Inquilab Logo

حکومت نواز ۶۰۰؍ وکلاء کا چیف جسٹس کو مکتوب بہت کچھ خود ہی بیان کردیتا ہے

Updated: April 07, 2024, 12:43 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

سپریم کورٹ کے مسلسل سخت فیصلوں اور سرزنش سے مرکزی حکومت کو بڑی ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ بالخصوص الیکٹورل بانڈ معاملے میں سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور الیکشن کمیشن کو الیکٹورل بونڈ کی ساری تفصیل ظاہر کرنے پر مجبور کردیا جس سے سرکار کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا۔

The Chief Justice of India has been targeted by a group of lawyers for rulings against the government. Photo: INN
حکومت کے خلاف فیصلوں کی وجہ سے چیف جسٹس آف انڈیا وکیلوں کے ایک گروہ کے نشانے پر ہیں۔ تصویر : آئی این این

سپریم کورٹ کے مسلسل سخت فیصلوں اور سرزنش سے مرکزی حکومت کو بڑی ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ بالخصوص الیکٹورل بانڈ معاملے میں سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور الیکشن کمیشن کو الیکٹورل بونڈ کی ساری تفصیل ظاہر کرنے پر مجبور کردیا جس سے سرکار کے سارے منصوبوں پر پانی پھر گیا۔ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق حکومت نواز وکلاء نے چیف جسٹس کو مکتوب لکھ کر الزام عائد کیا کہ مفاد پرستوں کا گروہ ججوں پر ایک خاص طریقہ سے فیصلہ کرنے کیلئے دباؤ ڈالتا ہے۔ اس کے برعکس دیکھا جائے تو پچھلے کچھ برسوں  میں سپریم کورٹ نے چند فیصلے حکومت کی عین منشا کے مطابق صادرکئے جس کے خلاف ملک کے انصاف پسند حلقہ نے صدائے احتجاج بھی بلند کی۔ بہرکیف آیئے دیکھتے ہیں کہ چیف جسٹس کو وکلاء کے مکتوب پر مراٹھی اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔ 
سامنا(۳۰؍مارچ)
 اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ’’ملک کے سب سے مہنگے وکیل ہریش سالوے سمیت ۶۰۰؍ وکلاء نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو مکتوب لکھا ہے۔ اس خط کے مضمون سے واضح ہوجاتا ہے کہ تمام وکلاء ایک خاص نظریے اور موجودہ متنازع نظام کے بالواسطہ حامی ہے۔ وکلاء کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ عدلیہ مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور مخصوص گروپ عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کیلئے دباؤ ڈالتا ہے۔ وکیلوں کے مکتوب کا مضمون دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس کا ماسٹر مائنڈ کون ہے۔ وکلاء کے خط کا فوری نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا کہ’’ڈرانا اور دھمکانا کانگریس کا کلچر ہے `۔ ‘‘ یہ ایک کھیل ہے جو مودی نے عین انتخابات کے وقت شروع کیا۔ عدالتوں پر دباؤ بنانے کیلئے یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ معاملہ میں منصفانہ اور قومی مفاد میں فیصلہ سناتے ہوئے مودی سرکار کو پوری طرح سے بے نقاب کردیا ہے۔ تب سے سپریم کورٹ کا غیر جانب دارانہ انصاف مودی سرکار اور اس کے حواریوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ یہ خط اُس شریمان نے لکھا ہے جس نے گھوٹالہ کرنے والی حکومت اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی سپریم کورٹ میں پیروی کی۔ سپریم کورٹ نے الیکٹورل بونڈ معاملہ میں کئی معروف وکلاء کی بولتی بند کرکے سچائی کو بے نقاب کیا۔ چیف جسٹس دھننجے چندر چُڈ کی بنچ دباؤ اور دھمکیوں کے آگے نہیں جھکی۔ شاید یہی بات ان ۶۰۰ ؍وکلاء کو پسند نہیں آئی ہے۔ جب ملک کی عدلیہ، جمہوریت اور آئین پر حملہ ہوتا ہے تب وکیلوں کی یہ جماعت وزیر اعظم مودی کو مکتوب کیوں نہیں لکھتی؟منی پور میں تشدد کے دوران جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا اور خواتین کو برہنہ سڑکوں پر گھمایا گیا تو اس وقت ۶۰۰؍ وکلاءکا ضمیر کیوں نہیں جاگا؟کسانوں کے احتجاج کو مودی سرکار نے کچل دیا اور کسانوں پر گولیاں چلائیں، تب وکلاء نے تشویش کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ عدلیہ مودی سرکار اور بی جے پی کی ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ قومی ستون ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کی گرفتاری سیاسی رنجش کا نتیجہ

سکال(۳۰؍مارچ)
 اخبار نے اداریہ میں لکھا ہے کہ’’ اس مرتبہ کے پارلیمانی انتخابات کو واقعی غیر معمولی کہنا چاہیے۔ اس سیاسی گھمسان میں عوام کے درد، مزاج اور مسائل پر بات ہوگی یا سیاسی جماعتوں کے مسائل کو ہی فوقیت دی جائے گی۔ اروند کیجریوال سمیت دیگر لیڈران کی گرفتاری سے پریشان اپوزیشن مسلسل سرکار کے خلاف آواز بلند کررہا ہے۔ یہ سب کچھ کم تھا کہ ۶۰۰؍ وکلاء نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر الزام عائد کیا کہ مفاد پرستوں کا ایک گروہ عدلیہ پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے بھی اس خط کی تائید کی ہے۔ اس سے وکلاء کی منشا کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ خط میں تنقید کی گئی کہ کچھ لوگوں کی جانب سے ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے اور بہت سے وکلاء اس میں ملوث ہیں۔ درحقیقت عدلیہ ایک مقدس مقام ہےجو تمام سیاسی مفادات سے دور ہے اور ہندوستانی آئین کے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ بدقسمتی سے اسے بھی سیاست کا شکار بنایا جارہا ہے۔ وکلاء کی شکایت درست ہوسکتی ہے لیکن بی جے پی یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ عدالتی خودمختاری کا پاس رکھتی ہے۔ اس کی سچائی میں ہمیں اُن واقعات کو یاد کرنا ہوگا جو بی جے پی کی دروغ گوئی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ریٹائرڈ چیف جسٹس کو فورا راجیہ سبھا کا ٹکٹ دے دیا گیا۔ مغربی بنگال میں ہائی کورٹ کے جج نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اور انہیں امیدواری بھی مل گئی۔ ان سب کے باوجود بی جے پی کااس طرح کا دعویٰ کرنا کون سے ضابطہ اخلاق کے خانے میں فٹ بیٹھتا ہے۔ حزب اختلاف برسوں سے الزام عائد کررہا ہے کہ حکمراں جماعت عدلیہ پر دباؤ ڈالتی ہے۔ اس پر جوابی حملہ کرنا ہی بچاؤ کا ایک طریقہ ہوسکتا تھا اس لیے وکلاء کا استعمال کرکے بی جے پی نے اپوزیشن کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی چال چلی ہے۔ ‘‘
پربھات(۲۹؍مارچ)
 ’ پربھات‘ لکھتا ہےکہ ’’ ۲؍ دہائی پہلے تک عام لوگوں یا سیاسی لیڈران کو بھی سی بی آئی یا عدلیہ پر بھروسہ رہتا تھا۔ یہ تصویر پچھلی دو دہائیوں میں تیزی سے تبدیل ہوئی ہے۔ آج حالات ایسے ہیں کہ عدلیہ پر بھی آسانی سے یقین نہیں کیا جاتا، تفتیشی ایجنسیوں کے بارے میں کچھ نہ کہنا ہی زیادہ بہتر ہے۔ عدالتی نظام کو شک کے دائرے میں کھڑا کیا جانا صحت مند معاشرے کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ مختلف عدالتی فیصلوں پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اور یہ عدالتوں پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کی کوشش ہے۔ کچھ مخصوص قسم کے گروہ سیاسی ایجنڈہ رکھتے ہیں۔ اسی بنیاد پر وہ عدالت کے فیصلہ کا خیر مقدم یا تنقید کرتے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستانی عدلیہ نے اپنا فرض بخوبی نبھایا ہے۔ اور آج بھی اس پر قائم ہے۔ ماضی میں کسی سیاسی شخصیت کے خلاف کیس درج کیا جاتا تو وہ شخص اخلاقی بنیاد پر عہدے سے الگ ہوجاتا تھا مگر اب منظر نامہ بدل چکا ہے۔ اب لوگوں نے عدالتی نظام پر ہی انگلیاں اٹھانی شروع کردی ہیں۔ ‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK