پیر کو بامبے ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کی چال بازی کو بھانپتے ہوئے رائٹ ٹو ایجوکشن(آر ٹی ای ) کے ترمیم شدہ ایکٹ پر روک لگا دی۔ حکومت بڑی چالاکی سے آر ٹی ای قانون کی ایک شق کو بنیاد بنا کر دوسری شق کے خلاف ایک قاعدہ بنانا چاہتی تھی۔
EPAPER
Updated: May 13, 2024, 12:21 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai
پیر کو بامبے ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کی چال بازی کو بھانپتے ہوئے رائٹ ٹو ایجوکشن(آر ٹی ای ) کے ترمیم شدہ ایکٹ پر روک لگا دی۔ حکومت بڑی چالاکی سے آر ٹی ای قانون کی ایک شق کو بنیاد بنا کر دوسری شق کے خلاف ایک قاعدہ بنانا چاہتی تھی۔
پیر کو بامبے ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کی چال بازی کو بھانپتے ہوئے رائٹ ٹو ایجوکشن(آر ٹی ای ) کے ترمیم شدہ ایکٹ پر روک لگا دی۔ حکومت بڑی چالاکی سے آر ٹی ای قانون کی ایک شق کو بنیاد بنا کر دوسری شق کے خلاف ایک قاعدہ بنانا چاہتی تھی۔ ۲۰۰۹ء میں پورے ملک میں آر ٹی ای نافذ کیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کی دو مختلف دفعات کو بلا جواز آپس میں جوڑ کر حکومت مالی طور پر کمزور طلبہ کو بہتر اور معیاری تعلیم سے محروم رکھنا چاہ رہی تھی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیم کے معاملے میں حکومتی سطح پر کتنی بے حسی پائی جاتی ہے۔ حکومت نے نجی اداروں کی فریاد تو سن لی مگر ۲۵؍ فیصد ریزرویشن کی وجہ سے جو بچے پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیمی سہولت حاصل کرسکتے ہیں، ان کے بارے میں نہیں سوچا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اس فیصلے پر مراٹھی اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔
لوک ستہ(۸؍مئی )
اخبار اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ ’’ہمارے ملک میں رائٹ ٹو ایجوکشن ( آر ٹی ای)کو نافذ ہوئے ۱۵؍ سال ہوچکے ہیں۔ اگرچہ تعلیم ایک بنیادی حق ہے تاہم اس کے نفاذ کیلئے قانون بنانا پڑالیکن جب سے یہ قانون نافذ ہوا ہے، اس پر ایمانداری سے عمل در آمد کے بجائے اس کی دفعات اور قوانین میں ترمیم کرنے کی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش ریاستی حکومت نے فروری میں آر ٹی ای ایکٹ میں تبدیلی کے ضمن میں کی تھی جس پر بامبے ہائی کورٹ نے روک لگا دی ہے۔ آر ٹی ای کے تحت تمام اسکولوں میں ۲۵؍ فیصد نشستیں پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچوں کیلئے مختص رکھنا لازمی ہے۔ ان بچوں کو مفت میں داخلہ اور فیس میں مکمل چھوٹ ہے۔ ریاستی حکومت پر ان بچوں کی فیس ادا کرنے کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی حکومت نے فروری میں ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے آر ٹی ای ایکٹ میں کچھ تبدیلی کی تھی۔ اس کے تحت سرکاری اسکول کی موجودگی اور اس کے ایک کلومیٹر کے دائرے میں واقع پرائیویٹ غیر امدادی اسکولوں کو ۲۵؍ فیصد مخصوص نشستوں پر پسماندہ طبقات کے بچوں کو داخلہ دینے کی شرط سے مستثنیٰ کردیا تھا۔ آسان الفاظ میں حکومت نے تمام نجی اسکولوں کو ۲۵؍ فیصد کوٹے سےآزاد کردیا تھا۔ اس قانون میں تبدیلی کے ساتھ معاشی طور پر کمزور طلبہ کیلئے نجی اسکولوں کے دروازے بند کردیئے گئے تھے۔ جب یہ معاملہ ہائی کورٹ پہنچا تو اس ترمیم پر اگلے احکامات جاری ہونے تک روک لگا دی گئی۔ اگلی شنوائی ۱۲؍ جون کو ہوگی۔ اُس وقت کیا فیصلہ آتا ہے یہ وقت بتائے گا مگر آج کی تاریخ میں اس فیصلے کا بہرحال خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: این ڈی اے کا اُمیدوار پرجول ریونا بی جے پی کو منجدھار میں چھوڑ کرجرمنی فرار ہوگیا
پُنیہ نگری(۸؍مئی)
اخبار نےاداریہ لکھا ہے کہ’’ ملک میں حق تعلیم کا قانون اس بات کو یقینی بنانے کیلئے نافذ کیا گیا تھا کہ ۶؍ سے ۱۴؍ سال کی عمر کا کوئی بھی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔ اگلے سال اپریل میں اس قانون کو ۱۵؍ سال مکمل ہوجائیں گے۔ اس ایکٹ کی رو سے ہر اہل بچےکو پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک مفت تعلیم کا حق حاصل ہے۔ بچوں کے تعلیمی حقوق کو یقینی بنانے کی ذمہ داری فطری طور پر نظام تعلیم پر عائد ہوتی ہے۔ ہندوستان کے ہر بچے کو اسکول جانے کا حق حاصل ہے۔ یہ ایکٹ پسماندہ طبقات کے غریب طلبہ کو کسی بھی پرائیویٹ اسکول میں مفت داخلہ لینا کا پابند بناتا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ غریب طلبہ کو مفت تعلیم حاصل ہوں اور دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کریں۔ اس ایکٹ کے مسودے سے پہلے کئے گئے سروے میں اُس وقت ملک میں ۸؍ کروڑ ۸۰ ؍لاکھ بچے تعلیم سے محروم تھے دوسری جانب ملک بھر میں ۵؍ لاکھ اساتذہ کا فقدان تھا۔ اس چونکا دینے والے نتائج کی وجہ سے رائٹ ٹو ایجوکیشن کو فوری طور پر نافذ کیا گیا۔ پچھلے ۱۵؍برسوں میں مہاراشٹر میں حق تعلیم ایکٹ پر نظر دوڑائیں تو بہت کچھ واضح ہوجاتا ہے۔ ریاستی محکمہ تعلیم نے فروری میں ایک سرکیولر جاری کیا جس کے تحت پسماندہ طبقات کیلئے مخصوص ۲۵؍ فیصد نشستوں پر درخواست دینے والے طلبہ کو ایک کلو میٹر کے دائرے میں موجود سرکاری اور امداد یافتہ اسکولوں میں ہی داخلہ دیا جائے گا۔ اگر ایک کلومیٹر کے دائرے میں سرکاری یا امداد یافتہ اسکول نہیں ہوگا تو اس صورت میں طلبہ پرائیویٹ اسکول میں داخلہ لینے کے مجاز ہوں گے۔ اس سرکیولر کا مقصد پسماندہ طبقات کے غریب طلبہ کیلئے پرائیویٹ اسکولوں کےدروازوں کو ہمیشہ کیلئے بند کرنا تھالیکن بامبے ہائی کورٹ نے غریب طلبہ کو راحت فراہم کرتے ہوئے ترمیم شدہ ایکٹ پر روک لگادی ہے۔ اس فیصلے سے پسماندہ طبقات میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ‘‘
مہاراشٹر ٹائمز(۸؍مئی )
اخبار لکھتا ہے کہ’’بامبے ہائی کورٹ نے سرکاری یا امداد یافتہ اسکولوں کے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع نجی اسکولوں میں حق تعلیم کے قانون کے تحت داخلہ نہ دینے کے ریاستی حکومت کے فیصلے پر روک لگا دی ہے جس سے ان لاکھوں والدین کی امیدیں بڑھ گئی ہیں جو اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخلہ دلانے کے خواہش مند ہیں۔ حالانکہ پرائیویٹ اسکولوں میں معاشی طور پر کمزور طبقات کیلئے ۲۵؍ فیصدنشستیں ریزرو ہیں۔ ریاستی حکومت کا فیصلہ رائٹ ٹو ایجوکشن کے کھلی خلاف ورزی کے ذیل میں آتا ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم امتناعی سے ریاستی حکومت کی کوششوں کو وقتی طور پر روک لگی ہے کیونکہ یہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ ایسا کرنے سے سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی تعداد بڑھ جائے گی۔ اگر سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی تعداد کو بڑھانا ہے تو انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے سے لے کر ان کے معیار کو بہتر بنانا ہوگا اور اساتذہ پر غیر تعلیمی کاموں کا بوجھ کم کرنا ہوگا تاکہ وہ اسکولوں میں رہ کر تدریس کے فرائض ٹھیک سے انجام دے سکیں۔ دراصل سرکاری اسکول یا امدادی اسکول میں داخلے کی شرط کا مقصد معاشی ہے۔ آر ٹی ای کے مطابق نجی اسکولوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کی فیس حکومت ادا کرے گی۔ اس فیصلے کے ذریعہ حکومت اس ’بوجھ‘ سے بچنا چاہتی تھی۔ ‘‘