Inquilab Logo

راج ٹھاکرے کی موقع پرستی مہاراشٹرکی سیاست میں کیا گل کھلائےگی؟

Updated: April 14, 2024, 4:26 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

اس مرتبہ ۴۰۰؍ کے پار کا نعرہ بلند کرنے والے بی جے پی کے گھاگ لیڈروں کو جلد سمجھ میں آ گیا کہ اپنے اور حلیفوں کے بوتے پر یہ مقصد حاصل کرنا دشوار ہے۔

Raj Thackeray has given `unconditional` support to BJP or is there any ED game behind it? Photo: INN
راج ٹھاکرے نے بی جے پی کو حمایت ’غیرمشروط‘ دی ہے یا پھر اس کے پیچھے ای ڈی کا کوئی کھیل ہے؟۔ تصویر : آئی این این

اس مرتبہ ۴۰۰؍ کے پار کا نعرہ بلند کرنے والے بی جے پی کے گھاگ لیڈروں کو جلد سمجھ میں آ گیا کہ اپنے اور حلیفوں کے بوتے پر یہ مقصد حاصل کرنا دشوار ہے۔ مہاراشٹر میں شیوسینا اور راشٹر وادی کانگریس کو توڑ کر بھی بی جے پی اپنے منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ناکام نظر آرہی تھی۔ توڑ پھوڑ کی سیاست کے باوجود انتخابی سروے میں ’مہایوتی‘ کیلئے کوئی ساز گار نتیجہ نہیں نکل رہا تھا۔ اس لئے بی جے پی نے راج ٹھاکرے کو اپنے حق میں ہموار کرلیا۔ اب دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ راج ٹھاکرے اور ان کی پارٹی بی جے پی کی کشتی کو کس حد تک پار لگا سکتی ہے؟ 
سکال(۱۱؍اپریل)
 اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’مہاراشٹر کے سیاسی میدان میں ایک نیا ہیرو ایک نئےکردار میں داخل ہوا ہے۔ لیکن یہ انٹری محض تماشائی بنے رہنے کی شرط پر ہوئی ہے۔ پچھلے انتخابات کے دوران بھی نہیں کھیلنے کی شرط پر راج ٹھاکرے مرکزی حکومت کی ناکامی کے متعدد ویڈیوز بتاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف تشہیری مہم چلا رہے تھےمگر پانچ سال بعد اچانک ایسا کیا ہوا کہ راج ٹھاکرے کو اپنے سابقہ موقف میں ۳۶۰؍ ڈگری کی تبدیلی کرنی پڑی۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنے موقف کی وضاحت کی کہ ` میں بلا شرط نریندر مودی کیلئےمہایوتی کی حمایت کروں گا۔ درحقیقت موجود سیاست میں راتوں رات وفاداری بدلنا معمول بن چکا ہے۔ تاہم عام لوگوں کا یہ سوچنا فطری ہے کہ اس `غیر مشروط ` کے پیچھے کیا وجوہات ہیں۔ آسمان سیاست پر اچانک نمودار ہونے والی راج ٹھاکرے کی پارٹی بالا صاحب ٹھاکرے کی حیات میں ۲۰۰۹ء میں ۶؍ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ مہاراشٹر نو نرمان سینا اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے کیلئے پچھلے ۱۸؍برسوں سےجدوجہد کررہی ہے کیونکہ قلیل وقت میں اس کا ووٹنگ فیصد آدھے سے بھی کم یعنی سوا دو فیصد رہ گیا ہے۔ شیواجی پارک کی ریلی میں راج ٹھاکرے کی تقریر سے واضح ہوگیا کہ ایم این ایس اپنا سیاسی وجود برقرار رکھنے کی جدوجہد کررہی ہے۔ اس پارٹی کو دوبارہ مودی کیمپ میں جانے کا موقع حریف ادھو ٹھاکرے کی وجہ سے ملا۔ وزیر اعلیٰ کے عہدے کی وجہ سے شیوسینا اور بی جے پی میں علاحدگی ہوگئی تھی۔ اس وجہ سے جو نہیں ہونا تھا وہ ہوگیا لہٰذا جہاں ادھو ٹھاکرے وہاں راج ٹھاکرے نہیں ہوسکتے۔ وہیں ادھو ٹھاکرے سے علاحدگی کے بعد بی جے پی لیڈروں نے بھی راج کی دہلیز پر قدم جمانے شروع کردیئے تھے۔ اس الیکشن میں حساب کتاب کی سیاست کرتے ہوئے بی جے پی نے ہر آنے والے کو قبول کیا اور جو نہیں آیا اسے ای ڈی کے چکر میں پھنسا دیا۔ جو لیڈر بی جے پی میں آنے کیلئے راضی ہوگیا اس کے ہزار خون معاف اور جس نے انکار کیا وہ جیل کے اندر چلا گیا۔ راج ٹھاکرے بھی ای ڈی کے دفتر کے چکر کاٹ چکے ہیں اس کے بعد ہی سے ان کی بی جے پی سے نزدیکیاں بڑھیں اور محنت رنگ لائی۔ اب بی جے پی ’ میرے پاس ماں ہے‘ کی طرز پر ` میرے پاس ’راج ہیں ‘کہہ سکتی ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: حکومت نواز ۶۰۰؍ وکلاء کا چیف جسٹس کو مکتوب بہت کچھ خود ہی بیان کردیتا ہے

مہاراشٹر ٹائمز(۱۱؍اپریل )
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ’’راج ٹھاکرے نے گڑی پاڑوا کے موقع پر شیواجی پارک میں نریندر مودی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔ درحقیقت راج ٹھاکرے اسی سمت جارہےتھے بس انہوں نے مہر ثبت کردی۔ غیر مشروط حمایت دیتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ مودی نوجوانوں کیلئے کچھ کریں گےلیکن اس کا راج ٹھاکرے اور ان کی پارٹی کو کیا فائدہ ہوگا، اس کا جواب حاضرین کو نہیں مل سکا۔ یہی نہی بلکہ ’لاو رے تو ویڈیو‘ سے ’بلا شرط حمایت‘ تک کا سفر کیوں اور کیسے شروع ہوا، اس کا بھی انہوں نے تسلی بخش جواب نہیں دیا۔ اس سے قبل بھی راج ٹھاکرے نے مایوس کیا تھا تاہم اس مرتبہ ان کی مایوسی فیصلہ کن ہے۔ ایسے مایوس کن فیصلے کرنے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ ماضی میں بھی انہوں نے انتخابات میں حصہ نہیں لینے کا اعلان کرکے اپنے حامیوں کو جھٹکا دیا ہے۔ ۱۸؍ سال پہلے راج ٹھاکرے نے ایک نیا سیاسی چراغ روشن کیا تھا، امید تھی کہ بہت جلد یہ چراغ مہاراشٹر بھر میں روشنی بکھیرے گا۔ ابتدائی چند برسوں میں انتخابات میں ایم این ایس کو جو کامیابی حاصل ہوئی، اس سے امید بھی بڑھ گئی تھی لیکن سیاست اپنے حساب سے کرنے کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پچھلے دس برسوں میں مودی، امیت شاہ اور دیویندر فرنویس نے دکھایا دیا کہ سیاست ۲۴؍ گھنٹے کام کرنے کا نام ہے۔ مستقبل میں کسی بھی جماعت کو سیاست میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو انہیں بی جےپی لیڈران کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔ راج ٹھاکرے اس سے کیسے مستثنیٰ ہوسکتے ہیں۔ شیوسینا چھوڑتے وقت انہوں نے کہا تھا کہ میرے بھگوان کے اردگرد خوشامدیوں کا ٹولہ جمع ہے۔ بد قسمتی سے ان کے اطراف بھی ایسے ہی لوگ جمع ہیں۔ قیادت اور تنظیم سازی دو الگ چیزیں ہیں۔ ایک بہتر تنظیم بنانے کیلئے ایک لیڈر کے پاس ایماندار کیڈر کا ہونا ضروری ہےلیکن راج کے اردگرد ایسا کیڈر کبھی جمع نہیں ہوا، نہ ہی انہوں نے اس کی ضرورت بھی محسوس کی۔ 
لوک ستہ(۱۱؍اپریل)
 اخبار نے لکھا ہے کہ’’ یوگ گرو بابا رام دیو اور ان کے شاگرد بال کرشن نے جس دن سپریم کورٹ کے سامنے غیر مشروط معافی مانگی ٹھیک اسی دن نئے ہندو ہردیہ سمراٹ راج ٹھاکرے نے مرکزی حکومت کیلئے اپنی پارٹی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔ بھلے ہی یہ حسن اتفاق ہو مگر ان دونوں واقعات میں مماثلت بھی ہے۔ پہلا بنا کسی شرط کے معافی، دوسرا اِن دونوں کے پاس کوئی اور متبادل راستہ بھی نہیں بچا تھا۔ رام دیو پر پہلے ہی تبصرہ کیا جا چکا ہے اور راج کی پارٹی کی اہمیت، دائرہ اثر اور نتائج وغیرہ کے مسائل کے پیش نظر اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت ہی نہیں۔ امتحان قریب ہونے پر کچھ طلبہ امتحان، امتحان کھیلنا شروع کردیتے ہیں اسی طرح راج بھی انتخابات قریب ہونے پر سیاست، سیاست کا کھیل شروع کردیتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب صرف مطالعہ کرنے پر مارکس مل جایا کرتے تھےلیکن اب امتحان کا انداز بدل گیا ہے اور سال بھر کی کارکردگی کا مسلسل جائزہ لیا جاتا ہے لیکن لگتا ہے راج اب بھی اپنے مطالعے کا طریقہ بدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں، اسلئے ان کا اس امتحان میں کیا ہوگا، سب کو پتہ تھا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK