منگل کو گجرات کی راجدھانی گاندھی نگر میں روڈ شو کےموقع پر وزیر اعظم مودی نے ملک کے ایک سو چالیس کروڑ شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ غیر ملکی اشیاء کا استعمال ترک کردیں۔
EPAPER
Updated: May 29, 2025, 2:01 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
منگل کو گجرات کی راجدھانی گاندھی نگر میں روڈ شو کےموقع پر وزیر اعظم مودی نے ملک کے ایک سو چالیس کروڑ شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ غیر ملکی اشیاء کا استعمال ترک کردیں۔
منگل کو گجرات کی راجدھانی گاندھی نگر میں روڈ شو کےموقع پر وزیر اعظم مودی نے ملک کے ایک سو چالیس کروڑ شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ غیر ملکی اشیاء کا استعمال ترک کردیں۔ ہرچند کہ یہ بات تمام غیر ملکی اشیاء کے بارے میں کہی گئی مگر زیادہ اصرار چینی مصنوعات پر تھا جس کا اشارہ چین کا نام لئے بغیر اُن کی تقریر میں موجودہ ہے۔ یہ اچھا مشورہ ہے۔ ہندوستان کو ’’آتم نربھر‘‘ جیسےنعروں سے بالاتر ہوکر خود انحصاری کو دل و جان سے قبول کرنا چاہئے تب ہی حقیقی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ قابل عمل ہے؟ بالخصوص ایسے دَور میں جب دُنیا گاؤں بن گئی ہے اور تمام ممالک ایک دوسرے سے اتنے مربوط ہیں کہ چاہیں بھی تو دوسروں پر اپنے دروازے بند نہیں کرسکتے۔
موجودہ دَور میں معاشی استحکام کی جدوجہد ہر ملک جاری رکھتا ہے جس کیلئے دیگر ممالک سے تجارتی اور کاروباری رشتے از حد ضروری ہیں۔ دوسروں کیلئے اپنا دروازہ بند کرنا تو متبادل ہے ہی نہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ بھی ایسا نہیں کررہے ہیں۔ ویسے خود انحصاری کوئی نیا فارمولہ نہیں ہے۔ گاندھی جی اس کے اولین نظریہ سازوں میں تھے جنہوں نے ہموطنوں کو سودیشی کی ترغیب دی کہ آپ، اپنا بنایا ہوا خریدیں اور اپنا بنایا ہوا ہی فروخت کریں۔ وہ وقت انگریزوں کی غلامی کا تھا اسلئے پہلا ہدف انگریز تھے۔ گاندھی جی کا کہنا تھا کہ برطانوی ساخت کی اشیاء اور مصنوعات سے گریز کیا جائے۔ اسی لئے اُنہوں نے کپڑا بُننے اور کھادی پہننے کا آغاز کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے:بعد از خرابیٔ بسیار، اسرائیل کو سبق سکھانے کا آغاز
ہم پھر کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نے اس موضوع پر جو کچھ بھی کہا بہت اچھا ہے مگر وہ خود یہ نہیں بتا سکتے کہ اسے کس طرح قابل عمل بنایا جائے۔ گزشتہ گیارہ سال سے اُن کی حکومت ہے اور اس دوران بھی بیرونی ملکوں کو برآمد اور وہاں سے درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ دُنیا کے بیشتر ملکوں سے ہمارے تجارتی تعلقا ت ہیں جہاں سے ہم یا تو درآمد کرتے ہیں یا برآمد کرتے ہیں یا دونوں طرح کی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ رہا سوال چین کا، جس کا ذکر اشارہ ہی میں سہی، خاص طور پر کیا گیا ہے، تو اپنے اس پڑوسی ملک سے درآمد ہونے والی اشیاء پر نگاہ دوڑائی جائے تو نگاہ تھک جائے گی اور اشیاء ختم نہ ہوں گی، کھلونے، بلب، گھڑیاں، ریڈی میڈ، مشنری، کیمیکل، کمپیوٹر، موبائل فون، چھتریاں، رین کوٹ، اِلیکٹرونک آلات، یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ یہ فہرست لامتناہی ہے۔ کیا ہم سوچ بھی سکتے ہیں کہ غیر ملکی اشیاء کا استعمال ترک کردینگے؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ ایسا کربھی سکیں ؟
افسوس کہ جس طرح آتم نربھر کا نعرہ سیاسی تھا، یہ مشورہ بھی سیاسی ہے۔ یہ نہ ہوتا تو وزیر اعظم اعلان کرتے کہ آئندہ دس سال میں ہم مکمل طور پر خود پر منحصر ہونا چاہیں گے جس کیلئے غیر ملکی درآمدات پر انحصار بتدریج کم کیا جائیگا اور دیسی صنعتوں کو استحکام بّخشنے کیلئے حکومت اس حد تک تعاون دیگی کہ وہ ضرورت کی ہر شے خود بنا سکیں اور اُتنے ہی دام میں فروخت کرسکیں جتنے دام میں چینی اشیاء فروخت ہوتی ہیں۔ اس طرح کے عملی اقدام سے دیسی صنعتکاروں اور صارفین میں اعتماد پیدا ہوگا اور ’’وِکست بھارت‘‘ کا سپنا ساکار ہوسکے گا۔ اولین مرحلے میں یہ کیا جاسکتا ہے کہ جو خام مال ہمارے یہاں دستیاب نہیں ہے، وہ بھلے ہی بیرونی ملکوں سے درآمد کیا جائے مگر فائنل پروڈکٹ ہم ہی تیار کریں اور اُسے میڈ اِن انڈیا کہنے پر فخر کریں۔