• Wed, 17 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے

Updated: September 17, 2025, 1:53 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

منی پور میں خانہ جنگی بھڑکنے کے ۲۸؍ ماہ بعد وزیراعظم نریندر مودی کو اس شمال مشرقی ریاست کا دورہ کرنے کا خیال آیا۔ اپنے طوفانی دورہ میں انہوں نے تقریر بھی کی اور ترقیاتی پروجیکٹس کا اعلان بھی کیا لیکن نہ تو نسلی متحاربین کی دشمنی ختم کرانے کیلئے کوئی سرکاری لائحہ عمل پیش کیا اور نہ ہی صوبے میں امن اور قانون کی حکمرانی کو پائیدار بنانے کا کوئی قابل عمل روڈ میپ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 انگریزی کی ایک پرانی کہاوت ہے کہ اگر (پھٹے ہوئے کپڑے میں ) وقت پر ایک ٹانکا لگا دیا جائے تو نو ٹانکے لگانے کی نوبت نہیں  آئے گی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چھوٹی سی پریشانی کو اگر فوری طور پر حل کرلیا جائے تو وہ بعد میں  کوئی بڑا اور پیچیدہ مسئلہ نہیں  بن پاتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے غالباً یہ انگریزی کہاوت نہیں  سنی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ منی پورمیں  نسلی خانہ جنگی بھڑکنے کے ۲۸؍ ماہ بعد انہیں  اس بدقسمت شمال مشرقی ریاست کے دورے کا خیال آیا۔ منی پور میں  سول سوسائٹی اور دہلی میں  حز ب اختلاف پچھلے ڈھائی سال تک یہ کہتارہاکہ وزیر اعظم کو ساری دنیا کی سیر کرتے کی فرصت ہے لیکن انہیں  منی پور جانے کی توفیق نہیں  ہوتی ہے۔کسی مسئلے سے نظریں  چراناکوئی ہمارے وزیر اعظم سے سیکھے۔
قارئین اچھی طرح واقف ہیں  کہ مودی جی مرکز اور صوبے میں  ایک ہی پارٹی کی حکومت کے فوائد بیان کرتے نہیں  تھکتے ۔ انہوں  نے سارے ملک میں  اقتدار حاصل کرنے کے منصوبے کو دلفریب بنانے کی خاطر اس کیلئے ’’ڈبل انجن کی سرکار‘‘کی اصطلاح وضع کرلی۔دلی میں  ۲۰۱۴ء اورمنی پور میں  ۲۰۱۷ء سے بی جے پی کی حکومت ہے اور اسی لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈبل انجن والی سرکاروں  کی موجودگی میں  ہنستا کھیلتا خوشحال منی پور تباہ و برباد ہوگیا۔ صوبے میں  نسلی نفاق تو پہلے بھی تھا لیکن خانہ جنگی جیسی صورتحال تو بی جے پی کے عہد میں  ہی پیدا ہوئی۔ ڈبل انجن سرکار کی موجودگی کے باوجود منی پور کئی ہفتوں  تک نسلی تشدد کی آگ میں  جلتا رہا۔لوگ قتل ہوتے رہے، خواتین بے آبرو کی جاتی رہیں ، گھر جلائے جاتے رہے اور معاشرے میں  لاقانونیت بڑھتی رہی۔ ۲۵۰؍سے زیادہ لوگ مارے گئے اور ۶۰؍ہزار سے زیادہ بے گھر ہوکر سرکاری پناہ گاہوں  میں  کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردئے گئے لیکن مودی جی خاموش رہے۔
 وزیر اعظم نے منی پور کا دورہ کرنے میں  ہی نہیں  بلکہ منی پورکی صورتحال پر اظہار خیال کرنے میں  بھی کافی دیر کردی۔ دنیا جہان کے موضوعات پر’’من کی بات‘‘کرنے والے وزیر اعظم کی زبان سے منی پور میں  مئی ۲۰۲۳ء میں  نسلی تشدد بھڑکنے کے ڈھائی ماہ بعد تک ایک لفظ بھی نہیں  نکل پایا تھا۔ جب دو کوکی عورتوں  کومیتئی ہجوم کے ذریعہ برہنہ کرکے پریڈ کروانے کا ویڈیو کلپ وائرل ہوا تب جاکر مودی جی کواپنی چپی توڑنا پڑی۔ انہوں  نے تسلیم کیا کہ اس واقعے نے سارے ملک کوشرمسار کیاہے۔ منی پور کو شرمسار کرنے والوں  میں  صوبے کے وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ بھی شامل ہیں ۔ریاست کے سربراہ کو ہر تعصب سے پاک ہوناچاہئے اور تمام شہریوں  کے ساتھ مساویانہ اور منصفانہ سلوک کرنا چاہئے لیکن بیرین سنگھ پر جن کا تعلق میتئی برادری سے ہے یہ الزام لگتے ر ہے ہیں  کہ وہ کوکی باشندوں  سے بھید بھاؤ برتتے ہیں ۔ان کی پولیس پر یہ الزام ہے کہ جب میتئی تخریب کاروں  نے کوکی باشندوں  پرحملے کئے تو وہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ 
وزیر اعلیٰ پر یہ سنگین الزام ہے کہ وہ انتہا پسند میتئی گروہ کی سرپرستی کرتے ہیں  جو کوکی قبائلیوں  کے خلاف محاذآرائی میں  سب سے زیادہ سرگرم تھی۔ ایک آڈیو ٹیپ لیک ہوا جس سے یہ انکشاف ہوا کہ بیرین سنگھ نے میتئی گروہوں  کو سرکاری اسلحے اور گولے بارود لوٹنے کی اجازت دے دی تھی۔ اتنے سنگین الزامات کے باوجود بیرین سنگھ حکومت کو برخواست کرنے کی منی پور کے باشندوں  اور اراکین اسمبلی کے مطالبوں  کو مودی حکومت مسلسل مسترد کرتی رہی۔ جس وزیر اعلیٰ نے اپنی نااہلی، عصبیت اور مجرمانہ غفلت سے منی پو ر میں  خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرادی اسے مودی سرکار نے بیس ماہ تک اقتدار سے نہیں  ہٹایا۔
منی پور میں  اس سال فروری میں  وزیر اعلیٰ کو ہٹاکرصدارتی راج تب نافذکیا گیا جب پانی سر سے اونچا جاچکا، جب ریاست کے باشندوں  کے درمیان ایک نادیدہ دیوار کھڑی ہوگئی، جب صوبہ دو حصوں  میں  پوری طرح تقسیم ہوگیا اورجب کوکی قبائلی میتئی علاقوں  میں  اورمیتئی باشندے کوکی علاقوں  میں  قدم رکھنے سے خوف کھانے لگے۔ مودی جی کے دورے کے دن بھی منی پور کا یہ سماجی، نسلی اور سیاسی بٹوارہ پوری طرح عیاں  تھا۔وزیر اعظم کو کوکی باشندوں  سے چوراچاندپور میں  اور میتئی لوگوں  سے راجدھانی امپھال میں  علیحدہ علیحدہ خطاب کرنا پڑا۔منی پور میں  نفرت اور نفاق کی خلیج اتنی گہری ہوچکی ہے کہ کوکی باشندے اپنے لئے ایک علاحدہ یونین ٹیریٹیری کا مطالبہ کررہے ہیں ۔منی پور نے وزیر اعظم کو یہ پیغام دے دیا کہ میتئی اور کوکی ’’ایک ہی چھت کے نیچے‘‘رہنے پر آمادہ نہیں  ہیں ۔
 

یہ بھی پڑھئے : ہند۔چین تعلقات اب کس رُخ پر ہوں گے ؟

مودی جی نے پہاڑوں  (جہاں  کوکی رہائش پذیر ہیں ) اور وادی(جہاں  میتئی بستے ہیں )کے درمیان ہم آہنگی اور مفاہمت کا پل تعمیر کرنے کی اپیل کی۔ لیکن یہ اپیل کرنے میں  وزیر اعظم نے دیر کردی۔پل وہاں  بنائے جاتے ہیں  جہاں  رابطے منقطع ہوجاتے ہیں ۔ منی پور میں  تو رشتے ٹوٹ چکے ہیں ۔ ویسے بھی اپیلوں  سے دلوں  کے زخم نہیں  بھرتے ہیں  اور نہ ہی ٹوٹے ہوئے اعتماددوبارہ بحال ہوتے ہیں ۔ مودی جی نے منی پور کا طوفانی دورہ تو کیا اور تقریریں  بھی کیں  تاہم انہوں  نے نہ تو نسلی متحاربین کی دشمنی ختم کرانے کے لئے کوئی سرکاری لائحہ عمل پیش کیا اور نہ ہی صوبے میں  امن اور قانون کی حکمرانی کو پائیدار بنانے کا کوئی قابل عمل روڈ میپ۔ان کے دورے سے نہ تو کوکی اور نہ ہی میتئی باشندے مطمئن نظر آئے۔ ان کے اس اعلیٰ سطحی دورے کے اختتام کے بعد صوبے میں  عام تاثر یہ پایا گیا کہ وزیر اعظم نے وکاس اور خوشحالی کی میٹھی میٹھی باتوں  سے عوام کو بہلانے کی کوشش کی اور جو سلگتے ہوئے ایشوز تھے ان پر خاطر خواہ توجہ مرکوز نہیں  کی۔مودی جی کے ۷؍ہزارکروڑ کے ترقیاتی پروجیکٹس کے اعلان سے منی پورمیں  نہ امن قائم ہوگا اور نہ ہی بھائی چارہ۔ گھر میں  جب دو بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں  اس وقت گھر کے بڑوں  کو فوری مداخلت کرکے ان کے گلے شکوے دور کرانے اور گھر میں  اتحاد اور ہم اہنگی قائم کرانے کی پرخلوص کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے بجائے گھرکے مربی اگر نیا فریج یا نیا ائیر کنڈیشنڈخریدنے کا اعلان کرکے یہ سمجھ لیں  کہ گھر میں  جھگڑے بند ہوجائینگے تو اس سے بڑی خام خیالی اور کیا ہوسکتی ہے؟
  زخم جب تازہ تھااس وقت اگر اس پر مرہم لگادیا گیاہوتاتو وہ بہت جلد بھر جاتا لیکن اگر زخم زیادہ پرانا ہوجائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے۔ منی پور کا سینہ توزخموں  سے چھلنی ہے اور مودی جی مرہم لے کر دو سال بعد پہنچے۔منی پور کو یہ شکایت تو ہمیشہ رہے گی کہ مودی جی نے صوبے کا دورہ کرنے میں  بہت دیر کردی۔

manipur Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK