Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’صورتحال، بہرحال، یہی ہے فی الحال‘‘

Updated: June 09, 2025, 2:05 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai

حالات بدل کر بھی نہیں بدلتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان بہت سی تبدیلیوں کو قبول نہیں کر پاتا یا قبول کرنا نہیں چاہتا مگر بعض تبدیلیاں اس کے اختیار کے باہر ہوتی ہیں۔ دانشمندی یہ ہے کہ انسان مثبت تبدیلیوں کو قبول کرے اور منفی تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت سے منہ نہ موڑے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ان تینوں  الفاظ میں  حال مشترک ہے۔ پہلے لفظ کی آواز دوسرے لفظ سے اور دوسرے لفظ کی آواز تیسرے لفظ سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ تینوں  کو حال نے بے حال کر رکھا ہے۔ حال کی زندگی کا بنتا اور بگڑتا ہوا نقشہ دراصل حال کا سچ ہے۔ اگر سب سے بڑی سچائی موجودہ وقت ہے تو اس کے بارے میں  ہمارا رویہ بھی اتنا ہی سچا ہونا چاہیے۔ حال کی سیاست ماضی کو جب غلط صورت میں  پیش کرتی ہے تو ایک معنی میں  ماضی کا سچ حال کا جھوٹ بن جاتا ہے۔ اس جھوٹ کا مقابلہ بہت آسان نہیں  ہے۔حال میں  اتنی طاقت ہے کہ وہ گزرے ہوئے وقت کو اپنے مطابق کر لیتا ہے۔ عام آدمی بھی اس جھوٹ سے بھرے ہوئے اس سچ کو دیکھتا، سنتا اور پڑھتا ہے۔ یہ ایک ایسی بے بسی ہے جو دھیرے دھیرے زندگی کی عام ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
 حقیقت کی بگڑی ہوئی صورت کے بارے میں  چاہے جتنی گفتگو کر لی جائے فوری طور پر اس کی اصل صورت کا سامنے آنا بہت دشوار ہے۔ کبھی اصل صورت کی کوئی جھلک دکھائی دیتی ہے اور پھر روپوش ہو جاتی ہے۔ لفظ اور زبان کو بطور طاقت دیکھنے کا تجربہ ہمارے وقت کا سب سے بڑا سچ ہے۔ زبان میں  طاقت اور جسارت تہذیبی زندگی کی سچائی سے کبھی آتی تھی، اب نہیں ۔ جسارت اور ڈھٹائی میں  بہت فرق ہے۔ جھوٹ سے بھرے ہوئے سچ کا مقابلہ کس زبان اور کس ذہن کے ساتھ کیا جائے، اس سوال پر غور کرتے ہوئے کبھی کبھی حوصلہ ٹوٹنے لگتا ہے۔ نظریہ اپنے ساتھ ایسے چند الفاظ کو بھی لاتا ہے جنہیں  سیاست معنوی اعتبار سے نہ صرف رسوا کرتی ہے بلکہ بیچے چہرہ بنا دیتی ہے۔ یہ الفاظ فکر و خیال کے طویل سلسلے اور سفر سے کٹ کر مفلس بن جاتے ہیں ۔ نظریہ انہی الفاظ کی مدد سے اپنے مخالفین کو گرفتار کرتا ہے۔ یہ الفاظ زنجیر بن گئے ہیں ۔ ان لفظوں  کی تفہیم اور تعبیر کے عمل میں  بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اس کے باوجود بولنے والا گرفتار ہو جاتا ہے تو یہ بھی ایک مشکل صورتحال ہے جو یہ بتاتی ہے کہ اس کا مقابلہ فکر و خیال کی گہری سطح سے ممکن نہیں ۔ ایک دو لفظ مل کر کس طرح تہذیبی زندگی کو متاثر کرتے ہیں  اس کی مثالیں  تاریخ میں  بھی موجود ہیں ۔ ماضی کی صورت کو بگاڑے بغیر کیا حال کا چہرہ روشن نہیں  ہو سکتا؟ ماضی کی صورت وہ حالت اور کیفیت ہے کہ اسے سمجھنے کے لیے خود کو ماضی کا آدمی بنانا پڑتا ہے مگر جو آدمی اپنے حال کے ساتھ ماضی کی طرف جاتا ہے وہ کچھ نہ کچھ حال کو ماضی کے ساتھ ملا دیتا ہے یا ماضی حال میں  داخل ہو جاتا ہے۔ موجودہ وقت کے ساتھ ہمارا سچا رشتہ کس طرح اور کیوں  کر قائم ہو سکتا ہے یہ وہ سوال ہے جس پر پہلے بھی غور کیا گیا مگر اب اس کی ضرورت زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ محسوس کرنے والوں  کی تعداد کم ہی سہی اس سوال پر غور کرتے ہوئے عام طور پر الزام کسی اور پر آتا ہے۔ صورتحال کو دیکھتے،پڑھتے اور سنتے ہوئے ہر حساس آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ ماضی اب ہمارے حال کا بہت ساتھ نہیں  دے سکتا۔
 جیسا کہ میں  نے عرض کیا، ماضی خود ہی حال سے حال کی شرطوں  کے ساتھ رشتہ استوار کر لیتا ہے۔ گزرا ہوا وقت کیا واقعی کسی صورت واپس نہیں  آسکتا؟ کہا تو یہی جائے گا کہ گزرے ہوئے وقت کی واپسی ممکن نہیں  مگر ایک حال ہے جو اسے کھینچ لاتا ہے اور گزرا ہوا وقت اپنے دامن میں  کچھ ایسے حقائق بھی رکھتا ہے جن پر گزرے ہوئے وقت کی گرد اتنی نہیں  پڑی کہ وہ مستقل طور پر چھپ جائے۔ کبھی حال کا جھونکا ماضی پر پڑے اس غبار کو ہٹا دیتا ہے۔ ماضی کا غبار جب حال بن جائے تو سمجھیے کہ زندگی کی کچھ سچائیاں  تو یوں  ہی وقت کے ساتھ سفر کرتی رہتی ہیں ۔ کبھی حالات بہت دیر سے تبدیل ہوتے تھے۔اس کے پیچھے وقت کی کوئی رفتار تھی یا وقت کا کوئی ایسا شعور تھا جس میں  وقت کے گزرنے اور صورتحال کی تبدیلی کا احساس دیر سے ہوتا تھا۔ گویا حالات اپنے وقت پر تبدیل ہوتے ہیں ، اور ہم تبدیلیوں  کو بہت تاخیر کے ساتھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں ۔ دیکھتے دیکھتے ایک زمانہ بدل گیا۔ اسے زمانے کا ختم ہونا بھی کہا جا سکتا ہے مگر حالات جتنی تیزی سے تبدیل ہوئے ہیں  ہماری عام زندگی ان تبدیلیوں  کے ساتھ ہونے کے باوجود بڑی حد تک سست روی کی شکار ہے۔ سست روی کبھی نعمت معلوم ہوتی ہے کہ جیسے ہنگامی صورتحال میں  تنہائی کا گوشہ مل جائے۔
 ان باتوں  کا خیال آج اس لیے آیا کہ ایک شخص کہنے لگا یہاں  اب ہر طرف روشنی ہے، سڑکیں  پہلے سے بہتر ہو گئی ہیں ، کچھ روزگار کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، اس کے بعد وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا مگر اسے محسوس ہوا کہ جیسے وہ کچھ کہے گا تو گرفت میں  آجائے گا۔ یہ شخص اپنے حال کے ساتھ ہے اور اس حال کے ساتھ بھی جو اب اس کا ماضی یا گزرا ہوا وقت ہے، اس کی عمر کے لوگ ذہنی اور عملی طور پر تبدیل ہو گئے ہیں ۔ اسے بھی تبدیل ہو جانا چاہیے تھا مگر وہ کہتا ہے کہ جتنا سمے بچا ہوا ہے اور جو میرا سمے ہے اس کو میں  اسی طرح گزارنا چاہتا ہوں ۔ یہ دنیا دیکھتے دیکھتے اتنی تبدیل نہیں  ہوئی جتنی کہ دکھائی دیتی ہے۔ پھر بھی تبدیلی ہماری ضرورت ہے۔ وقت روند کر آگے بڑھ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے : دھڑکنیں سو گئیں، راہ خاموش ہے، شہر ویراں ہوئے

 کلدیپ نیر نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں  ایک تقریر کی تھی۔ اس موقع پر میں  موجود تھا۔ انہوں  نے ایک صحافی اور دانشور کی حیثیت سے جس بے بسی کا اظہار کیا تھا، اس کا سفر ابھی ختم نہیں  ہوا ہے۔ انہوں  نے کہا تھا کہ میں  کم وبیش ۵۰؍ سال سے لکھ رہا ہوں  مگر حالات تبدیل نہیں  ہوئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں  کہ مجھے سوچنا اور لکھنا بند کر دینا چاہیے۔ کلدیپ نیر کے یہ الفاظ میرے ذہن پر نقش ہیں ۔’’حالات تبدیل نہیں  ہوئے‘‘ سے ان کی مراد یہ تھی کہ ہم لوگوں  نے جو خواب دیکھا تھا اور اپنی دنیا کو جیسی بنانا چاہتے تھے نہیں  بنا سکے۔ سیاست جو ایک معنی میں  اب صرف طاقت بنتی جا رہی ہے اس کے سامنے فکری باتیں  بے وقت راگنی معلوم ہوتی ہیں ۔ کل ایک عام آدمی نے اپنے آس پاس کی چمک دمک کو دیکھ کر جو کچھ کہا تھا اور جو بات کلدیپ نیر صاحب نے کہی تھی، بظاہر دونوں  کے درمیان کوئی رشتہ نہیں  ہے مگر ایک رشتہ تو ہے۔ حالات کی تبدیلی رویے کی تبدیلی ہے۔ ہم زندگی اور زمانے کے بارے میں  کس طرح سوچتے ہیں ، اس میں  مٹی کی بو باس کے ساتھ انسانی جذبات اور احساسات کی سچائی کے لیے کتنی گنجائش ہے۔
  کلیم عاجز کا شعر ہے:
صورتحال، بہرحال یہی ہے فی الحال
تم کو کرنا ہے ستم، ہم کو ستم سہنا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK