Inquilab Logo

معاشیانہ: ہندوستانی معیشت، کارپوریٹ سیکٹر اور روزگار کے متلاشی نوجوان

Updated: January 16, 2023, 3:43 PM IST | Shahebaz khan | Mumbai

سال بہ سال ہندوستانی معیشت وسیع ہورہی ہے۔ گزشتہ سال ہماری معیشت نے ۳ء۸؍ کھرب ڈالر کا ہندسہ پار کرلیا۔ تاہم، دنیا کی بڑی معیشتوں کی فہرست میں ہمارا ملک آج بھی چھٹے نمبر پر ہے

Currently, 28 crore 20 lakh people are unemployed in the country
اس وقت ملک میں ۲۸؍ کروڑ ۲۰؍ لاکھ افراد بے روزگار ہیں

سال بہ سال ہندوستانی معیشت وسیع ہورہی ہے۔ گزشتہ سال ہماری معیشت نے ۳ء۸؍ کھرب ڈالر کا ہندسہ پار کرلیا۔ تاہم، دنیا کی بڑی معیشتوں کی فہرست میں ہمارا ملک آج بھی چھٹے نمبر پر ہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے وسائل بھی ہیں اور صلاحیتیں بھی۔
 اسٹاک اینالسس کی اپریل ۲۰۲۲ء کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ۴۲۱؍ کمپنیوں کی مالیت ایک بلین ڈالر (۱۰۰؍ کروڑ روپے) سے زیادہ ہے۔ ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈ کی مالیت ۲۲۵؍ بلین ڈالر سے زائد ہے۔ ٹی سی ایس یعنی ٹاٹا کنسلٹنسی سروسیز (۱۹۰؍ بلین ڈالر)، ایچ ڈی ایف سی (۱۱۲؍ بلین ڈالر) اور انفوسس (۱۰۳؍ بلین ڈالر)ایسی کمپنیاں ہیں جن کی مالیت ۱۰۰؍ بلین ڈالر سے زیادہ ہے۔۴۲۱؍ کمپنیوں کے مجموعی سرمائے کو اگر جمع کردیا جائے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہندوستانی کمپنیاں، کارپوریٹ سیکٹر اور معیشت کس قدر مستحکم ہے، اور یہ تمام مزید استحکام کی راہ پر گامزن ہیں۔ ملک کی کم و بیش ۵۸؍ فیصد آبادی ملازمت (وہائٹ کالر یا بلیو کالر) کرتی ہے۔ اگر ۴۲؍ فیصد میں سے بچوں اور نوجوانوں (۱۸؍ سال سے کم) ، طلبہ، گھریلو خواتین اور معمر شہریوں کو خارج کردیا جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ۲۲؍ فیصد آبادی ایسی ہوگی جو افرادی قوت کا حصہ نہیں ہے۔ اس طرح ۲۰؍ فیصد آبادی ایسی ہے جو بے روزگار ہے اور اس آبادی میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اگر ہندوستان کی آبادی ۱۴۱؍ کروڑ افراد پر مشتمل ہے تو اس کا ۲۰؍ فیصد یعنی ۲۸؍ کروڑ ۲۰؍ لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔ ایسے میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا ان میں صلاحیت نہیں ہے؟ کیا یہ غیر تعلیم یافتہ ہیں؟ کیا انہیں روزگار کی تلاش نہیں ہے؟ کیا روبوٹکس اور آرٹی فیشیل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) نے ان کی جگہ لے لی ہے؟ کیا کمپنیوں کو باصلاحیت افراد کی ضرورت نہیں ہے؟ یا کمپنیاں ’’ہائرنگ‘‘ کا اشتہار نہیں دیتیں؟ 
 متعدد رپورٹس اور ’پروفیشنل ‘سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کا جائزہ لیا جائے تو گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں ملازمتوں کے نئے در کھلے ہیں۔ روایتی عہدوں کی تعداد میں کمی آئی ہے لیکن یہ اب بھی وقت کی ضرورت ہیں۔ لنکڈاِن، نوکری ڈاٹ کام، شائن، اور ملازمت فراہم کرنے والی ایسی بے شمار ویب سائٹس اور گروپس پر ’ہائرنگ‘ کے روزانہ درجن بھر اشتہارات جاری ہوتے ہیں۔ چیئرمین اور سی ای او کے عہدوں سے لے کر ماڈلنگ اور بلیو کالر جاب تک کے کئی پوسٹ آپ کی نظروں سے گزرتے ہوں گے لیکن ان میں سے بیشتر ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ کا پروفائل میل نہیں کھاتا۔ اکثر انٹرویو کیلئے مدعو کیا جاتا ہے لیکن ہائر نہیں کیا جاتا۔ ان حالات کے پیش نظر سمجھ نہیں آتا کہ مسئلہ کیا اور کہاں ہے؟
 مسائل یہ ہیں کہ جاب مارکیٹ میں تجربہ کار لوگوں کی کمی ہے۔ فریشرز کو جب کام ہی نہیں ملے گا تو ان کے پاس کام کا تجربہ کیسے ہوگا؟ ایسی کمپنیوں کی تعداد کم ہے جو فریشرز کو نہ صرف موقع دیتی ہیں بلکہ ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کی بناء پر انہیں پروموٹ بھی کرتی ہیں۔ اگر کمپنی نے کسی نوجوان کا انٹرویو لیا ہے ، اور نوجوان اس کام کیلئے مناسب نہیں ہے تو اسے ’ریجیکٹ‘ کرنے کے بجائے کیا کمپنیاں یہ نہیں بتاسکتیں کہ اس میں کیا خامی یا کمی ہے تاکہ وہ اپنی خامیوں اور کمیوں کو دور کرکے آئندہ انٹرویو کیلئے اپنے آپ کو بہتر طریقے سے تیار کرسکے؟ جب تک اسے اپنی کمیوں کا اندازہ نہیں ہوگا، وہ ملازمت کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتا پھرے گا۔امیدواروں کو ریجیکٹ کرنے والی کمپنیوں کو چاہئے کہ وہ انہیں ان کی خامیوں سے آگاہ کریں تاکہ وہ اپنے اندر وہ صلاحیتیں پیدا کرسکیں جن کی ان میں کمی ہے۔ اس طرح ممکن ہے کہ وہ آئندہ انٹرویو میں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرلیں۔ کیا کمپنیاں اس اصول پر عمل کرسکیں گی؟ کیا نشاندہی ہوجانے پر ملازمت کا متلاشی اپنی کمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گا؟
 کساد بازاری کے اس دور میں کمپنیاں فریشرز کو کام دینے سے کترا رہی ہیں لیکن ۲۰۱۲ء ہی سے ہندوستان کے کارپوریٹ سیکٹر کا یہی حال ہے، حالانکہ اس دوران باصلاحیت نوجوانوں کو ملازمتیں بھی ملیں۔ تاہم، کورونا بحران کے بعد سے فریشرز کو ملازمت کے بہتر مواقع نہیں مل رہے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی جون ۲۰۲۲ء کی ایک رپورٹ کہتی ہے کہ ایسے نوجوانوں کو ملازمت تلاش کرنے کیلئے متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جنہوں نے ۲۰۲۰ء اور ۲۰۲۱ء میں اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج کا نوجوان ’شارٹ کٹ‘ تلاش کرنے لگا ہے۔ اسے کم وقت میں لاکھوں روپے چاہئے جسے حاصل کرنے کیلئے وہ ’شارٹ کٹ‘ طریقہ اپنانے سے گریز بھی نہیں کرتا۔ ڈجیٹل دور نے نوجوانوں کو ملازمت کا ایک نیا ذریعہ دیا لیکن انہوں نے اس کا درست استعمال کرنے کے بجائے اس پر وقت گزاری کو بہتر جانا۔یعنی ایسے نوجوانوں کی تعداد بڑھ گئی جو ’پازیٹیوکریئٹر‘ بننے کے بجائے ’پازیٹیو کنزیومر‘ بن گئے۔ ڈجیٹل اور نئے آئیڈیاز کے دور میں اس شخص (پھر چاہے وہ فریشر ہی کیوں نہ ہو) کو پرکشش ملازمت کی پیشکش کی جارہی ہے جو باصلاحیت ہو، تخلیقی ذہن کا حامل ہو اور کسی کمپنی میں شامل ہوکر اسے مستحکم کرنے میں اپنی خدمات پیش کرسکے۔ ایسی بے شمار مثالیں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہتی ہیں کہ کس طرح ایک نوجوان نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے سبب کمپنیوں کے مالکان کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ 
  ابتدائی سطروں میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستانی معیشت اور کمپنیاں استحکام کی جانب گامزن ہیں۔ بدلتے دور کے تقاضوں کے سبب کمپنیوں کو ہنر مند اور باصلاحیت نوجوانوں کی تلاش ہمیشہ رہتی ہے، اس لئے نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی دیگر صلاحیتوں کو بھی نکھاریں تاکہ جب وہ کسی کمپنی کا حصہ بنیں تو انہیں ’’صفر‘‘ سے آغاز نہ کرنا پڑے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ڈجیٹل مارکیٹنگ میں کریئر بنانے کے خواہشمند ہیں تو اس کے بارے میں تفصیلی معلومات نیز عملی زندگی میں اس کا اطلاق کیسے ہوتا، اس کے متعلق علم ہوناہی چاہئے۔ ایک کمپنی آپ سے اتنی توقع ضرور رکھتی ہے اسلئے وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے آپ کو کارآمد اور باصلاحیت بنانے کی کوشش کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK