Inquilab Logo

پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا

Updated: March 20, 2024, 12:41 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

پانچ برسوں میں سیاسی عطیات کے نام پر جو لوٹ مچائی گئی ہے اس کی تفصیلات اگر ملک کے سامنے آگئیں تو ایسی کیاقیامت ٹوٹ پڑے گی؟ ان ڈیٹا کے اندر ایسی کون سی معلومات ہیں جن کے منظر عام پر آجانے سے کسی کے بے نقاب ہوجانے کا خطرہ ہے؟ سرکار آخر کیوں ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ اس راز پر پردہ پڑا رہے؟

A scene from Monday`s hearing at the Supreme Court. The Chief Justice did not accept a single argument of CBI counsel Harish Salve. Photo: INN
سپریم کورٹ میں پیر کو شنوائی کا منظر۔ چیف جسٹس نے سی بی آئی کے وکیل ہریش سالوے کی ایک بھی دلیل کو تسلیم نہیں کیا۔ تصویر : آئی این این

سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود پیر کے دن بھی اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے الیکٹورل بانڈز کے سیرئل نمبر اور یونک کوڈالیکشن کمیشن کے حوالے نہیں کئے۔آج بھی حسب معمول کورٹ نے ایس بی آئی کو پھٹکار لگائی۔ صاف ظاہر ہے کہ عدالت عظمیٰ کی بار بار کی سرزنش کے باوجود ہندوستان کا قومی بینک  سرکار کو بچانے کی لگاتار کوشش کررہا ہے۔ سپریم کورٹ نے جب تما م تفصیلات الیکشن کمیشن کو  سونپنے کا غیر مبہم حکم دے دیا تھا اس کے باوجودایس بی آئی نے دو اہم تفصیلات چھپاکر توہین عدالت کا ارتکاب کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ ایس بی آئی کو اس نافرمانی کے لئے سزا بھی دے سکتی تھی۔
پانچ برسوں میں سیاسی عطیات کے نام پر جو لوٹ مچائی گئی ہے اس کی تفصیلات اگر ملک کے سامنے آگئیں تو ایسی کیاقیامت ٹوٹ پڑے گی؟ ان ڈیٹا کے اندر ایسی کون سی معلومات ہیں جن کے  منظرعام پر آجانے سے کسی کے بے نقاب ہوجانے کا خطرہ ہے؟ سرکار آخر کیوں ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ اس راز پر پردہ پڑا رہے؟ پیرکو ایک نئی تگڑم لگائی گئی اور کارپوریٹ دنیا کی تین نمائندہ تنظیموں کے بھاری بھرکم وکیل الیکٹورل بانڈز کی تفصیلات خفیہ رہنے دینے کی دہائی دینے عدالت پہنچ گئے۔اللہ کے نیک بندے کسی کو دان دیتے وقت اتنی خاموشی اور رازداری برتتے ہیں کہ دائیں ہاتھ سے دیں تو بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہو۔ وہ اپنی نیکی کی تشہیر نہیں چاہتے ۔لیکن ایسے لوگ یا ایسی کمپنیاں جو صر ف ہر طرح کے دھندوں ہی نہیں بلکہ گورکھ دھندوں میں بھی ملوث ہیں وہ بھی اگر نیک بندوں کا وطیرہ اپنانے لگیں تو شک ہونا لازمی ہے۔
 ایس بی آئی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ایک ماہ بعد بھی سیرئل نمبرز اور یونک کوڈ کی تفصیل نہیں دی ہے جنہیں ہم الیکٹورل بانڈز کے تالے کی چابی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ یہ پتہ چل جائے گا کہ کس شخص یا کس کمپنی نے کس پارٹی کو کتنی رقم دی ہے۔ صاف لگ رہا ہے کہ حکومت نہیں چاہتی ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔ابھی یہ پتہ چلاہے کہ اکیس ایسی کمپنیوں نے کروڑوں کے بانڈز خریدے جن پر پہلے ای ڈی، انکم ٹیکس اور سی بی آئی کے چھاپے پڑے۔ سب سے بڑے ڈونرلاٹری کنگ پر متعدد بار چھاپے پڑے اور اس نے متعدد بار بانڈز خریدے۔ یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ کچھ کمپنیوں جیسے میگھا انجینئرنگ نے ۱۴۰؍کروڑ کے بانڈز خریدے اور ایک ماہ کے بعد ہی انہیں تھانے۔بوریولی سرنگ بنانے کا ۱۴۴۰۰؍ کروڑ کا ٹھیکہ مل گیا۔ یونک کوڈ کے منظر عام پر آجانے سے یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ میگھا یا لاٹری کنگ جیسے سخی داتاؤں کی نوازشیں کس پارٹی پر اور کیوں ہوئی تھیں۔  
کانگریس رہنما راہل گاندھی نے الیکٹورل بانڈز کو ہندوستان کی ’’ تاریخ کا سب سے بڑا گھوٹالہ‘‘ قراردیا ہے۔ دوسرے لیڈران اسے رشوت، جبری وصولی، ہفتہ اور منی لانڈرنگ کا طریقہ بتا رہے ہیں۔اگر عطیہ دہندہ اور سیاسی پارٹی کا کنکشن سامنے آجاتاہے تو پوری کہانی پبلک کی سمجھ میں آجائے گی۔ عوام جان جائیں گے کہ ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے اور کسانوں کی آمدنی دگنی کردینے جیسے وعدوں کی طرح سیاسی نظام کو بدعنوانی اور کرپشن سے پاک کردینے کا سرکار کا دعویٰ بھی کھوکھلا جملہ ہی تھا۔ پارلیمانی جمہوریت میں آئینی اداروں کا فرض ہے کہ وہ حکومت پر چیکس اینڈ بیلنسز کا کام کریں یعنی ریاست کو اقتدار اوراختیار کے بیجا استعمال سے روکیں۔ لیکن پچھلے دس برسوں میں بیشتر آئینی داروں نے اپنا فرض منصبی ترک کردیا ہے۔ کچھ اداروں کی خود مختاری پر حکومت نے لگام لگادی اور کچھ خود ہی  سرکار کا حکم بجانے لگے۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا نے الیکٹورل بانڈز کی سچائی پر پردہ ڈالنے کی جو  کوششیں کیں اور جن کی وجہ سے سپریم کورٹ نے اس کی بار بار سرزنش کی وہ اس عظیم قومی ادارے کی ساکھ کو خاک میں ملارہی ہیں۔پیر کے دن سماعت کے دوران آئینی بنچ نے یہاں تک کہ دیا کہ ’’ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کسی سیاسی پارٹی کا مقدمہ نہیں لڑ رہے ہیں ۔‘‘ اس سے بڑا تازیانہ اس قومی بینک کے لئے کیا ہوسکتا ہے؟ اب سمجھ میں آیا کہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا ان صنعت کاروں کے ناموں کا اعلان کرنے سے کیوں انکار کرتاہے جنہوں نے اسے لاکھوں کروڑ وں کا چونا لگایا ہے۔
امریکہ سمیت دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں مسلسل یہ کوشش جاری ہے کہ سیاسی اور انتخابی فنڈنگ کو صاف اور شفاف بنایا جائے اور اسی لئے ان ممالک میں سیاسی پارٹیوں کو چندہ دینے والے شہریوں یا کمپنیوں کی شناخت ظاہر کردی جاتی ہے  جبکہ مودی سرکار کے ذریعہ ۲۰۱۷ء  میں متعارف کرائے گئے الیکٹورل بانڈز کی بنیاد ہی رازداری پر رکھی گئی تھی۔ الیکٹورل بانڈز کی سب سے بڑی خامی تھی ووٹرز کی یہ لاعلمی کہ کس سیاسی جماعت کو کون پیسے دے رہا ہے اور بدلے میں حکومت سے کیا مراعات حاصل کررہا ہے۔سپریم کورٹ نے ۱۵؍فروری کو الیکٹورل بانڈز کو ’’غیر آئینی‘‘ قرار دے کر اس پر پابندی لگانے کا فیصلہ سناتے وقت یہ کہا کہ یہ رائے دہندگان کے اطلاعات کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
 وزیر داخلہ امیت شاہ ابھی بھی ا لیکٹورل بانڈز متعارف کرانے کے اپنی حکومت کے فیصلے کا دفاع کررہے ہیں۔ ایک غلط کام کو صحیح ٹھہرانے کی کوشش کوڈھٹائی بھی کہہ سکتے ہیں اور آمرانہ ذہنیت کا مظاہرہ بھی۔شاہ صاحب کا یہ دعویٰ  بھی کہ مودی سرکار نے الیکٹورل بانڈز کے ذریعہ انتخابات میں کالے دھن کی ترسیل روکنے کی کوشش کی ہے، نوٹ بندی کے جواز میں کئے گئے دعوؤں کے مانند قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والا دعویٰ ہے۔ شاہ صاحب کی دوسری دلیل یہ ہے کہ الیکٹورل بانڈز سے صرف بی جے پی ہی نہیں بلکہ تمام پارٹیاں مستفیض ہوئی ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ تقریباً ۱۶۰۰۰؍ کروڑ میں  سے بی جے پی کے حصے میں تقریباً ۸۰۰۰؍ کروڑ آئے جو تمام پارٹیوں کو ملنے والے مجموعی عطیات سے بھی زیادہ ہیں۔دوسری بات یہ کہ الیکٹورل بانڈز مودی سرکار کا انوکھا منصوبہ تھا۔کانگریس یا کسی اور پارٹی کا اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ کانگریس نے تو شروع میں بھی اس اسکیم کی پرزور مخالفت کی تھی۔راہل گاندھی نے ۲۰۱۹ء میں کہا تھا کہ ’’ نیو انڈیا میں رشوت اور ناجائز کمیشن کو الیکٹورل بانڈز‘‘ کہتے ہیں۔آج پانچ سال بعد یہ ثابت ہوگیا ہے کہ راہل کا یہ مشاہدہ بھی بالکل درست تھا۔امیت شاہ جی کوپتہ ہونا چاہئے کہ دوسروں کے گناہ گنوانے سے بی جے پی کے گناہ کم نہیں ہوں گے۔ مودی جی نے دس سال قبل قوم کو’’ اچھے دنوں‘‘  کی آمد کا مژدہ سناتے وقت یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ’’ نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا۔‘‘ لوگ آج یہ پوچھ رہے ہیں:’’کیا ہوا تیرا وعدہ؟‘‘  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK