صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ حد سے بڑھتے جارہے ہیں۔ اب سے پہلے اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہند پاک جنگ بندی اُن کی دھمکی آمیز مداخلت سے ہوئی۔
EPAPER
Updated: June 12, 2025, 1:34 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ حد سے بڑھتے جارہے ہیں۔ اب سے پہلے اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہند پاک جنگ بندی اُن کی دھمکی آمیز مداخلت سے ہوئی۔
صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ حد سے بڑھتے جارہے ہیں۔ اب سے پہلے اُنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہند پاک جنگ بندی اُن کی دھمکی آمیز مداخلت سے ہوئی۔ ایک آدھ بار کہہ کر خاموشی اختیار کرلیتے توممکن تھا کہ اس دعوے کو نظر انداز کردیا جاتا مگر وہ بار بار کہتے رہے اور شاید بار بار کہنے کے باوجود اُن کی تسلی و تشفی نہیں ہوئی۔ کم و بیش ایک درجن مرتبہ اُنہوں نے یہ بات دُہرائی۔ کون سا صدر ایسا ہوگا جو ایک ہی بات بارہ مرتبہ دُہرائے؟ کسی کا ذہنی توازن بگڑ گیا ہو تو بات دوسری ہے، یہ تو پورے ہوش و حو اس میں ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کچھ زیادہ ہی ہوش و حواس میں ہیں چنانچہ وہ جان بوجھ کر ہند پاک جنگ بندی کا دعویٰ بار بار کرتے رہے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان اپنے لئے گنجائش پیدا کرسکیں۔
’’اپنے لئے گنجائش پیدا کرنے‘‘ کی اپنی رائے کو ہم اہمیت نہ دیتے مگر اب اس کی توثیق ہو رہی ہے۔ اُنہوں نے یہ کہہ کر اپنے عزائم کو طشت از بام کردیا ہے کہ وہ کشمیر کے موضو ع پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ثالثی کیلئے تیار ہیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے اور شاید ’’مان نہ مان مَیں تیرا مہمان‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔ و ہ غزہ پر مسلط کی گئی جنگ تو رُکوا نہیں رہے ہیں، یوکرین روس جنگ تو ختم نہیں کروا سکے ہیں، اُن کے اپنے ملک میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف جاری مہم سے پیدا شدہ بے اطمینانی سے تو وہ نمٹ نہیں پارہے ہیں، چین اُنہیں آنکھیں دکھاتا ہے اور اُنہی کے لہجے میں بولتا ہے یا جیسے کو تیسا کا طرز عمل اختیار کرتا ہے تب تو وہ کچھ نہیں کہتے بلکہ دو قدم پیچھے ہٹ کر ٹیرف کی اضافی شرح کو موخر کردیتے ہیں مگر کشمیر کا ’’نسلوں پرانا مسئلہ‘‘ ( جسے جنریشنل ایشو کہا گیا) سلجھانے پر بضد ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:راہل نے پینترا کیوں بدلا؟
ہمیں چاہئے کہ اُنہیں صاف لفظوں میں منع کردیں کہ ’’نو سر تھینک یو، ہم اپنے معاملات خود نمٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ‘‘ اور کوئی کمزور یا مختصر وسائل کا محدود ملک نہیں بلکہ ایک سو چالیس کروڑ کی شاندار آبادی کا بھرا پرا، بے شمار وسائل اور قابل فخر صلاحیتو ں کا ملک ہیں، اگر آپ دُنیا کی سب سے پرانی جمہوریت ہیں تو ہم دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں، ہماری آپ کی دوستی تو ہوسکتی ہے مگر آپ کی لادی ہوئی سرپرستی ہمیں گوارا نہیں ہے۔ سر پر سوار ہونے یا پیچھے پڑ جانے کے اس ٹرمپیائی طرزِ عمل کو روکنا بہت ضروری ہے ورنہ بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
آزادی کے بعد سے ہمارا موقف یہی ہے کہ کشمیر، اُس حصے سمیت جس پر پاکستان قابض ہے، ہمارا ہے۔ اس موقف میں یہ بھی شامل ہے کہ ہند پاک تنازع کے تصفیہ کیلئے ہم کسی تیسری طاقت کی مداخلت برداشت نہیں کرینگے۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے یہ ہمارا حق ہے جس کی توثیق عالمی قوانین و ضوابط سے ہوتی ہے۔ مسئلہ کو اپنے طور پر حل کرنے کے اس موقف پر ہم آج بھی قائم ہیں۔ ٹرمپ پر یہ واضح کیا جائے کہ وہ دہشت گردی کے مسئلہ سے نمٹنے کیلئے عالمی لائحہ عمل وضع کریں۔ امریکہ بھی دہشت گردی کا شکار ہوچکا ہے اور ہم ایسے کئی زخم سہہ چکے ہیں۔ وہ، اس نکتے پر تو گفتگو نہیں کررہے ہیں۔ پھر اُنہیں ہماری مدد کرنی ہی ہے تو کئی دوسرے معاملات ہیں مثلاً وہ چاہیں تو اضافی ٹیرف کے شکنجے سے ہمیں دور رکھ سکتے ہیں۔ وہ ایسا نہیں کررہے ہیں اس لئے اُن سے کہنا تو یہ چاہئے کہ ’’مائنڈ یووَور بزنس‘‘ مگر فی الحال ’’نو سر، تھینک یو‘‘ سے کام چلایا جاسکتا ہے۔