Inquilab Logo Happiest Places to Work

تھرور اپنی شبیہ کو مجروح نہ کریں !

Updated: June 28, 2025, 1:50 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ششی تھرور کو سونیا گاندھی مناسکتی ہیں مگر وہ علیل رہتی ہیں ۔ اُنہیں کھرگے جی بھی راضی کرسکتے ہیں مگر اس کیلئے پہل کون کرے گا اور کانگریس کا وہ حلقہ جو تھرور کو ناپسند کرتا ہے وہ اس کیلئے آمادہ کیسے ہوجائیگا؟

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ششی تھرور کو سونیا گاندھی مناسکتی ہیں  مگر وہ علیل رہتی ہیں ۔ اُنہیں  کھرگے جی بھی راضی کرسکتے ہیں  مگر اس کیلئے پہل کون کرے گا اور کانگریس کا وہ حلقہ جو تھرور کو ناپسند کرتا ہے وہ اس کیلئے آمادہ کیسے ہوجائیگا؟ اُنہیں  راہل گاندھی بھی سمجھا بجھا  سکتے ہیں  مگر وہ پارٹی کے اُن تمام سینئر لیڈروں  سے ناراض ہیں  جنہوں  نے پارٹی کی قیادت کے خلاف لیٹر بازی کی تھی۔ اس سے صاف ظاہر ہےکہ برف پگھلنے سے رہی۔ خود تھرور خاموش نہیں  ہیں ۔ وہ پارٹی قیادت کی اجازت لئے بغیر حکومت کی جانب سے ہونے والی پیشکش کو یکے بعد دیگرے قبول کرتے جارہے ہیں ۔ پہلے اُنہیں  مختلف ملکوں  کا دورہ کرنے والے پارلیمانی وفود میں  شامل کیا گیا اور انہوں  نے رخت ِ سفر باندھ لیا۔ تسلیم کہ کانگریس پارٹی کو خود ہی اُن کا نام تجویز کرنا چاہئے تھا مگر چونکہ ایسا نہیں  ہوا تھا اس لئے تھرورصاحب کی ذمہ داری تھی کہ پارٹی کو اس کیلئے راضی کرلیتے۔ اب اُنہوں  نے ایک بار پھر متعدد ملکوں  کے سفر کی ذمہ داری قبول کرلی اور روانہ بھی ہوگئے۔ ظاہر ہے اس بار بھی اُنہوں  نے پارٹی کو اعتماد میں  نہیں  لیا۔ یہ دورہ کیسا ہے اس کا ہمیں  علم نہیں  مگر جس طرح بیرونی ملکوں  میں  وہ اعلیٰ شخصیتوں  سے ملاقاتیں  کررہے ہیں  اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ دورہ اگر سرکاری نہیں  ہے تو پوری طرح غیر سرکاری بھی نہیں  ہے۔ 
 اس دوران اُن کے ایک ٹویٹ نے بھی کافی اتھل پتھل مچائی جس میں  شاخ پر پرندہ بیٹھا ہے اور اس کے نیچے لکھا ہے: ’’اُڑنے کیلئے اجازت درکار نہیں ، پر تمہارے ہیں  اور آسمان کسی کا نہیں ۔‘‘ اس پر اعلیٰ کمان کا خفا ہونا فطری تھا چنانچہ کئی جوابی ٹویٹ چلے۔ پھر ملک نے دیکھا کہ کس طرح ملکارجن کھرگے نے بھی ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ ’’وہ اچھی انگریزی جانتے ہیں  اسی لئے سی ڈبلیو سی میں  شامل کئے گئے۔‘‘ اس میں  یہ طنز موجود تھا کہ وہ زمینی سیاست کے لیڈر نہیں  ہیں  اس کے باوجود اگر سی ڈبلیو سی میں  ہیں  تو اس کا سبب دوسرا ہے۔
  یہ تناتنی کب تک جاری رہے گی کہا نہیں  جاسکتا۔ یہ بھی نہیں  کہا جاسکتا کہ کانگریس اُنہیں  معطل کرے گی یا وہ خود مستعفی ہوں  گے مگر یہ بالکل سچ ہے کہ دونوں  طرف آگ برابر لگی ہوئی ہے۔ ہمیں  افسو س اس بات کا ہے کہ ایک ایسا دانشور، مصنف، مقرر اور سلجھا ہوا ذہن رکھنے والا شخص موضوع بحث بنا ہوا ہے جو سیکولر ہے، روشن خیال ہے، ’’آئیڈیا آف انڈیا‘‘ کا مضبوط ترجمان ہے اور ملک کی گنگا جمنی تہذیب پر فخر کرتا آیا ہے۔ بیان بازی بہت سوں  کے خلاف ہوتی ہے۔ موجودہ سیاست اس کا بُرا بھی نہیں  مانتی مگر جب سیاسی سطحیت کسی ایسے شخص کے قریب آکر ٹھہرتی ہے جس کی شخصیت میں  علمی و ادبی دبازت ہے، تب دل کو ٹھیس لگتی ہے۔ تھرور کو گلہ ہے کہ اُنہیں  کیرالا کانگریس میں  اہمیت نہیں  دی جارہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ وہاں  کا سی ایم بننا چاہتے ہیں  مگر اُن کے نام پر غور نہیں  کیا جارہا ہے، تو کیا وہ اب تک کے اعزازات کو فراموش کردینگے جو پارٹی نے اُنہیں  دیئے؟  کیا اُنہیں  لوک سبھا کا ٹکٹ بار بار نہیں  دیا گیا؟ کیا اپنے اقتدار کے دور میں  کانگریس نے اُنہیں  مرکزی کابینہ میں  شامل نہیں  کیا؟ کیا اب بھی وہ ممبر پارلیمنٹ اور پارلیمانی کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے رکن نہیں  ہیں ؟ تھرور صاحب کیلئے جال بچھایا گیا ہے۔ اُنہیں  اس میں  پھنسنے سے بچنا چاہئے۔ ناراضگی ہے تو دور کرلیں  یا الگ ہوجائیں ۔ مگر اپنی شبیہ کا خیال کریں ۔ اسے ہرگز مجروح نہ ہونے دیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK