• Sat, 01 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مادّی ترقی میں مسابقت کی دُنیا (۲)

Updated: November 01, 2025, 2:34 PM IST | Inquilab News Network | mumbai

وشو گرو ہونے کی تمنا بہت قیمتی ہے مگر اس کیلئے مخلصانہ جدوجہد کو راہ دینے کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت کو نہایت سنجیدگی سے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم میں کون سی خوبیاں ہیں اور کون سی خامیاں ۔ ہمیں خوبیوں کو جِلا بخشنی چاہئے اور خامیاں دور کرنے کی ایماندارانہ کوشش۔

INN
آئی این این
وشو گرو ہونے کی تمنا بہت قیمتی ہے مگر اس کیلئے مخلصانہ جدوجہد کو راہ دینے کی ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت کو نہایت سنجیدگی سے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم میں  کون سی خوبیاں  ہیں  اور کون سی خامیاں ۔ ہمیں  خوبیوں  کو جِلا بخشنی چاہئے اور خامیاں  دور کرنے کی ایماندارانہ کوشش۔ بہار الیکشن کے دوران جو بات تسلسل کے ساتھ دُہرائی جارہی ہے، یہ ہے کہ اہل بہار محنت اور جفاکشی میں  بہت آگے ہیں ۔ ہم تو یہی بات پورے ملک کیلئے کہیں  گے کہ ہندوستان کے شہری ذہانت میں ، صلاحیت میں ، محنت میں  اور سنجیدگی سے اپنی ذمہ داریاں  ادا کرنے میں  آگے ہیں ۔ اس کا اعتراف اُن ملکوں  کے لوگ خاص طور پر کرتے ہیں  جہاں  ہمارے شہری بغرض روزگار مقیم ہیں ۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ بھری پُری آبادی کے اس ملک کو مواقع ملیں ۔ یہ ملک دُنیا کے نقشے پر موجود بہت سے ملکوں  کیلئے مثال بن سکتا ہے۔
کل اسی کالم میں  ہم نے ذکر کیا تھا کہ نئی تکنالوجی کے نت نئے مظاہر کے معاملے میں  ہم اُتنا آگے نہیں  بڑھ سکے جتنا کہ بہت پہلے سے تحقیقی جدوجہد کے ذریعہ ممکن ہوسکتا تھا۔ ا سکی مثال میں  ہم نے کہا تھا کہ ہمارے پاس ایسا کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم نہیں  ہے جسے خانہ زاد کہا جائے اور دوسروں  پر تکیہ کئے بغیر ہمارا کام چل جائے۔ اس سلسلے میں  سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’کو‘‘ (KOO) کی مثال دی گئی تھی جو ۲۰۲۰ء میں  لانچ کیا گیا تھا مگر جولائی ۲۴ء میں  اسے بند کرنا پڑا۔ اس سلسلے میں  ہم نے چیٹ جی پی ٹی کی بھی بات کی تھی کہ اس نوع کا کوئی ایپ ایسا نہیں  ہے جو ہم نے ایجاد کیا ہو جبکہ آئی ٹی میں  ہماری مہارت بے مثال ہے اور امریکہ جیسے لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔ 
آپ کو یاد دِلا دیں  کہ  وزیراعظم نریندر مودی نے اسکل انڈیا مشن کا افتتاح ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۵ء کو کیا تھا۔ اس  کا ہدف یہ تھا کہ ۲۰۲۲ء تک ملک کے ۴۰؍ کروڑ لوگوں  کو ہنرسکھایا جائے تاکہ اُن کیلئے روزگار کا حصول آسان ہوجائے۔ دس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ہم اسکل انڈیا کو روزگار کے حصول کا ذریعہ نہیں  بنا سکے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم اچھے پروگراموں  کو بھی ناکام بنانے کے درپے رہتے ہیں ۔ ایسی صورت میں  وہ مادی ترقی کیسے ممکن ہے جس میں  مسابقت کے ذریعہ ہی دُنیا پر اپنا نقش قائم کیا جاسکتا ہے۔ 
کل کی ایک خبر یہ ہے کہ ٹویوٹا کرلوسکر موٹر کمپنی ۱۰۰؍ ملازمین کو گیارہ ماہ کی ٹریننگ کیلئے جاپان روانہ کررہی ہے۔ یہ گلوبل اسکل اَپ ٹریننگ (جی ایس ٹی) پروگرام ہے۔ ان ملازمین کا جاپان بھیجا جانا چاہے جتنا دلخوش کن ہو، یہ سوال ذہن میں  بہرحال اُبھرتا ہے کہ کیا ہمارے پاس اتنا علم نہیں  ہے کہ یہاں  کی کسی کمپنی کے ملازمین ٹریننگ کیلئے ہمارے ہی ماہرین سے استفادہ کریں  اور اس کیلئے ملازمین کو جاپان جانے کی ضرورت نہ پیش آئے؟ 
حقیقت یہ ہے کہ مہارت ہمارے پاس بھی ہے مگر مہارتوں  کو پھلنے پھولنے کا ماحول اور موقع نہیں  ملتا۔ گاؤں  کی سڑک پر سائیکل میں  خود ساختہ مشین جوڑ کر اُسے موٹر سائیکل بنالینے والے لوگ کہاں  سے ٹریننگ حاصل کرتے ہیں ؟ وہ اپنی ذہانت کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ ایسے ہزاروں  لوگ ملک کے طول و عرض میں  ہیں  جو بلا کی ذہانت کے باوجود غیر متعارف رہتے ہیں  اور تنگی ٔ وسائل کے سبب کبھی کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں  دے پاتے۔ حکومت کو ان پر توجہ کرنا چاہئے۔
tech news Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK