Inquilab Logo

مَیں بے خبر ہوں اور اس عالم ِخبر میں ہوں

Updated: April 04, 2021, 5:59 PM IST | Shahid Latif

یہ خبروں کا دور ہے۔ ہر جگہ خبریں ہی خبریں ہیں، نت نئی خبریں، ہر طرح کی خبریں۔ اس کے باوجود ممکن ہے آپ بھی مضمون نگار کے اس خیال سے اتفاق کریں کہ اسی دور میں بے خبری بھی بڑھی ہے۔

A scene from the movie  and Ayesha Chaudhary .Picture:INN
فلم کا ایک منظر اوربلند حوصلہ عائشہ چودھری۔تصویر :آئی این این

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مجھے سوشل میڈیا سے اپنی دوری کا ایک نقصان یہ ہوا کہ مَیں آس پاس کے بعض واقعات سے بے خبر رہا۔ سوشل میڈیا کو عام ہوئے چار پانچ سال ہوچکے ہیں۔ مگر یہ پہلا موقع ہے جب مجھے اس کا نقصان برداشت کرنا پڑا اور چند بہت قریبی افراد کے انتقال کی خبر مجھ تک خاصی تاخیر سے پہنچی۔ اپنوں کے رُخصت ہوجانے کے غم کو بروقت خبر نہ ملنے کے غم نے  دوچند کردیا۔ مَیں اپنا ’’قصور‘‘ تسلیم کرتا ہوں مگر مجھے معاشرہ سے بھی ایک شکایت ہے کہ اس کے افراد نے موت جیسے غمناک واقعہ کی خبر دینے کا سلسلہ ترک کردیا  اور اس زحمت سے، نادانستہ ہی سہی، گریز کرنے لگے۔ اب خبر وہاٹس ایپ گروپس کے حوالے کرکے اطمینان کرلیا جاتا ہے کہ خبر پہنچا دی گئی یعنی یقینی طور پر پہنچ گئی۔ معاشرہ کے افراد کی یہ تن آسانی اُن تغیرات ِ زمانہ کے سبب ہے جن سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ کئی تبدیلیاں اتنی راسخ ہوگئی ہیں کہ جو شخص اِن تبدیلیوں کو نہ اپنائے وہ ہونق کہلائے۔ ان میں سے ایک سوشل میڈیا کا استعمال ہے۔ مجھ سے جو بھی ملتا ہے وہ کہتا نہیں ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ سامنے بھی کہتا ہے اور میرے غیاب میں بھی کہ ’’آپ وہاٹس ایپ استعمال نہیں کرتے؟ تعجب ہے!‘‘ بے خبری کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ مگر ایسے دور میں جب خبریں ہر جگہ سے اُبل رہی ہیں اور ان کی ترسیل کے تیز تر ذرائع بھی موجود ہیں، باخبری  اور بے خبری میں گھمسان کا رن پڑگیا ہے۔ یہ گھمسان پہلے کبھی نہیں تھا۔ خبروں کے ذرائع میں ہوش رُبا اضافے سے جہاں باخبری بڑھی ہے وہیں بے خبری بھی عام ہوئی ہے۔ اسے طرفہ تماشا کہہ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں، مَیں اپنی ہی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ گزشتہ دنوں رویش کمار کا بلاگ پڑھتے ہوئے مجھے علم ہوا کہ ایک دوشیزہ، جس کا نام عائشہ چودھری تھا، محض ۱۸؍ سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے رخصت تو ہوگئی مگر بہت کچھ کرکے رخصت ہوئی ہے۔ ان ۱۸؍ برسوں میں وہ ’’پلمونری فائبراسس‘‘ نامی مرض کا شکار ہوئی جس میں سانسیں مختصر ہوجاتی ہیں، سوکھی کھانسی لاحق ہوتی ہے، ہر وقت تکان کا احساس ہوتا ہے، وزن گھٹتا چلا جاتا ہے اور ناخنوں کی ہیئت بدلنے لگتی ہے۔ یہ مرض بڑھتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ مریض کو سرطان تک پہنچا دے۔ پلمونری فائبراسس میں پھیپھڑے اپنی توانائی کھو دیتے ہیں اور زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ اس کے باوجود عائشہ نے حوصلے سے بھرپور زندگی گزاری۔ اس کی داستان غم، داستان غم ہی نہیں، داستان جرأت و سماجی احساس بھی ہے۔ اس پر فلم بنائی گئی ۔ فلم تھی ’’اسکائے از پنک‘‘ جس میں عائشہ کا کردار زائرہ وسیم نے ادا کیا تھا۔ ( اوپر تصویر میں: بائیں جانب فلم کا ایک منظر اور  دائیں جانب بلند حوصلہ عائشہ چودھری) ۔  عائشہ کو اِس دُنیا سے رخصت ہوئے چھ سال گزر چکے ہیں اور میری بے خبری دیکھئے کہ مجھے اب اُس کےبارے میں علم ہوا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، اُس نے صرف ۱۸؍ سال کی زندگی پائی۔ اس  میں سے چھ سات سال ابتدائی عمر کے نکال دیجئے تو باقی صرف ۱۲؍ سال بچتے ہیں۔ ان ۱۲؍ برسو ں میں اس نے اذیت ناک بیماری سے لوہا بھی لیا، ترغیبی لیکچرس بھی دیئے اور ایک کتاب بھی لکھی۔ اُس کی ماں نے بتایا کہ کتاب میں اس کے وہ خیالات ہیں جو اُس نے ۲۰۱۴ء میں سخت علالت کے دوران قلمبند کئے تھے۔  معلوم ہوا کہ زندگی ایسے بھی جی جاتی ہے۔ عائشہ چودھری نے جو لیکچرس دیئے وہ ’’اِنک‘‘ اور ’’ٹیڈ ایکس‘‘ جیسے بہت پُروقار پلیٹ فارمس پر دیئے۔ ممکن ہے اس کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر دستیاب ہوں اور آپ بھی دیکھ سکیں۔ عائشہ کی کتاب کا اجراء ۲۰۱۵ء میں جے پور لٹریری فیسٹیول کے دوران عمل میں آیا تھا۔ اس موقع پر اُس کی والدہ ادیتی چودھری نے کتاب کے چند اقتباسات پیش کئے تھے جن سے یہ احساس تقویت پاتا ہے کہ عمدہ خیالات دانشوروں اور مفکروں کی جاگیر نہیں، یہ اُن نوعمروں کے ذہنوں پر بھی دستک دیتے ہیں جنہیں بچہ کہہ کر نظر انداز کردیا جائے تو کسی کو اعتراض نہ ہو۔ اسد اللہ خاں غالب نے سچ کہا تھا: ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں۔‘‘  مگر، حقیقت یہ بھی ہے کہ جان ِقلم بن کر صفحۂ قرطاس پردمکنے والے خیالات  ہر کس و ناکس کے ذہن میں نہیں آتے، اُنہی کو مرحمت ہوتے ہیں جو ویسا جذبہ رکھتے ہیں۔ 
 عائشہ نے اس کتاب میں لکھا: ’’اگر آپ، اپنی زندگی نہیں بدل سکتے تب بھی اس بات کا قوی امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ آپ کسی دوسرے کی زندگی بدلیں۔‘‘ ایسا طاقتور جملہ مزید طاقتور محسوس ہوتا ہے جب یہ علم ہو کہ کہہ کون رہا ہے۔ جی ہاں یہ اور ایسے کئی جملے اُسی عائشہ کے قلم سے نکلے جسے اپنی زندگی کا ہر دن اور  اپنے دل کی ہر دھڑکن آخری معلوم ہوتی تھی۔ ایسا مریض خوف کے عالم میں اپنا باقیماندہ وقت گزارتا ہے، قریبی رشتہ دار فکرمند رہتے ہیں، دُعائیں کرتے ہیں اور ہر خاص و عام اُنہیں ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس کے باوجود عائشہ نے اپنی زندگی کے ہر لمحے کو خوف کے بغیر، اپنے ہی جملے کی صداقت کیلئے جیا کہ جو خود نہیں جی سکتا وہ دوسروں کو جینے کا قرینہ سکھا سکتا ہے۔ عائشہ نے یہ بھی لکھا کہ ’’کوہ پیمائی کا ارادہ کرو تو سب سے اونچی چوٹی کو اپنا ہدف بناؤ، پھر وہاں پہنچ کر اپنی رعنائیاں بکھیرنے کیلئے ایسے دن کا انتخاب کرو جو ٹھہرا ٹھہرا سا مضمحل دن ہو۔‘‘  یہ سطریں لکھتے وقت مَیں یہ سوچ سوچ کر بے چین ہوں کہ عائشہ جیسے نہ جانے کتنے افراد ہمارے آس پاس کی دُنیا میں بھی ہوسکتے ہیں جو پورے حوصلے اور بہادری کے ساتھ نامساعد حالات کا مقابلہ کرتے ہیں مگر اُن کا حوصلہ و  جرأت خبر نہیں بن پاتی۔ خبروں کی سونامی کے اس دور میں بھی لوگ ایسی خبروں سے محروم رہتے ہیں۔ اسی لئے مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ خبروں کی بھیڑ میں اَب اُن خبروں تک پہنچنے کیلئے کوشش کرنی پڑے گی جو اپنے اندر حیرت انگیز  طاقت رکھتی ہیں ورنہ میڈیا تو روزانہ ایسی خبریں ہمارے آپ کے دسترخوان پر سجانے کیلئے بے چین رہتا ہے جنہیں خبر کہنا اور خبر سمجھنا خبر کی تعریف سے بے خبری کا ’بے شرمانہ‘ اعلان و اعتراف ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK