پہلا نوبیل انعام ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۱ء کو دیا گیا تھا۔ اُس و قت تھیوڈور روزویلٹ امریکہ کے (۲۶؍ویں ) صدر تھے، مگر روزویلٹ سے لے کر پیش رو سربراہ جو بائیڈن تک کوئی امریکی صدر ایسا نہیں ہوا جس نے نوبیل انعام حاصل کرنے کیلئے اتنی بے تابی کا مظاہرہ کیا ہو جتنا ٹرمپ کررہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این
پہلا نوبیل انعام ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۱ء کو دیا گیا تھا۔ اُس و قت تھیوڈور روزویلٹ امریکہ کے (۲۶؍ویں ) صدر تھے، مگر روزویلٹ سے لے کر پیش رو سربراہ جو بائیڈن تک کوئی امریکی صدر ایسا نہیں ہوا جس نے نوبیل انعام حاصل کرنے کیلئے اتنی بے تابی کا مظاہرہ کیا ہو جتنا ٹرمپ کررہے ہیں۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا اور ایک بار نہیں کم و بیش چودہ مرتبہ دعویٰ کیا کہ ہند پاک جنگ اُنہوں نے رُکوائی۔ ایران اسرائیل جنگ بندی کا اعلان بھی اُنہی کے پیغام کے ذریعہ ہوا تاکہ وہ اس کا بھی کریڈٹ لے سکیں۔ اس کے باوجود دو جنگیں اب بھی باقی ہیں جو ٹرمپ نہیں رُکوا سکے ہیں۔ ایک ہے یوکرین روس جنگ اور دوسری غزہ اِسرائیل جنگ۔ جب تک وہ اِن دو جنگوں کو نہیں رُکواتے نوبیل اُنہیں کیسے مل سکتا ہے؟
قارئین جانتے ہیں کہ پاکستان اُن کے نام کی سفارش کرچکا ہے۔ ری پبلکن قانون ساز بڈی کارٹر نے بھی ایران اسرائیل جنگ رُکوانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کیلئے ٹرمپ کی ستائش کرتے ہوئے نوبیل انعام کمیٹی سے اُن کے نام کی سفارش کی ہے۔ خود ٹرمپ بھی بہ اندازِ دِگر اپنے نام پر مہر لگانے کی کوشش کرچکے ہیں جب اُنہوں نے کانگو۔ روانڈا، سربیا۔ کوسوو اَور مصر۔ ایتھوپیا کے درمیان امن بحال کروانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا: ’’مگر مجھے اس کیلئے امن کا نوبیل انعام نہیں دیا جائیگا، وہ (انعام کمیٹی والے) ایران اسرائیل جنگ رُکوانے اور یوکرین روس کے درمیان صلح کی میری کوششوں کو کبھی اہمیت نہیں دینگے‘‘ یہاں ’’نہیں دینگے‘‘ میں اصرار پوشیدہ ہے کہ ’’مجھے دیجئے، مَیں اس کا سچا اور پکا حقدار ہوں، کسی بھی دوسرے حقدار سے زیادہ۔ ‘‘ کیا یہ نوبیل انعام کمیٹی پر دباؤ ڈالنا نہیں ہے؟
یہ بھی پڑھئے:ایک ٹویٹ .... اور جنگ بند؟
اس میں شک نہیں کہ اُنہیں یہ ایوارڈ، جو دُنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ تسلیم کیا جاتا ہے، مل سکتا ہے بلکہ اس امکان کو خارج نہیں کیا جاسکتا کہ مل جائیگا مگر وہ تب ہی اس کے حقدار کہلائیں گے جب وہ غزہ کے خلاف اسرائیلی تشدد اور نسلی تطہیر کے جنون کو روکیں گے اور یوکرین روس کو ایک دوسرے کے خلاف کارروائی موقوف کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کیلئے مجبور کرینگے۔ اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ ٹرمپ یوکرین روس کو ختم کروانے میں تو دلچسپی دکھا رہے ہیں مگر غزہ کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کو روکنے میں اُن کی دلچسپی صفر ہے جبکہ نہتے اہل غزہ پر اسرائیل روزانہ بمباری کررہا ہے اور کوئی دن نہیں جاتا جب کچھ لوگ شہید نہ ہوتے ہوں۔ کون نہیں جانتا کہ اب تک غزہ کے ۵۵؍ ہزار سے زائد شہری جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ یہی نہیں ہزاروں افراد غزہ چھوڑ چکے ہیں اور جو لوگ وہاں ہیں اُن کیلئے ایک ایک دن قیامت ثابت ہورہا ہے۔ کیا ٹرمپ کو اہل غزہ کی آہ و فغاں سنائی نہیں دیتی؟ یا، اُن کے سامنے امن کا کوئی دوسرا معیار ہے؟ اگر اُنہیں نوبیل انعام برائے امن دیا گیا تو کیا امن کے دوہرے معیار کیلئے دیا جائیگا؟
ٹرمپ کو چاہئے کہ غزہ میں اسرائیل کی شیطنت کو رُکوائیں، ہرجانہ کے طور پر نیتن یاہو کی حکومت ہی سے غزہ کی تعمیر نو کا مکمل خرچ وصول کریں اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں غزہ کی تعمیر نو معینہ وقت میں کروائیں۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کو حد میں رہنے کیلئے کہیں جو اپنے دفاع کے نام پر پڑوسی ملکوں کا امن و سکون برباد کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ اگر ٹرمپ نے مذکورہ دو جنگیں نہیں رُکوائیں تو نوبیل انعام مل جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انعام اُن کا منہ چڑاتا رہے گا۔