Inquilab Logo

’’جب ڈاکو نےکہاکہ آپ ممبئی میں مرنا زیادہ پسند کریں گے تو میرے اوسان خطا ہوگئے‘‘

Updated: April 07, 2024, 1:02 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

۷۶؍سالہ رشید احمدانصاری ۳۰؍ سال بینکنگ شعبہ سے وابستہ رہے، وہ بارہ بنکی ضلع میں بینک آف انڈیا کی مقامی شاخ کے منیجر کے طور پر اپنی اُس تعیناتی کو کبھی نہیں بھلاپاتے جب ان کے بینک میں ایک ڈاکو پیسے جمع کرانے آیا تھا۔

Rashid Ahmad Ansari. Photo: INN
رشید احمد انصاری ۔ تصویر : آئی این این

مدنپورہ کی معروف سماجی و ملّی شخصیت رفیق احمد انصاری، گوشۂ بزرگاں کالم کے مداح ہیں۔ پابندی سے مطالعہ کرتےہیں اور کالم کی بہتری کیلئے اکثر اپنے زریں مشوروں سے نوازتے بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے فون پر گفتگو کے دوران ان کے بڑے بھائی رشید احمد انصاری کا ذکر نکل پڑا اور معلوم ہوا کہ وہ بھی اس کالم میں اپنی ۷۶؍ سالہ زندگی کے تجربات شیئر کرنے کے خواہشمند ہیں۔ رشید بھائی نےان سے ملاقات کیلئے پیر ۱۱؍ مارچ ۲۰۲۴ءکا وقت مقرر کرکے مضمون نگار کو ۸۱؍ آکسفورڈ ٹائور، یمنا نگر، آف لنک روڈ، لوکھنڈوالا کمپلیکس ( ملت نگر)، اندھیری (مغرب)، کا پتہ بھیج دیا۔ کالم نویس مقررہ وقت پررشید احمدانصاری کی رہائش گاہ پر پہنچ گیا۔ 
وسیع و عریض فلیٹ کے عالیشان ہال میں جہاں صوفے، کرسیاں اور میزسلیقے سے سجی ہوئی تھی، وہیں فرش پر بچھا ہوا قالین ہال کی خوبصورتی دوبالا کررہا تھا۔ جہاں صاف صفائی سے گھر میں رونق دکھائی دے رہی تھی وہیں گھریلو خواتین کے سلیقہ مندہونے کا احساس بھی ہورہاتھا۔ مجموعی طور پر انتہائی خوبصورت اور دلکش ماحول میں ہم نے ایک گھنٹہ ۵؍منٹ بڑی اہم اوردلچسپ گفتگو کی۔ 

یہ بھی پڑھئے: میں میکانک کا کام سیکھتا تھا، گیراج کا مالک تنخواہ کے نام پربریانی کھلاتا تھا

مدنپورہ، مارواڑی چال کے رشید احمد انصاری کی پیدائش ۳؍جون ۱۹۴۸ء کو ہوئی۔ مورلینڈروڈ کے پتھر والا اسکول سے چہارم اور انجمن اسلام سی ایس ایم ٹی سے میٹرک تک کی تعلیم حاصل کی۔ دھوبی تلائو کے سینٹ زیوئرس کالج سے امتیازی نمبرات سے بی ایس سی پاس کیا۔ ایم ایس سی بھی مکمل کرنا چاہتے تھے لیکن گھریلو حالات جلد ازجلد ملازمت کے متقاضی تھے، اس لئے ایم ایس سی کی پڑھائی کے دوران، بینک آف انڈیامیں ملازمت کاموقع مل گیا تو پڑھائی مکمل نہیں کرسکے۔ اس طرح  بینک آف انڈیا(بی اوآئی ) میں ریجنل منیجر کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے رشید انصاری تقریباً ۳۰؍ سال تک بینکنگ شعبہ سے وابستہ رہے۔ ساڑھے ۵؍سال بینک آف انڈیا میں اور بقیہ ۲۵؍سال بیرون ِ ملک، لندن اور خلیجی ممالک کی بینکوں میں اپنی خدمات پیش کیں۔ اب سبکدوشی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ سماجی اور ملّی سرگرمیوں میں اپنی قوت کے مطابق حصہ لیتے ہیں۔ 
انہوں نے دوران ملازمت ایک وقت ایسا بھی گزارا جب جیب میں پیسے ہونےکےباوجود ۳؍دن تک بھوکے رہے۔ یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے۔ وہ یوپی کے مین پوری ضلع کی بی او آئی کی ہیڈ برانچ میں   ڈپٹی منیجر کے طور پر مامور تھے۔ اس وقت یوپی میں ۳؍دنوں تک ہولی منائی جاتی تھی۔ خوب دھینگا مستی ہوتی، شراب، بھانگ اورگانجہ پی کر سڑکوں پر طوفان بدتمیزی عام بات تھی۔ یہاں کی ہولی، خونی اور لٹھ مارہولی کے طور پر مشہور تھی۔ سڑک پر نظر آنے والے عام لوگوں کو نشہ اور خوشی کے عالم میں زد وکوب کیا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے بینک کے منیجر نے رشید انصاری کو۳؍دنوں تک گھر سے نہ نکلنے کی تاکید کی۔ ایک عمررسیدہ مسلم خاتون ان کے گھرآکر کھانا بنا دیا کرتی تھیں لیکن وہ بھی ہولی کے ۳؍دن نہیں آئیں جس کی وجہ سے رشید صاحب جیب میں پیسے ہونےکےباوجود ۳؍دنوں تک بھوکے رہے۔ ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’’گھر کے نل کے پانی کو پی کر ۳؍دنوں تک پیٹ کی آگ بجھائی تھی۔ ‘‘ تیسری رات کوہولی کی شدت کم ہونےپر کھانےپینےکے سامان کی تلاش میں گھر سے باہر نکلے، قریب ایک حلوائی کی دکان کھلی تھی جسے دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ حلوائی دودھ گرم کر رہاتھا اورا س طرح۷۲؍گھنٹے بھوکے رہنےکےبعدانہیں ایک گلاس دودھ پینے کو ملا۔ 
 اسی طرح اُترپردیش کےبارہ بنکی ضلع کے حیدرگڑھ قصبہ کی بی او آئی شاخ کے منیجر کی حیثیت سے تقرری کا ان کا تیسرا دن تھا۔ قصبہ میں واحد پختہ عمارت بینک کی تھی۔ عمارت کےبالائی حصہ میں منیجرکے قیام کا انتظام تھا۔ رات کے تقریباً ۸؍بجے ہوں گے۔ اچانک گولیوں کے چلنے کی آواز سے رشیدانصاری نے خوفزدہ ہوکر ایک شخص سے پوچھا کہ کیا ہورہاہے؟ اس نے بتایاکہ گائوں لوٹا جا رہا ہے۔ چونکہ پورا علاقہ کچی آبادی پر مشتمل تھا۔ رشیدانصاری نے اپنے گھر کی کھڑکی سے تقریباً سوا گھنٹے تک لوٹ مار کاخوفناک منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ڈاکو دھڑلے سے گولی چلا رہے تھے۔ لاشیں زمین پر ڈھیر ہو رہی تھیں۔ افراتفری مچی ہوئی تھی، بچے، خواتین اور عمررسیدہ افراد چیخ رہے تھے۔ ایسے میں رشدانصاری کےذہن میں یہ اندیشہ بھی آیاکہ اگر ڈاکوبینک لوٹنے آگئے توانہیں کیا کرناہوگا؟ اسی پر غور کرتے ہوئے آیت الکرسی پڑھتےپڑھتے ان کی آنکھ لگ گئی۔ اگلے دن صبح ایک کسٹمر نے ان کے دفتر کی میز پر پیسوں سے بھری جھولی رکھ کر کہا، اسے گن کر میرے کھاتےمیں جمع کردو، ساتھ ہی کہاکہ کل رات جوکچھ ہواتھا، یہ اسی کی کمائی ہے۔ ۵۷؍ ہزار ۵۰۰؍ روپےاس کے کھاتےمیں جمع کر دیئے گئے۔ اس نے نہ پیسوں  کی گنتی کا انتظار کیا اور نہ یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس کے کھاتے میں  کتنے روپے جمع کئے گئے، ۲؍ دن بعد جب وہ بینک میں  آیا تو رشید انصاری نے ا س کے اس رویہ پر سوال کیا، اس نے جواب دیا کہ ’’مجھے یقین تھاکہ آپ صحیح گن کر کھاتے میں ڈال دیں گے۔ ‘‘ اس پر انہوں  نے سوال کیا کہ ’’اس یقین کی وجہ؟‘‘ ٹھاکر نے کہاکہ ’’ مجھے معلوم ہےکہ آپ ممبئی سے آئے ہو۔ ‘‘ یہ جواب بھی مطمئن نہ کرسکا تو انہوں  نے پھر پوچھا کہ’’ ممبئی سے آئے ہیں تو کیاہوا؟ ‘‘ اب ٹھاکر نے جو جواب دیا، رشید انصاری بتاتے ہیں  کہ اس نے ان کے اوسان خطا کردیئے۔ اس نے بڑی ہی سفاکی سے کہا کہ ’’ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آپ ممبئی میں ہی مرنا زیادہ پسند کریں گے۔ ‘‘ 
رشید انصاری لوکھنڈوالا کمپلیکس کی جس عمارت میں مقیم ہیں اسی میں معروف کامیڈین جانی لیوربھی رہتے ہیں۔ ۱۹۹۹ء کی بات ہے۔ اس وقت رشید صاحب سعودی عرب میں برسرروزگار تھے۔ ان کا فلیٹ خالی تھا۔ جانی لیور کو اپنے فلیٹ کی تزئین کرانی تھی، انہیں عارضی رہائش کیلئے فلیٹ کی ضرورت تھی۔ جانی لیور نے رشید انصاری سے رابطہ کیا اور ایک سال کیلئے فلیٹ حاصل کرلیا۔ ایک سال بعد جانی لیور اپنے فلیٹ میں منتقل ہونے لگے تو انہوں نے رشید انصاری کو یکمشت کرایہ ادا کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ اگر کرایہ لینا ہوتا تو دیتے وقت ہی طے کرلیتے۔ جانی لیور کی پوری کوشش کے باوجود رشید انصاری نے جب کرایہ نہیں لیا تو جانی لیور نے نئے سرے سے رنگ وروغن کراکر فلیٹ لوٹایا۔ وہ تعلق آج بھی برقرار ہے۔  
رشید انصاری نے کچھ عرصہ لندن کے ایک بینک میں بھی ملازمت کی۔ یہاں ابتدائی دنوں میں ایک لڑکی انہیں ٹریننگ دے رہی تھی۔ بتاتے ہیں  کہ اُن کی نرم گفتاری اور شریف انفس طبیعت سے وہ بہت متاثرہوئی اور اس نے اپنی سالگرہ کے موقع پر انہیں  گھر پر مدعو کیا لیکن لندن میں سالگرہ کی پارٹی میں شراب اور پورک (سورکے گوشت) سے بنائی گئی اشیاء کا چلن عام ہے اسلئے احتیاط انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں شراب نہیں پیتا، وہاں سب پینے والے ہوں گے، میں ان کی محفل خراب نہیں کرناچاہتا۔ چند دنوں بعد لڑکی کے والد نے رشید انصاری کو دوبارہ گھر پر آنے کی دعوت دی۔ مجبوراً انہیں جانا پڑا۔ گھر پر ان کیلئے کھانے پینے کامیز سجا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے لڑکی کے والد سے کہاکہ’’ اگر پورک والا کوئی آئٹم ہو تو برائے مہربانی بتادیں، میں اسے ہاتھ نہیں لگاسکتا۔ لڑکی کےوالد نے کہا ’’میرے سیکڑوں مسلمان دوست ہیں کبھی کسی نے یہ کہنے کی ہمت نہیں کی۔ آپ پہلے شخص ہیں جس نے یہ کہا ہے۔ ‘‘اس کے بعد انہوں نے سارے آئٹم کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور ان کے اس موقف کی ستائش بھی کی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK