معیشت کی کارکردگی معیشت کی سرگرمی سے دکھائی دیتی ہے جس کی توثیق اعداد و شمار کے ذریعہ ہوتی ہے۔
EPAPER
Updated: May 26, 2025, 12:47 PM IST | Mumbai
معیشت کی کارکردگی معیشت کی سرگرمی سے دکھائی دیتی ہے جس کی توثیق اعداد و شمار کے ذریعہ ہوتی ہے۔
ملک میں معاش کی صورت حال بہتر ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اس کے امکانات بھی بڑی حد تک معدوم ہیں۔ کل نیتی آیوگ کی میٹنگ میں بتایا گیا کہ ہندوستان نے جاپان کو پیچھے چھوڑ کر چوتھی سب سے بڑی معیشت کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ نیتی آیوگ کے سی ای او بی وی آر سبرامنیم کے مطابق ہندوستانی معیشت اب ۴؍ کھرب ڈالر کی ہو گئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جلد ہی جرمنی پر سبقت لے جاتے ہوئے یہ تیسرے مقام پر فائز ہو جائیگی۔ بقول شری سبرامنیم ، یہ نیتی آیوگ کا ڈیٹا نہیں بلکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا ڈیٹا ہے۔
ڈیٹا کسی کا بھی ہو، ہمارا اپنا ہو یا آئی ایم ایف کا یا ورلڈ بینک کا یا کسی اور ادارہ کا، وہ کاغذ پر ہوتا ہے جسے اعدادوشمار کی مشاقی کے ذریعہ موافق بنا لینا اگر بہت آسان نہیں تو بہت مشکل بھی نہیں ہے مگر ہم اس پر شک نہیں کررہے ہیں، ہمارا مطمح نظر یہ ہے کہ جب معاشی سرگرمیوں میں پہلے جیسا جوش و خروش نہیں ہے، غیرمنظم زمرہ دبکا پڑا ہے، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں خاموش ہیں کیونکہ ٹریڈ یونینوں کا دور ختم ہوچکا ہے مگر ان کے مسائل وقت کے ساتھ بڑھتے ہی گئے ہیں بالخصوص کووڈ کے بعد سے ان کی حالت ناگفتہ بہ ہے تو کس برتے پر یہ مان لیا جائے کہ معیشت نے لمبی چھلانگ لگائی ہے؟ تن و توش کا بڑھنا لازمی طور پر صحتمندی کی علامت نہیں ہوتا۔ صحتمندی چہرے سے بولتی ہے، آنکھوں سے جھلکتی ہے اور حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتی ہے۔ اگر زراعت مشکل دور سے گزر رہی ہے، صنعتی زمرہ نئے اہداف کو نہیں چھو رہا ہے، کاروباری حلقے ناخوش ہیں تو کس بنیاد پر یہ سمجھ لیا جائے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اسے معاشی ترقی ماننا دل پر پتھر رکھنے جیسا ہی ہے۔
معیشت کی کارکردگی معیشت کی سرگرمی سے دکھائی دیتی ہے جس کی توثیق اعدادوشمار کے ذریعہ ہوتی ہے۔ بلاشبہ کچھ انڈسٹریز ہیں جن کے تیور مختلف ہیں اور جن کیلئے امکانات بھی بھرپور دکھائی دیتی ہیں مثلاً الیکٹرک وہیکلس (ای وی)، ۲۰۲۳ء میں اس صنعت نے غیر معمولی پیش رفت کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجہ میں کھپت پندرہ لاکھ بیس ہزار یونٹس تک پہنچ گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۵ء میں اس کا مارکیٹ ۶۶؍ فیصد بڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح ہیلتھ کیئر اور انشورنس کا سیکٹر بھی تیز رفتاری درج کرا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ۲۰۲۸ء تک یہ سیکٹر ۳۲۰؍ ملین ڈالر کی انڈسٹری ہو جائیگا۔ کچھ ایسا ہی حال رینیو ایبل انرجی کا ہے جس میں ۲۰۰۰ء کے بعد ۱۵ء۳۶؍ بلین ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ ۲۰۳۰ء تک اس میں مزید ۳۶۰؍ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔
جہاں تک ہم نے دیکھا اور سمجھا ہے یہی تین سیکٹر ایسے ہیں جن کا گراف اونچا جا رہا ہے۔ ہوسکتا ہے انہی کی وجہ سے اعدادوشمار نے جولانی دکھائی ہو مگر تین سیکٹر، ایک کثیر جہتی معیشت کے ہر سیکٹر کی کمزوریوں کا بار سہہ لیں یہ کیسے ممکن ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ تین سیکٹر ہر مرض کی دوا ہوں اور ان کے ذریعہ وہ تمام گڑھے بھر جائیں جن کی وجہ سے بے روزگاری کم ہونے کا نام نہیں لیتی؟ اگر ہم بہت سے سیکٹرس کے بارے میں صحیح صورتحال سے ناواقف ہیں اور وہ سیکٹرس بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں تو بے روزگاری؟ وہ کیوں کم نہیں ہورہی ہے؟