ہٹلر مخالف مشہور جرمن فلسفی، مارٹن نیمولر نے ۱۹۴۶ء میں دیئے گئے ایک لیکچر کے دوران ایک نظم پڑھی تھی جو بطور عبرت دنیا کے تمام خطوں میں اکثر دہرائی جاتی ہے۔
EPAPER
Updated: June 07, 2023, 4:08 PM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
ہٹلر مخالف مشہور جرمن فلسفی، مارٹن نیمولر نے ۱۹۴۶ء میں دیئے گئے ایک لیکچر کے دوران ایک نظم پڑھی تھی جو بطور عبرت دنیا کے تمام خطوں میں اکثر دہرائی جاتی ہے۔
ہٹلر مخالف مشہور جرمن فلسفی، مارٹن نیمولر نے ۱۹۴۶ء میں دیئے گئے ایک لیکچر کے دوران ایک نظم پڑھی تھی جو بطور عبرت دنیا کے تمام خطوں میں اکثر دہرائی جاتی ہے۔ اس نظم کا مفہوم یہ تھا کہ ’’پہلےاُن کی زد پر سوشلسٹ آئے، لیکن میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔ پھر ان کی زد پر ٹریڈ یونین کے لوگ آئے، میں تب بھی کچھ نہیں بولاکیونکہ میرا تعلق ٹریڈ یونین سے نہیں تھا۔پھران کے نشانے پر یہودی آئے، تب بھی میں خاموش رہاکیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔ اس کے بعد وہ میرے پاس آئے لیکن تب تک میری خاطر بولنے کیلئے کوئی بچا ہی نہیں تھا۔‘‘
کچھ یہی صورتحال ان دنوں وطن عزیز کی ہے، جہاں باری باری سب کا نمبر آرہا ہے۔ جو لوگ نشانہ بنتےہیں، وہ احتجاج کرتے ہیں اور باقی لوگ تماشہ دیکھتے ہیں، انہیں سماج کے دوسرے طبقات کی حمایت نہیں ملتی۔ خواب غفلت سے لوگ اُسی وقت بیدار ہوتے ہیں جب آگ کی لپٹیں ان کے گھروں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جن کا نمبر ابھی تک نہیں آیا ہے، وہ خاموش ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ محفوظ ہیں اور آئندہ بھی محفوظ رہیں گے۔
شاہین باغ پر احتجاج ہو ا تو کہاگیا کہ یہ تو مسلمانوں کا ہے۔
اونا میں دلت نوجوانوں کی پٹائی کے بعد مظاہرہ ہوا تواسے گجراتی دلتوں کا مظاہرہ بتایا گیا۔
بھیما کورے گاؤںتشدد کے نام پر پڑھے لکھوں کو نشانہ بنایا گیاتو اسے کمیونسٹوں اور ماؤ وادیوں سے جوڑ دیا گیا۔
جے این یو اور الہ آباد یونیورسٹی میںکریک ڈاؤن ہوا تو کہاگیاکہ یہ ٹکڑے ٹکڑے گینگ کے خلاف ہے۔
غازی پور، دہلی بارڈر پر دھرنا دیا گیا تو کہاگیا کہ یہ تو یوپی اور ہریانہ کے کسانوں کا ہے۔
اگنی پتھ کے خلاف ملک گیر مظاہرہ ہوا تو کہاگیا کہ یہ تو کچھ گمراہ نوجوانوں کا ہے۔
اور جنتر منتر پر خاتون پہلوانوں نے احتجاج کیا تو کہا گیا کہ یہ تو ہریانہ کے ایک خاندان اور ایک مخصوص اکھاڑے کی چند کھلاڑیوں کا ہے۔
یہ سلسلہ جاری ہے۔ جو ظلم کا شکار ہوتا ہے، وہ احتجاج کرتا ہے اور باقی لوگ خاموش رہتے ہیں۔اس کی وجہ سے ظالم کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اور وہ اگلے شکار کی منصوبہ بندی کرنے لگتا ہے۔
بی جے پی کا وجود ہی مسلمانوں کی مخالفت پر ہوا ہے، اسلئے این آر سی اور سی اے اے کے خلاف دہلی کے شاہین باغ میں۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۹ء کو جب مسلم خواتین دھرنے پر بیٹھیں تو حکومت نے اس کا کچھ خاص نوٹس نہیں لیا۔ مظاہرین نے موسم کی سختیوں کے ساتھ ہی حکومت کی دھمکیاں اور ’ٹرولرس‘کی گا لیاں بھی برداشت کیں لیکن سماج کے دیگر طبقات کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور اس طرح کورونا کی وبا کے آنے تک یعنی ۱۰۱؍ دن تک یہ مظاہرہ جاری رہا۔
حکومت کا حوصلہ بڑھا تو مسلمانوں کے بعد جلد ہی کسانوں کا نمبر بھی آگیا۔حکومت نے اپوزیشن کو اعتماد میں لئے بغیرایک نہیں، دو نہیں بلکہ ایک ساتھ تین ایسے قوانین بنادیئے جنہیں کسان مخالف کہا گیا۔ اس کے خلاف احتجاج شروع ہوا تو ایک سال سے زائد یعنی ۴۹۰؍ دنوں تک جاری رہا۔ اس دوران ۷۵۰؍ سے زائدمظاہرین کواپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ وہ تو بھلا ہو کہ اسی دوران اترپردیش میں اسمبلی کا الیکشن آگیا جس کی وجہ سے حکومت کو ’کالے قوانین‘ کو واپس لینے کااعلان کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
بے روزگاری سے پریشان ملک کے نوجوانوں نے حکومت کی نئی اسکیم ’اگنی پتھ‘ کے خلاف ملک گیراحتجاج کیا۔ اس دوران ان نوجوانوں کے خلاف جم کر طاقت کا استعمال کیاگیا لیکن انہیں چھوڑ کر جو براہ راست اس کے متاثرین تھے، سماج کے دیگر طبقات سے انہیں کوئی حمایت نہیں ملی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ ہی دنوں میں تھک ہار کر وہ بیٹھ گئے۔
اور اب وہی سارے آزمودہ حربے اور ہتھ کنڈے پہلوان مظاہرین کے خلاف بھی استعمال کئے جارہے ہیں۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس بار بھی ’متاثرین‘ کے علاوہ دوسرے لوگ سامنے نہیں آئیں گے۔ اور ابھی تک کے حالات سے اس خیال کی توثیق بھی ہورہی ہے۔
کچھ نہ بولنا اگر مصلحت ہے تومظلوموں کے خلاف کچھ بولنا بے حسی ہے۔ حکومت میں شامل لوگوں کی بات جانے دیں کہ ان سے کچھ توقع کرنا ہی فضول ہے، وہ لوگ بھی اپنی خاموشی سے ظالموں کے حوصلے بلند کررہے ہیں جنہیں مظلوموں کی حمایت کرنی چاہئے تھی۔اس دوران جبکہ امیتابھ بچن اور سچن تینڈولکر جیسی اہم شخصیات سےاس مسئلے پر لب کشائی کے مطالبے میں شدت آرہی ہے، صدی کے ’مہا نائک ‘ کا یہ ٹویٹ بے چین کرنے والا ہے کہ ’’چلو! آج کچھ اور کرتے ہیں، چپ رہتے ہیں۔‘‘
چپ رہنا مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا۔ ’چپ‘ رہنے کی وجہ ہی سے مسلمانوں کے بعد کسانوں کا پھر جلد ہی دلتوں، نوجوانوں اور کھلاڑیوں کا نمبر بھی آگیا۔ اگر ہم پہلے ہی دن یہ محسوس کرلیتے کہ یہ احتجاج ہندوستانیوں کا ہے توآج یہ نوبت نہیں آتی۔کسی کو چھیڑنے سے پہلے حکومت سو بار سوچتی۔ وقت ابھی ہاتھ سے گیا نہیں ہے۔جب جاگے تبھی سویرا کے مصداق ہم اگر آج بھی متحد ہوجاتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر بیداری کا ثبوت پیش کرتے ہیں توکوئی وجہ نہیں کہ ہمیں انصاف نہ مل سکے۔ کچھ اور نہیں تو کم از کم کسی مظلوم کی حمایت میں آواز بلند کرنے سے اس بات کی تسکین تو ہوگی کہ ہم ظلم کے نہیں، مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ بقول شاد عظیم آبادی:
خموشی سے مصیبت اور بھی سنگین ہوتی ہے
تڑپ اے دل تڑپنے سے ذرا تسکین ہوتی ہے