انتخابی منشورو ں ہی کو سامنے رکھ کر کچھ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کھلے گا کہ جن سنگھ کے نظریات قدامت پرستانہ تھے۔ موجودہ بی جے پی اُن سے بالکل الگ راہ پر ہے۔
EPAPER
Updated: July 20, 2025, 2:00 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
انتخابی منشورو ں ہی کو سامنے رکھ کر کچھ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کھلے گا کہ جن سنگھ کے نظریات قدامت پرستانہ تھے۔ موجودہ بی جے پی اُن سے بالکل الگ راہ پر ہے۔
اب بی جے پی کی شبیہ کارپوریٹس کی دوست پارٹی کی ہوگئی ہے۔ اس بات کو پارٹی کے ہمنوا بھی تسلیم کرتے ہیں اور یہی بات اس کے مخالفین بھی کہتے ہیں ۔ ہمنواؤں اور حامیوں کا کہنا ہے کہ ملک کو قابل رشک صنعتی ترقی سے ہمکنار کرنا ضروری ہے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ کارپوریٹس کا دوست ہونے کا معنی سرکار اور کمپنیوں کی ملی بھگت (کرونی کیپٹلزم) بالکل واضح ہے۔
لیکن، اس پارٹی نے اپنا آغاز اس شبیہ کے ساتھ نہیں کیا تھا۔ اُس کا موجودہ طرز عمل ماضی سے مختلف ہوسکتا ہے۔ اس میں کوئی دقت نہیں ہے کیونکہ ایسا کوئی ضابطہ نہیں ہے کہ کل آپ نے جس بات کی مخالفت کی تھی آج بھی اُس کی مخالفت کریں ۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو پورا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنا سیاسی مطمح نظر تبدیل کردے مگر اس کے ساتھ ہی ناقدین کو بھی اختیار ہے کہ وہ اس کے تبدیل شدہ مطمح نظر پر سو ال اُٹھائیں ۔ خود کانگریس نے آزاد کاری کی جانب قدم بڑھائے تھے جبکہ اُس وقت پارٹی کے اندر بھی تنقید ہورہی تھی اور ایک مشہور جریدہ ’’اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی‘‘ کے صفحات پر بھی۔ نرسمہا راؤ کو معاشی اصلاحات منظور کروانے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اُنہیں عوام ہی کو نہیں اپنی پارٹی کے اراکین پارلیمان کو بھی اعتماد میں لینے کیلئے بڑی جدوجہد کرنی پڑی تھی۔
بی جے پی نے اُس دور میں جب وہ جن سنگھ کہلاتی تھی، فری مارکیٹ پالیسیوں کی شدید مخالفت کی تھی مگر آج اُن پالیسیوں کو نافذ کررہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ بزنس کو سرکاری دخل اندازی کے بغیر جاری رہنے کا حق (لائیسیز فیئر) ست یُگ میں تھا یعنی وہ پہلا دور جس میں زمین کی حکمرانی عملاً قدرت کے ہاتھوں میں تھی۔ مگر اب حکومت کو بعض اُمور کی ذمہ داری خود نبھانی چاہئے کم از کم معیشت کے اُمور کی۔ ۱۹۵۴ء میں اور پھر ۱۹۷۱ء میں اس پارٹی (جن سنگھ) نے طے کیا تھا کہ ہر ہندوستانی شہری کی زیادہ سے زیادہ آمدنی ۲؍ ہزار اور کم سے کم ۱۰۰؍ روپے ماہانہ ہونی چاہئے تاکہ تناسب ۱: ۲۰؍ ہو۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم کوشش کرینگے کہ یہ تناسب ۱:۱۰؍ ہوجائے۔۲۰۰؍ روپے ماہانہ سے زائد انکم والے شہریوں کی جتنی آمدنی زیادہ ہوگی اُسے حکومت ضبط کرلے گی تاکہ وہ پیسہ ترقیاتی کاموں پر صرف کیا جاسکے۔ پارٹی نے یہ ارادہ بھی ظاہر کیا تھا کہ شہروں میں رہائشی مکانات کا کتنا رقبہ ہو وہ بھی حکومت طے کرے جو کسی بھی خاندان کو ایک ہزار مربع گز (یارڈ) سے بڑا پلاٹ مہیا نہ ہونے دے۔
اُس دور میں جن سنگھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ صنعتی اکائیوں کو مشین لگانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ کام مزدور خود کریں ۔ جن سنگھ زراعتی شعبے میں بھی مشینوں کے خلاف تھا۔ ۱۹۵۴ء میں اس نے کہا تھا کہ کھیتوں میں ٹریکٹر کا استعمال غیر ہموار زمین کو ہموار کرنے کیلئے ہی استعمال کیا جائے اس کے علاوہ کاشتکاری کے دیگر کام کاشتکار خود کریں یا مزدوروں سے کروائیں ۔ اس کے پس پشت ایک مقصد یہ بھی تھا کہ جانور کھیتی میں استعمال ہوں نہ کہ ذبیحہ کیلئے۔ پبلک سیکٹر کمپنیوں کیلئے پارٹی کا کہنا تھا کہ وہ ایسا معاشی نظام تشکیل دے گی جو سرکاری کمپنیوں کو اپنی جگہ برقرار رکھ کر نجی کمپنیوں کو مناسب موقع دے گی۔ صارف اشیاء اور سامان تعیش کی درآمد کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ اُس کی نظر میں سودیشی کا معنی تھا کہ مقامی صنعتوں کو رعایت دی جائے اور بیرونی ملکوں کی اشیاء پر لگنے والے ٹیکسوں سے محفوظ رہا جائے۔ جن سنگھ کا کہنا تھا کہ مزدور یونینوں اور اُن کے ذریعہ ہونے والی ہڑتالوں کو روکا جائے گا۔
۱۹۵۷ء میں پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ معاشی نظام میں `انقلابی تبدیلیاں لائے گی، جو `ہندوستانی اقدار کے مطابق ہوں گی تاہم، انقلابی تبدیلیاں کیا ہوں گی نہ تو اس کی وضاحت کی گئی نہ ہی مستقبل کے کسی منشور میں انقلابی تبدیلی کا یہ موضوع دوبارہ اٹھایا گیا۔ ۱۹۶۷ء میں پارٹی نے کہا کہ وہ ایک منصوبہ بند معیشت کی حامی ہے، لیکن اس منصوبے کو `اس طرح بدلنا چاہے گی کہ خطے اور منصوبے کے لحاظ سے چھوٹی چھوٹی معاشی منصوبہ بندی (مائیکرو اکنامک پلاننگ) ہو۔ اس نے چاہا کہ حکومتی مداخلت کے ذریعہ وہ سب کروائے جو وہ چاہتی ہے، لیکن ہر جگہ نہیں ۔ اس نے نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی لیکن دفاعی شعبے کا استثناء رکھا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: مجھے سوچنے دو کہ کیا سوچنا اور کیوں سوچنا ہے؟
شہری حقوق کے معاملے میں بھی اب پارٹی کا طرز عمل مختلف ہے۔ ایک بار پھر اس یو ٹرن کی وضاحت نہیں کی گئی۔ ۱۹۵۴ء میں جن سنگھ نے کہا تھا کہ وہ آئین میں پہلی ترمیم کو منسوخ کر دیگی جس میں `معقول پابندیاں لگا کر آزادیٔ اظہارِ رائے کی تحدید کی گئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ایسی تبدیلی نہیں ہے جس کو کسی چیلنج کے بغیر رہنے دیا جائے لیکن ۱۹۵۴ء میں آزادیٔ اظہار رائے، افراد کا اجتماع اور اُن کا آپس میں ارتباط وغیرہ کی باتیں جن سنگھ کے انتخابی منشوروں سے غائب ہوگئیں ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جن سنگھ حفظ ماتقدم کے تحت ہونے والی گرفتاری کے قانون کو منسوخ کرنے کا طرفدار تھا اور اسے انفرادی آزادی سے متصادم سمجھتا تھا۔ انتخابی منشور میں یہ وعدہ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں بار بار کیا گیا مگر ۱۹۶۷ء کے بعد اس کا وعدہ بدل گیا اور اس نے کہنا شروع کیا کہ حفظ ماتقدم کے طور پر ہونے والی حراستوں میں خیال رکھا جائیگا کہ ملک میں خلل پیدا کرنے والے عناصر کو بنیادی حقوق کے استحصال کی اجازت نہ دی جائے۔ پھر دُنیا نے دیکھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ جن سنگھ اور بی جے پی احتیاطی حراست کے سب سے پرجوش علمبردار بن گئے اور اب ان کی پالیسی یہ ہے کہ ’’جیل ہو، بیل نہ ہو۔‘‘
اس پس منظر میں اگر آپ پوچھیں کہ پارٹی کی طرز فکر میں اتنی بڑی تبدیلی کیوں آئی اور اس نے تبدیلی کی وضاحت کیوں نہیں کی تو اس کا سبب یہ ہے کہ ابتداء میں اُنہوں نے اپنی پالیسی پر غور نہیں کیا تھا اور اس کا طریق کار ردعمل ظاہر کرنے جیسا تھا کہ کانگریس کچھ کررہی ہے تو اُس سے مختلف یا بہتر کرنے کا وعدہ کیا جائے تاکہ رائے دہندگان پر اثر انداز ہوا جاسکے مگر جب کانگریس نے ۱۹۹۱ء میں اپنی پالیسی بدلی تو اسے بھی اپنا طرز عمل بدلنا پڑا۔