Inquilab Logo

بہار میں محکمہ تعلیم اور راج بھون آمنے سامنے!

Updated: March 14, 2024, 10:59 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed

اس تنازع کو لے کر عوام الناس میں منفی رائے عامہ قائم ہو رہی ہے جو تعلیمی ماحول کیلئے بہتر نہیں ہے۔ یہ مسئلہ جتنی جلد ختم ہو جائے وہ ریاست کے تعلیمی ماحول کو سازگار بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ریاست بہار میں تمام ریاستی یونیورسیٹیوں کے چانسلر ریاست کے گورنر موصوف ہی ہوتے ہیں اور ایسا بہار اسٹیٹ یونیورسٹی ایکٹ ۱۹۷۶ء کے مطابق ہے۔ اسلئے بہار کی تمام یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر اور رجسٹرار کی تقرری بالواسطہ طورپر بہار کے گورنر موصوف کے ذریعہ ہی کی جاتی ہے اور دیگر آفیسروں کی تقرری پر گورنر ہائوس کی منظوری لی جاتی رہی ہے اس لئے یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور رجسٹرار راج بھون کے حکم ناموں کی تعمیل میں کسی طرح کی لاپرواہی نہیں کرسکتے کیونکہ ایسا کرنے والے وائس چانسلروں اور رجسٹراروں پر تادیبی کارروائی راج بھون کے ذریعہ ہی کی جاتی ہے۔ لیکن حال کے دنوں میں محکمۂ تعلیم، حکومت ِ بہار کے اعلیٰ عہدہ داروں کے ذریعہ وائس چانسلروں اور رجسٹراروں کی میٹنگ طلب کی جاتی رہی ہے اس مسئلے کو لے کر راج بھون نے پہلے بھی اپنی خفگی کا اظہار کیا تھا باوجود اس کے محکمۂ تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے موجودہ پرنسپل سیکریٹری کے کے پاٹھک کے کئی حکم ناموں کو لے کرایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ واضح ہو کہ موجودہ گورنر راجندر وشوناتھ ارلیکر نے پہلے بھی محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ بارہا وائس چانسلروں کی میٹنگ طلب کرنے کو لے کر مکتو ب لکھ کر تمام وائس چانسلروں کو محکمۂ تعلیم کی میٹنگ میں شرکت نہ کرنے کی ہدایت دی تھی لہٰذا تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر گورنر موصوف کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے میٹنگ سے غیر حاضر رہے لیکن افسوسناک صورتحال یہ پیدا ہوگئی کہ پرنسپل سیکریٹری نے تمام وائس چانسلروں، رجسٹراروں اور امتحان کنٹرولر کی تنخواہ پر نہ صرف پابندی عائد کردی بلکہ ان لوگوں کے خلاف پولیس میں ایف آئی آر درج کرنے کا سرکاری مکتوب جاری کردیا ہے۔ نتیجہ ہے کہ اب محکمہ اعلیٰ تعلیم اور راج بھون کے درمیان رسہ کشی کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ وائس چانسلروں اوررجسٹراروں کی مجبوری ہے کہ وہ گورنر کے حکم ناموں کی تعمیل کو ہی اولیت دیں گے کہ وہ آئینی سربراہ کے ساتھ ساتھ تمام یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں۔ اگر راج بھون کے حکم ناموں کو نظر انداز کیا جائے گا تو یہ چانسلر موصوف کی شان کے خلاف سمجھا جائے گا اور ایسا کرنے والے یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا رجسٹرار کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ اس لئے ریاستی یونیورسٹیوں کے کوئی وائس چانسلر یا دیگر حکام راج بھون کے حکم عدولی کی جرأت نہیں کرسکتا مگر محکمہ اعلیٰ تعلیم کے پرنسپل سیکریٹری اس آئینی تقاضے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ 
بہر کیف! اب تک محکمہ اعلیٰ تعلیم کی دو میٹنگوں میں تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر وں اور رجسٹراروں شرکت سے انکار کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ بہار یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق راج بھون کے تئیں ہی ذمہ دار ہیں۔ اب محکمہ اعلیٰ تعلیم نے نئی میٹنگ کی تاریخ ۱۵؍ مارچ طے کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس میٹنگ کے متعلق راج بھون کا رویہ کیا رہتا ہے۔ قیاس یہ لگایا جا رہاہے کہ اس میٹنگ میں بھی راج بھون کی طرف سے شرکت کی شاید اجازت نہیں ملے مگر بہار کے وزیر تعلیم وجئے چودھری نے اس تنازع پر اپنا موقف ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ میٹنگ میں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور رجسٹرار وں کے ساتھ دیگر حکام بھی شامل ہوں گے کیونکہ ماضی میں بھی اس طرح کی میٹنگ میں وہ شامل ہوتے رہے ہیں۔ واضح ہو کہ وزیر تعلیم چودھری ریاست بہار کے ایک سنجیدہ لیڈر ہیں اور نتیش کمار کی وزارت میں ایک با اثر وزیر کے طورپر ان کی شناخت ہے اس لئے ممکن ہے کہ اب یہ تنازع ختم ہو۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب تک راج بھون کی طرف سے یونیورسٹی حکام کو محکمہ اعلیٰ تعلیم کی میٹنگ میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں ملتی ہے اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ بھی اپنی میٹنگ طلب کرنے کی وضاحت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق ریاستی یونیورسٹیوں کے مالیاتی اخراجات اور تعلیمی کیلنڈر کے مسئلے پر میٹنگ بلانے کا انہیں اختیار ہے۔ اس لئے وہ وائس چانسلروں اور رجسٹراروں کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً دیگر حکام کی میٹنگ طلب کرتے ہیں۔ دراصل بہار اسٹیٹ یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق وائس چانسلر کا عہدہ بہت ہی جلیل القدر ہے اور ماضی میں وائس چانسلروں کی میٹنگ محکمہ اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ طلب کرنے کی روایت نہیں رہی ہے مگر حالیہ برسوں میں اس طرح کی روش عام ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ حال کے دنوں میں یونیورسٹیوں کے وقار میں جس طرح کی پستی آئی ہے اور بیوروکریسی کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے حالات پیدا ہوئے ہیں ورنہ ایک وقت تھا کہ بہار کے وائس چانسلروں سے ملنے کے لئے وزیر اعلیٰ تک وقت لیا کرتے تھے اور اس کی مثال ریاست کی راجدھانی پٹنہ یونیورسٹی کے کئی تاریخی واقعات ہیں کہ وہاں کے وائس چانسلروں سے ملنے کیلئے وزیر اعلیٰ بھی پہلے وقت لیا کرتے تھے مگر اب وہ سب تاریخ کے اوراقِ پارینہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ 
خوش آئند بات یہ ہے کہ موجود ہ گورنر نہ صرف بہار میں تعلیمی معیار کو بلند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ یونیورسٹیوں کے تاریخی وقار کو بلند کرنے کے بھی خواہاں ہیں۔ گزشتہ ایک برس میں انہوں نے اپنے حسن کارکردگی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ریاست کی یونیورسٹیوں کے امتحانات کے سیشن کو درست کیا جائے اور بالخصوص نئی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں ریاستی یونیورسٹیوں کے نصاب کو معیاری بنایا جائے۔ واضح ہو کہ گورنر نے ریاست کی یونیورسٹیوں میں ۴؍ سالہ گریجویٹ نصاب کا نفاذ کیا ہے اور تمام یونیورسٹیوں کی سینٹ کی میٹنگ میں بہ نفس ِ نفیس شامل بھی ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک اچھا ماحول بنا ہے اس کے باوجود اگر محکمہ اعلیٰ تعلیم اور راج بھون کے حالیہ تنازع کو لے کر عوام الناس میں منفی رائے عامہ قائم ہو رہی ہے جو تعلیمی ماحول کیلئے بہتر نہیں ہے۔ اسلئے محکمہ اعلیٰ تعلیم اور راج بھون کے درمیان یہ مسئلہ جتنی جلد ختم ہو جائے وہ ریاست کے تعلیمی ماحول کو سازگار بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔ میرے خیال میں وزیر تعلیم نے جو بیان جاری کیا ہے اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ محکمہ اعلیٰ تعلیم اور راج بھون کے درمیان کسی طرح کی رسہ کشی مناسب نہیں ہے مجھے لگتا ہے کہ وزیر تعلیم کی یہ کوشش کامیاب ہوگی اور یہ رسہ کشی کا ماحول جلد ہی ختم ہوگا کہ تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے اس طرح کے تنازع باعث ِ فکر مندی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK