طلبہ سائرن کی آواز سنتے ہی ہاسٹل کے گراؤنڈ فلور پر جمع ہو جاتے تھے۔ 
  فروری ۱۹۸۳ء کو مکمل سورج گہن واقع ہوا تھا۔ سورج مکمل طور پر چھپ گیا تھا۔ اس کی وجہ سے دوپہر کے وقت شام جیسا منظر ہوگیا تھا۔ پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی سمت روانہ ہونے لگے تھے۔ دن کے اوقات میں آسمان پر تارے نظر آرہے تھے۔ اس وقت کی سب سےخاص بات یہ تھی کہ کچھ دیر کیلئے سایہ بھی ۲۔ ۲؍دکھائی دے رہاتھا۔ 
بہ تعاون : عبدالملک مومن

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK