• Thu, 04 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

یوم معذور آیا اور چلا گیا!

Updated: December 04, 2025, 8:29 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai

گزرا ہوا کل ( ۳؍ دسمبر) اس اعتبار سے اہم تھا کہ اسے عالمی سطح پر یوم معذوراں کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اِس دن کی خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ جگہ جگہ معذوروں کے تعلق سے سمینار ہوں، اُن سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے، اُن کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل کی جائے، اُن کی کامیابیوں اور حصولیابیوں کا تذکرہ کیا جائے۔

Handicap Day.Photo:INN
یوم معذور۔تصویر:آئی این این
گزرا ہوا کل ( ۳؍ دسمبر) اس اعتبار سے اہم تھا کہ اسے عالمی سطح پر یوم معذوراں کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اِس دن کی خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ جگہ جگہ معذوروں کے تعلق سے سمینار ہوں، اُن سے ملاقات کا اہتمام کیا جائے، اُن کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل کی جائے، اُن کی کامیابیوں اور حصولیابیوں کا تذکرہ کیا جائے، اُن کے کارناموں کو اُجاگر کیا جائے اُن کیلئے سوچا جائے اور اُن کیلئے کچھ کیا جائے۔ ’’کچھ کیا جائے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ حکومت پر تکیہ کرنے کے بجائے یہ عزم کیا جائے کہ ہم ذاتی اور انفرادی طور پر کیا کرسکتے ہیں، کتنا کرسکتے ہیں اور کیا یہ ممکن ہے کہ اُن کیلئے جاری کسی مشن اور کسی تعمیری سرگرمی کا حصہ بن جائیں؟
معذوروں کے تئیں سماج کے افراد کا جائزہ لیا جائے تو عموماً دو قسم کے لوگ ملتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ معذوروں پر ترس کھاتے ہیں اور کچھ لوگ کسی معذور کو مشکل میں دیکھ کر اس کی مدد کیلئے دوڑتے ہیں۔ اگر اس کی مشکل دکھائی دینے والی نہ ہو تو یہ لوگ بھی حرکت میں نہیں آتے۔ باقی سب یعنی سماج کا بہت بڑا طبقہ معذور افرادکے مسائل سے دور دور ہی رہتا ہے۔ اس کی وجہ بے حسی نہیں مگر احساس مندی بھی نہیں ہے۔ غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ اصل وجہ خود پسندی ہے جس کے سبب اپنے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی، اصل وجہ لاتعلقی ہے جس کے سبب انسان اتنا مصروف رہتا ہے کہ اُسے کسی اور کے مسائل کا کبھی خیال نہیں آتا اور اصل وجہ یہ احساس ہے کہ معذوروں کی فلاح کیلئے حکومت اور غیر سرکاری ادارے کافی ہیں، حکومت اُن کیلئے خصوصی اسکیمیں جاری کرتی ہے اور غیر سرکاری ادارے اُن کیلئے مختلف پروگرام چلاتے ہیں۔ 
مسلم معاشرہ میں معذوروں کی بہی خواہی کا معنی اتنا محدود ہوگیا ہے کہ لوگ باگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد کے باہر بیٹھے ہوئے گداگروں میں جو ہاتھ پیر یا بصارت سے محروم ہیں اُن کی مدد کرنی چاہئے، خیرات کے اولین حقدار وہی ہیں۔ ایسے افراد کی مدد کا جذبہ لائق تحسین ضرور ہے مگر اتنا محدود ہے کہ اس سے اُن معذور گداگروں کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا جو دس پانچ روپوں کیلئے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ 
ہونا یہ چاہئے کہ ایسے افراد کیلئے حکومت کی منظوری کے ساتھ ایسے مراکز قائم کئے جائیں جہاں اُن کی بازآبادکاری کا انتظام ہو۔ معذورافراد کی اکثریت ایسی ہے جو خوددار ہے۔ وہ بھیک نہیں لینا چاہتے بلکہ محنت کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں بھی اُن کیلئے ہنر سیکھنے اور کچھ نہ کچھ کمانے کا نظم کیا گیا ہے وہاں وہاں اُن کی کارکردگی حیرت میں ڈالنے والی ہوتی ہے۔ 
معاشرہ اور سماج کو معذوروں کے تئیں اپنا طرز عمل اور اس سے پہلے طرز فکر بدلنا چاہئے۔ کسی ایک معذوری کو اُن کے پورے وجود کی معذوری نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ قدرت کسی ایک صلاحیت سے محروم کرکے کئی دوسری صلاحیتوں میں اضافہ کردیتی ہے چنانچہ (مثال) جو شخص ایک ہاتھ سے معذور ہے اس کا دوسرا ہاتھ کافی طاقتور ہوتا ہے اور جو بصارت سے محروم ہے اس کی دماغی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ یہی قدرت کا نظام ہے۔ اس لئے معذور پر ترس کھانے کے بجائے کوشش ہونی چاہئے کہ اُس کی غیرت اور خودی پر ضرب نہ لگے۔ اُسے اپنی مدد آپ کے قابل بنا دینا سب سے بڑی مدد ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK