یہ سمجھنا مشکل ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان سے کیوں خار کھائے بیٹھے ہیں۔
EPAPER
Updated: May 19, 2025, 12:54 PM IST | Mumbai
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان سے کیوں خار کھائے بیٹھے ہیں۔
یہ سمجھنا مشکل ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان سے کیوں خار کھائے بیٹھے ہیں۔ ان کے بیانات اور اقدامات سے ہند مخالف رویہ صاف جھلکتا ہے۔ ہندوستانی تارکین وطن کو ہتھکڑیاں لگا کر اور بیڑیاں پہنا کر وطن واپس بھیجنا ایسی شرمناک حرکت تھی جو ان کے منصب کے شایان شان ہے نہ ہی حقوق انسانی کی کوئی دستاویز یا کوئی فارمولہ اس کے جواز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ پوری ہندوستانی قوم کی تحقیر و تذلیل تھی۔ اس کے بعد انہوں نے محصول (ٹیرف) کا تنازع کھڑا کیا۔ اب تک کے کسی صدر کو ٹیرف پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ایسے معاملات باہمی گفت و شنید کے ذریعہ طے کئے جاتے ہیں۔ ٹرمپ گفت کے قائل ہیں، شنید کے نہیں۔ گفت میں بھی وہ شاہی فرمان کا عنصر غالب رکھتے ہیں۔ ظل الٰہی نے جو فرما دیا، فرما دیا۔ حالیہ دنوں میں ہند پاک کشیدگی اور جنگ جیسی صورت حال پر ان کی نام نہاد مداخلت اور پھر یہ دعویٰ کہ میں نے جنگ رکوا دی، کسی بھی صدر کو زیب دینے والی بات نہیں ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی کہ میں نے تجارت منسوخ کرنے کی دھمکی دے کر جنگ رکوائی، دھمکی دینے کے ان کی مزاج کا تصدیق نامہ ہے۔ ہم نے جارج بش سینئر سے لے کر اب تک کے صدور کو دیکھا ہے، ان میں اس طرح دھمکانے اور اپنے طرز عمل کو کسی کارخیر کے طور پر پیش کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ سفارت کاری کی زبان ایسی نہیں ہوتی، لہجہ بھی ایسا نہیں ہوتا۔
یہ بھی پڑھئے: خدا کا دیا سب کچھ ہے، مگر....
اب ان کے ایک اور منصوبے پر سے پردہ ہٹا ہے۔ ایک گلوبل تھنک ٹینک ’جی ٹی آر آئی‘ کے مطابق، روزگار کی غرض سے امریکہ میں مقیم تارکین وطن جو رقومات وطن بھیجیں گے، ان پر ٹرمپ پانچ فیصد ٹیکس لگانا چاہتے ہیں۔ اس سے بھی ان کی تارکین وطن سے مخاصمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ٹیکس ان تارکین وطن پر عائد ہوگا جنہیں امریکہ کی باقاعدہ شہریت حاصل نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تارکین وطن امریکہ میں ہیں تو کسی اور کا نہیں امریکہ ہی کا بھلا کررہے ہیں، وہ اپنی خدمات امریکہ کیلئے دے رہے ہیں۔ ان کا امریکہ میں قیام نہ تو شوقیہ ہے نہ ہی وہ وہاں مفت کی روٹی توڑ رہے ہیں۔ پھر کیوں ان کا قافیہ تنگ کیا جارہا ہے؟ ہرچند کہ یہ ظالمانہ ٹیکس تمام ملکوں کے تارکین وطن پر عائد ہوگا مگر ہندوستان اس کی زد میں زیادہ آئیگا کیونکہ بیرونی ملکوں میں برسرکار ہندوستانی تارکین وطن ہر سال جو ۱۲۰؍ بلین ڈالر ہندوستان بھیجتے ہیں اس کا ۲۸؍ فیصد امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں کی طرف سے آتا ہے۔ اگر پانچ فیصد ٹیکس عائد ہوا تو وطن بھیجے جانے والے اس سرمائے میں کافی کمی آسکتی ہے۔ اگر وطن بھیجی جانے والی اس رقم میں دس تا پندرہ فیصد بھی تخفیف ہوئی تو ہندوستان کو بارہ تا اٹھارہ ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بڑا نقصان ہے اور اس کا براہ راست اثر دو چیزوں پر پڑے گا۔ تارکین وطن پیسہ اپنے اہل خانہ کیلئے بھیجتے ہیں۔ یہ پیسہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضرورتوں پر خرچ ہوتا ہے لہٰذا متاثرہ خاندانوں کو ان دو شعبوں میں روپے پیسے کی تنگی کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس سے معیار زندگی بھی متاثر ہوگی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کا زر مبادلہ بھی کم ہوسکتا ہے اور ڈالر بمقابلہ روپے کی شرح بھی کم ہوسکتی ہے۔ ہمیں ٹرمپ سے کہنا ہوگا کہ اگر آپ ہند پاک جنگ رکوا سکتے ہیں تو کیا ہند امریکہ جنگ نہیں رکوا سکتے جو آپ ہی نے مختلف محاذوں پر چھیڑ رکھی ہے؟