Inquilab Logo Happiest Places to Work

زباں نہ ہوتی تو کس کے منہ میں زبان ہوتی!

Updated: July 12, 2025, 1:37 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

زبان کا جھگڑا سیاست کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، عوام کو نہیں کیونکہ ہر زبان تہذیبی اثاثہ کی کنجی ہے۔ ایک سے زائد زبانیں سیکھنے والے ایک سے زائد تہذیبوں کی سیاحت کا لطف لیتے ہیں۔ گھر بیٹھے ایسی سیاحت بصورت دیگر ممکن نہیں۔

Language disputes can benefit politics, not the people, because every language is the key to a cultural asset.
زبان کا جھگڑا سیاست کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، عوام کو نہیں کیونکہ ہر زبان تہذیبی اثاثہ کی کنجی ہے

کبھی تصور کیجئے۔ آپ کسی ایسے ملک میں ہیں جہاں نہ تو آپ کی زبان سمجھنے والا کوئی ہے نہ ہی آپ وہاں کی زبان سمجھتے ہیں، یا، آپ ایسے ملک میں ہیںجہاں کی زبان سے آپ واقف ہیں مگر آپ کو جن زبانوں سے شناسائی ہے اُن کا جاننے والا وہاں کوئی نہیں۔ پہلے ملک میں آپ اجنبیت محسوس کرینگے اور اپنی بات کہنے کو ترس جائینگے۔ دوسرے ملک میں آپ غیریت محسوس کرینگے اور جو بات کہنی ہے اُسے اپنی زبان میں کہنے کیلئے بے چین رہیں گے۔ 
 جب ہم زبانوں پر جھگڑتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ اپنی ہوں یا پرائی، زبانیں سب اہم ہیں جن میں معنی خیز رابطہ پیدا کرنے اور دلوں کو جوڑنے کی غیر معمولی طاقت ہوتی ہے۔ ذوقؔ نے اگر یہ کہا تھا کہ ’’اے ذوق کسی ہمدم ِ دیرینہ کا ملنا=بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے‘‘ تو اس میں ہمدم دیرینہ کی معنوی وسعت اپنے اندر بہت کچھ سموئے ہوئے ہے۔ ہمدم دیرینہ وہ شخص بھی ہے جو ہم زبان  ہے، تبھی تو اُس سے دل کی بات اس طرح کہی جاسکتی ہے جس طرح دھڑکنوں کی زبانی کہی جاتی ہے!
  زبانوں کی تاریخ پر غور کرتے ہوئے مَیں اُس عہد میں پہنچ جاتا ہوں جس میں دُنیا کی پہلی زبان نہ تو ایجاد ہوئی تھی نہ ہی انسان میں اشاروں سے گفتگو کا شعور جاگا تھا۔ اُس عہد کے لوگ ایک دوسرے سے کتنا بے تعلق رہتے ہوں گے ۔ کس طرح اُن کی زبان پر ہزاروں الفاظ مچلتے رہے ہوں گے مگر الفاظ کا وسیلہ نہ ہونے کے سبب  ناپیدا، نادیدہ، ناشنیدہ اور ناآزمودہ الفاظ زبان پر مچل کر رہ جاتے ہونگے؟ کس طرح اُنہوں نے بولنے اور سننے کیلئے الفاظ کی ضرورت محسوس کی ہوگی اور وہ کون سے الفاظ رہے ہوں گے جو پہلی بار اُن کی زبان پر آئے ہونگے۔ کتنی مشکلوں سے انہوں نے اپنی بات اس طرح کہنے کی کوشش ہوگی کہ وہ بات مخاطب کی سمجھ میں بھی آجائے؟ 
 کہا جاتا ہے کہ دُنیا کی پہلی زبان اتنی قدیم ہے کہ اس کا سراغ لگانے کیلئے شاید ہمیں پچاس ہزار سال یا اس سے بھی آگے جانا پڑے۔ فرض کرلیا جائے کہ دُنیا کی پہلی زبان پچاس ہزار سال پہلے ہی وجود میں آئی تھی تو یہ تسلیم کرنا ہو کہ زبان، جس میں تفریق یا امتیاز کرنا سیاستدانوں کا محبوب مشغلہ ہے، کتنا بڑا اور قدیم سرمایہ ہے۔ لسانیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ دُنیا میں جتنی بھی زبانوں کی تشکیل ہوئی، وہ خواہ آج موجود ہوں یا مفقود، اُن سب کا منبع وہی پہلی زبان ہے جو انسان کی قوت گویائی کا زیور اور بات چیت کا اولین وسیلہ بنی۔ اسی لئے ہر خاص و عام پر لازم ہے کہ اہل سیاست سے صاف اور دوٹوک انداز میں کہہ دے کہ آپ کے پاس سیاسی روٹیاں سینکنے کیلئے ہزاروں موضوعات ہوسکتے ہیں، زبانوں کے موضوع کو بخش دیجئے، یہ نہ جانے کتنے لوگوں کی مساعی ٔ جمیلہ کا ثمرہ ہیں اور نہ جانے کتنی قربانیوں کے صلے میں ہم تک پہنچی ہیں۔ 
 ایک عام انسان دو یا تین زبانوں سے زیادہ نہیں جانتا جبکہ اگر کوشش کی جائے تو بیک وقت دس زبانوں سے آشنائی مشکل نہیں ہے۔ چنئی کے محمود اکرم (دیکھئے تصویر بائیں کالم میں) کی عمر صرف ۱۹؍ سال ہے مگر وہ چار سو زبانیں لکھ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، پڑھ سکتے ہیں اور ٹائپ کرسکتے ہیں۔ یہ محض اُن کا دعویٰ ہوسکتا تھا مگر وہ سب سے زیادہ زبانیں جاننے کے کئی عالمی ریکارڈ بنا چکے ہیں جس کے پیش نظر اُن کی صلاحیت پر چاہ کر بھی شک نہیں کیا جاسکتا۔ اُن کے والد عبدالحمید لسانیات کے ماہر ہیں اور خود بھی سولہ زبانیں جانتے ہیں۔ دورِ حاضر میں جب انٹرنیٹ کسی بھی زبان کے سیکھنے میں ہر زاویہ سے ممدومعاون ہے، کثیر لسانی ہونا آسان ہوگیا ہے اور یہ آسانی گھر بیٹھے میسر ہے۔ اس کیلئے روزانہ پندرہ بیس منٹ کا وقت نکال لینا بھی کافی ہوسکتا ہے۔ تسلیم کہ محمود اکرم کی طرح چار سو زبانوں کے  ہدف تک نہیں پہنچا جاسکتا مگر اتنا تو ہوگا کہ کبھی محمود میاں مل گئے تو اُن کے سامنے شرمندگی نہیں ہوگی!
 مہاراشٹر میں تنازع ہندی زبان کے لازم کئے جانے کا تھا۔ اب تو نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا ہے مگر اب بھی طالب علموں کو ہندی سے دلچسپی ہونی چاہئے۔ نہ ہو تو والدین کو اُنہیں اس جانب ملتفت کرنا چاہئے۔ ہندی سے میری خاص دلچسپی ہے اور اس کے دو بڑے اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے سیکڑوں الفاظ (مثلاً رَینا، سانجھ، ایکانت، پریاس، ورنن، آہوتی، نرمل، مدھر، سنگیت،  درپن، کال، سکال) بولنے، لکھنے اور پڑھنے میں لطف دیتے ہیں۔ دوسرا سبب وہ ادباء و شعراء ہیں جنہوں نے زمین سے وابستہ ادب تخلیق کیا۔ ہندی کا ادیب جب جمنا کے تٹ کا ذکر کرتا ہے تو جمنا بھی اپنی لگتی ہے اور اس کا تٹ بھی مگر جب انگریزی کا ادیب ’’فورشور آف دی ٹیمز‘‘ لکھتا ہے تو فورشور سے وابستگی پیدا ہوتی ہے نہ ہی ٹیمز سے جو لندن کی مشہور ندی ہے۔ مگر اس کا معنی یہ نہیں کہ انگریزی چونکہ بدیسی زبان ہے اس لئے اس کے سیکھنے میں کوئی تردد ہونا چاہئے۔ جی نہیں، انگریزی بھی کمال کی زبان ہے اور اس کا سیکھنا بھی ترجیحات میں ہونا چاہئے مگر ویسا نہیں جیسا آج کل کےبہت سے  والدین نے کیا۔ بچوں کو انگریزی میں داخل کیا اور مادری زبان (اُردو) سے نابلدرکھا۔
 زبانوں ہی کی بات ہورہی ہے تو یہ جان کر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ جن زبانوں کا ذخیرۂ الفاظ سب سے زیادہ وسیع ہے اُن میں سرفہرست عربی  ہے اور چونکہ اہل اُردو کو عربی سے خاص نسبت ہے اور وہ عربی پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں اس لئے اُسے سمجھنے  اور بولنے پر بھی متوجہ ہونا چاہئے۔ کسی اور سے نہیں تو گوگل پر ’’اے آئی اُووَر ویو‘‘ سے دریافت کرلیجئے وہ بتائے گا کہ عربی کا ذخیرۂ الفاظ ۱۲؍ ملین یعنی ایک کروڑ بیس لاکھ تک وسیع ہے۔ عربوں کی فصاحت ِلسانی مشہور ہے جس کا ایک رازاِس زبان کا ذخیرۂ الفاظ بھی ہے۔
 زبانوں سے نفرت ٹھیک نہیں خواہ وہ دیسی ہوں یا بدیسی، دیسی زبانوں میں اپنی ریاست کی ہوں یا دیگر ریاستوں کی۔ تمام زبانیں وسیع تر انسانی ثقافتی ورثہ کی امین ہیں اور ان ثقافتوں سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا ذریعہ۔ زبانوں سے محبت تہذیب سے محبت ہے، علم سے محبت ہے۔ اس سے  دانش کی سطح کو بلندکیا جاسکتا ہے ۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK