ڈجیٹل دور کا انسان ماضی کے کسی بھی دور کے انسان سے مختلف ہے۔ ان میں سب سے اہم فرق یہ ہے کہ ماضی کا انسان سوچتا تھا، آج کا انسان سوچنا نہیں چاہتا۔ چاہے تو اس کے پاس سوچنے کا وقت بھی نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: July 19, 2025, 1:33 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
ڈجیٹل دور کا انسان ماضی کے کسی بھی دور کے انسان سے مختلف ہے۔ ان میں سب سے اہم فرق یہ ہے کہ ماضی کا انسان سوچتا تھا، آج کا انسان سوچنا نہیں چاہتا۔ چاہے تو اس کے پاس سوچنے کا وقت بھی نہیں ہے۔
قدیمدُنیا کا تصور کیجئے۔ لوگوں کے پاس کتنے وسائل رہے ہوں گے؟ ظاہر ہے کہ کم، بہت کم۔ مگر وہ سوچتے کتنا تھے، غوروفکر میں کتنا وقت گزارتے تھے، اُن کی فکر میں کتنی گہرائی تھی اور ذہن کتنا خلاق تھا؟ تبھی تو آج صدیوں بعد بھی دُنیا البیرونی کو، الفارابی کو، الخورزمی کو، الظواہری کو، بو علی سینا کو، آئنسٹائن، ڈارون، ارشمیدس، فلیمنگ یا نیوٹنکو یاد کرتی ہے۔ یہ ساری شخصیات عالمی تاریخ کا لازمی جزو بن چکی ہیں ۔ ان کے بغیر تاریخ ادھوری ہے۔ ان میں جو جس ملک کا تھا اُس ملک کے لوگ بجاطور پر اُس پر فخر کرتے ہیں مگر کون سا ملک ہے جو ان کے پیش کردہ فلسفوں سے استفادہ نہیں کرتا اور اُن کے احسانات کے بوجھ تلے دبا ہوا نہیں ہے۔ اُنہوں نے انسانیت کو عظیم الشان ایجادات اور انکشافات کا تحفہ نہ دیا ہوتا تو سائنس کی اُس بلندی تک رسائی نہ ہوتی جو بعد کے اَدوار میں ہوئی اور اب عالم یہ ہے کہ بلندی کے سامنے نئی بلندیوں کا ہدف اور ترقی کے سامنے نئی ترقیات کا ہدف ہے۔ مگر ایجادات و انکشافات کے حوالےسے ماضی اور حال کا فرق یہ ہے کہ ماضی میں وسائل نہیں تھے، آج بے شمار ہیں ، ماضی کا ہدف انسانیت کو فیض پہنچانا تھا، حال کا ہدف دولت کمانا ہے۔ نئی ایجادات کے پس پشت کمپنیاں ہیں ، کارپوریشن ہیں اور حکومتیں ہیں ۔ ماضی کے سائنسدانوں کے پیچھے تو کیا آگے اور دائیں بائیں بھی کوئی نہیں تھا۔ نیوٹن باغ میں تنہا بیٹھا تھا جب اُس نے درخت سے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا تھا۔ گیلی لیو پر لوگ ہنستے رہے ہوں گے جب اُس نے ایک عام اور راسخ خیال کی تردید کی کہ کائنات کی ہر شے زمین کے اطراف گھومتی ہے۔ مارکونی کو بھی لوگ مذاق کا نشانہ بناتے رہے ہوں گے جب اُس نے ریڈیائی لہروں کا پتہ لگایا تھا۔
سوچئے، کتنے تنہا تھے یہ لوگ، کتنی مزاحمت کا سامنا کیا ہوگا انہوں نے۔ آج جب یہ اطلاع عام ہوتی ہے کہ ایسی موٹر گاڑی تخلیق کرلی گئی ہے جو اَزخود چلے گی یعنی خود کار ہے تو کسی کو حیرت ہوتی ہے نہ کوئی مزاحمت کرتا ہے۔ عام سے عام انسان حیرت انگیز سے حیرت انگیز اطلاع پر حیران نہیں ہوتا، وہ جانتا ہے کہ دُنیا میں سب کچھ ممکن ہے۔ ممکن اس لئے ہے کہ مشینوں سے مشینیں ایجاد کی جارہی ہیں اور قدیم فلسفوں سے نئے فلسفے اور قدیم نقطہ ہائے نظر سے نئے نقطہ ہائے نظر مرتب کئے جارہے ہیں ۔ مگر یہ تو بڑے دماغوں کی بات اور بڑے دماغوں کا تقابل ہے خواہ آج کے ہوں یا زمانہ قدیم کے۔ سوال عام آدمی کا ہے۔ اُس کا کیا معاملہ ہے؟ دماغ تو اُس کے پاس بھی ہے، سوچنے کی طاقت اور سمجھنے کی صلاحیت تو اُسے بھی میسر آئی ہے، کیا وہ بھی سوچتا ہے، سمجھتا ہے اور غور کرتا ہے؟
نہیں ۔ عہد جدید کا عام انسان دیکھتا اور سنتا زیادہ ہے، سوچتا کم ہے اور غور و فکر تو بالکل نہیں کرتا۔ اُس کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ اطلاعات کی بھرمار کے دَور میں اُس کا دماغ تھک جاتا ہے، ہاتھ پاؤں شل ہوجاتے ہیں اور آنکھیں دکھنے لگتی ہیں مگر اطلاعات کا سلسلہ نہیں تھمتا۔ ایکس (ٹویٹر)، انسٹا گرام، فیس بک، وہاٹس ایپ، فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ، اسمارٹ ٹی وی، یوٹیوب، اُف! ہر جگہ اطلاعات کا بہاؤ اتنا تیز ہے جیسے پانی کا طاقتور ریلہ جو سب کچھ بہا لے جانے کیلئے بے قرار ہو۔ ریل (بر وزن جھیل) پر ریل اور شارٹس پر شارٹس دیکھنے اور دیکھتے رہنے اور مسلسل محظوظ ہونے والا انسان اپنے دماغ سے کیوں سوچے گا جب خاموشی کی زبان میں اُس سے کہا جارہا ہو کہ ہم ہیں نا، ہم سوچ رہے ہیں آپ کیلئے!
یاد رہنا چاہئے کہ دماغ ہر اطلاع کو ایک خاص عمل (پروسیس) سے گزارتا ہے، اُس کے بعد انگیز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے انسان سرسری گزرے، ذہن پر نقش نہیں ہوتی یا یاد کرنے پر فو راً یاد نہیں آتی اور کبھی کبھی تو بالکل یاد نہیں آتی کیونکہ وہ اُس عمل سے نہیں گزری جس کیلئے دماغ کو وقت درکار ہوتا ہے۔ آج کا انسان موبائل لے کر بیٹھتا ہے تو اطلاعات کے سمندر ہی میں غوطہ زن نہیں ہوتا بہت سے دوسرے عددی یا رقمی متون (ڈجیٹل ٹیکسٹ) سے بھی حظ اُٹھاتا ہے۔ وہ ڈرامے بھی دیکھتا ہے، گیت بھی سنتا ہے، تقریریں بھی سماعت کرتا ہے اور مباحثوں سے بھی استفادہ کرتا ہے مگر چونکہ یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اس لئے دماغ اپنے عمل کو جاری نہیں رکھ پاتا جو کسی بھی اطلاع کو انگیز کرنے کیلئے ضروری ہے۔ کسی دن، صبح سو کر اُٹھنے کے بعد یاد کیجئے کہ آپ نے گزشتہ شب یو ٹیوب پر کون کون سے ویڈیو دیکھے اور اُن میں کیا کیا کہا گیا تھا یا کون سے شارٹس دیکھے اور اُن کا موضوع کیا تھا۔ یقین جانئے آپ کو بہت کم باتیں یاد آئینگی، کیوں ؟ اس لئے کہ دماغ ایک وقت میں اتنا ڈیٹا محفوظ نہیں کرسکتا۔ آج کی دُنیا میں ڈیٹا جنریشن کی حد نہیں ہے مگر دماغ کی حد ہے۔ اُس کا کام صرف ریکارڈ کرنا نہیں ، سوچنا اور غور کرنا بھی ہے۔ انسان اُس سے ایک ہی طرح کا کام لینے پر کیوں تُلا ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : عوامی اعتماد جیتنا اُردو والوں کا پہلا کام
ڈجیٹل شعبے کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ پوری دُنیا میں روزانہ وہاٹس ایپ کے ذریعہ ۱۴۰؍ ارب پیغامات بھیجے یا موصول کئے جاتے ہیں اور یوٹیوب پر ۲ء۶؍ ملین ویڈیو اَپ لوڈ کئے جاتے ہیں جن کا مجموعی دورانیہ ۵؍ لاکھ ۸؍ ہزار ۴؍ سو گھنٹے کا ہے۔ اتنا ڈیٹا اس لئے جنریٹ ہورہا ہے کہ اس پر کوئی نگراں نہیں ہے۔ جو درست ہے وہ بھی عوام تک پہنچتا ہے جو درست نہیں ہے وہ بھی۔ جو اچھا ہے وہ بھی جو اچھا نہیں ہے وہ بھی۔ خبر بھی پہنچتی ہے افواہ بھی۔ صحتمند مواد بھی پہنچتا ہے اور مضر صحت مواد بھی۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں یہی فرق ہے نا کہ میڈیا میں ایک ایک سطر ادارتی عملے کی نظر سے گزرتی ہے جو صحیح غلط کی جانچ کرتا ہے، سوشل میڈیا میں کوئی ادارتی عملہ نہیں ہوتا بلکہ ’’ہر چہ آید در گھسیٹ‘‘ یعنی جو بھی آجائے قبول ہے کی حکمرانی ہے۔
دماغ میں اطلاعات کے انگیز ہونے کا عمل رفتہ رفتہ سست ہو رہا ہے اس لئے چیزیں یاد نہیں رہتیں جبکہ ماضی میں کتابیں پڑھنے والے، ایک دوسرے سے ملنے والے، سفر کرنے والے یا گھر میں بیٹھے آپس میں گفتگو کرنے والے لوگ جو کچھ بھی دیکھتے، کہتے اور سنتے تھے اُسے تادیر یاد رکھ پاتے تھے۔ اکثر چیزیں اُن کی شارٹ میموری نہیں لانگ میموری کا حصہ بنتی تھیں ۔ آج شارٹ میموری بھی شارٹس کی نذر ہے، لانگ کی تو بات ہی مت کیجئے۔ اس سے زندگی بھی شارٹ ہورہی ہے،وہ کیسے؟ اس پر آئندہ ہفتے گفتگو ہوگی ۔