مراٹھی شاعر راجہ بڑھے کے اس گیت کو، جسے ۱۹؍ فروری ۲۳ء کو ریاستی گیت کا درجہ دیا گیا، اس لئے سرخی بنایا گیا ہے کہ آج ریاست ِ مہاراشٹر کی ۶۵؍ ویں سالگرہ ہے۔
EPAPER
Updated: May 01, 2025, 2:41 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
مراٹھی شاعر راجہ بڑھے کے اس گیت کو، جسے ۱۹؍ فروری ۲۳ء کو ریاستی گیت کا درجہ دیا گیا، اس لئے سرخی بنایا گیا ہے کہ آج ریاست ِ مہاراشٹر کی ۶۵؍ ویں سالگرہ ہے۔
مراٹھی شاعر راجہ بڑھے کے اس گیت کو، جسے ۱۹؍ فروری ۲۳ء کو ریاستی گیت کا درجہ دیا گیا، اس لئے سرخی بنایا گیا ہے کہ آج ریاست ِ مہاراشٹر کی ۶۵؍ ویں سالگرہ ہے۔ اب تک کے ۶۵؍ برسوں میں اس ریاست نے کثیر جہتی ترقی کا نہایت عمدہ ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بامبے اسٹیٹ کے مہاراشٹر اور گجرات میں منقسم ہونے کے بعد سے مہاراشٹر کا جو ترقیاتی سفر شروع ہوا اُسے بے نظیر کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ ریاست ان معنوں میں بہت اہم ہے کہ قومی جی ڈی پی میں اس کا حصہ (۱۳؍ تا ۱۵؍ فیصد) کسی بھی دوسری ریاست سے زیادہ ہے۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر علی الترتیب تمل ناڈو (تقریباً ۹؍ فیصد) اور یوپی (تقریباً ۸ء۵؍ فیصد) ہیں جو مہاراشٹر سے کافی پیچھے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں گجرات کے ترقیاتی سفر کا کافی شہرہ ہوا مگر قومی جی ڈی پی میں گجرات پانچویں نمبر پر ہے۔ اس کی حصہ داری دوگنا ہو تب ہی وہ مہاراشٹر کی برابری کر سکے گا۔
مہاراشٹر کو، یوپی کے بعد، ملک کی دوسری سب سے زیادہ آبادی کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ بہار، مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ فی کس جی ڈی پی کی فہرست میں ملک کی وہی ریاستیں آگے ہیں جن کی آبادی کم ہے۔ مہاراشٹر کو، جو فی کس جی ڈی پی کے جدول میں ۱۲؍ ویں نمبر پر ہے، ابھی اس محاذ پر کافی جدوجہد کرنی ہے۔ تلنگانہ، کرناٹک، گجرات اور کیرالا اس معاملے میں مہاراشٹر سے آگے ہیں مگر آخر الذکر کئی دیگر معاملات میں اتنا آگے ہے کہ دیگر ریاستیں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ مہاراشٹر قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یا ’’پاور ہاؤس‘‘ہے۔ ملک کی کیپٹل اور فنانشیل مارکیٹس اس کیلئے تمغہ ٔ افتخار ہیں۔ ملک کے سب سے زیادہ ٹیکس دہندگان اگر کسی ریاست میں ہیں تو وہ مہاراشٹر ہی ہے۔ یہاں کے ایک کروڑ اکتیس لاکھ افراد چار لاکھ کروڑ سے زیادہ کی رقم آمدنی ٹیکس کی مد میں قومی خزانے کو فراہم کرتے ہیں۔
اقتصادی اعتبار سے مہاراشٹر کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا مگر اس اہمیت کے حصول میں اُن صنعتی سرگرمیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جن سے مہاراشٹر کی پوزیشن مستحکم ہوتی ہے۔ اس میں خاص اہمیت امدادِ باہمی کی اُس تحریک (کوآپریٹیو موومنٹ) کی ہے جس کے تحت شکر اور ڈیری کارخانے نیز مالیاتی ادارے مثلاً بینک اور کوآپریٹیو کریڈٹ سوسائٹیز معرض وجود میں آئیں۔ مہاراشٹر کی ثقافتی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔ یونیسکو کے ذریعہ عالمی ورثہ قرار پانے والی عمارتیں سب سے زیادہ یہیں ہیں۔ سائنسی نقطۂ نظر سے شہر بلڈانہ سے محض ۷۹؍ کلومیٹر کے فاصلے پر ۵۲؍ ہزار سال پرانی سوڈا لیک ، جسے الکلائن یا لونار لیک بھی کہتے ہیں، اپنی اعلیٰ پیداواری صلاحیت اور بائیو ٹیکنالوجیکل اُمور کے پیش نظر کافی اہم ہے۔ یہ جھیل ماہرین محکمہ ٔ آثار قدیمہ، ماہرین ارضیات اور ماہرین نجوم کی خصوصی دلچسپی کا مرکز رہی ہے۔
یہ اور ایسی کئی وجوہات کی بناء پر مہاراشٹر کو ملک کی اہم ترین ریاستوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ یہ سفر جاری رہے اس کیلئے سرکاری پالیسیوں کو ایسی جہت عطا کرنی ہوگی کہ صنعتی پیداوار بڑھے، کوآپریٹیوز ترقی کریں، زراعت فروغ پائے، تجارتی سرگرمیوں کو نئی قوت ملے اور ریاست کی ہم آہنگی محفوظ رہے۔ n