شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میںمودی اورشی جن پنگ کی ملاقات دونوںممالک کے درمیان سرحدی تناؤ کے تناظر میںہوئی لیکن ملاقات بہر حال خوشگوار رہی اوراس سے مثبت نتائج کی امید ہے۔
EPAPER
Updated: September 16, 2025, 2:37 PM IST | manoj joshi | Mumbai
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میںمودی اورشی جن پنگ کی ملاقات دونوںممالک کے درمیان سرحدی تناؤ کے تناظر میںہوئی لیکن ملاقات بہر حال خوشگوار رہی اوراس سے مثبت نتائج کی امید ہے۔
عالمی اسٹیج پر اس وقت وزیر اعظم مودی کی چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تصویر یں چھائی ہوئی ہیں ۔محسوس ہوتا ہےکہ اس ملاقات کو امریکی میڈیا بالخصوص میڈیا کا ٹرمپ حامی طبقہ ، ایک معمولی (یا امریکہ کیلئے پریشان کن) نمائشی ملاقات کے طورپرپیش کررہا ہے ۔ تیانجن میں ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں مودی اور شی جن پنگ کے درمیان ملاقات خوشگوار رہی ۔ یہاں روس کے صدر پوتن بھی تھے۔شی جن پنگ ،پوتن اور مودی نے اس اجلاس میں ایک پلیٹ فارم پر نہ صرف میڈیا کی ساری توجہ حاصل کرلی بلکہ انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کو بھی ایک واضح پیغام دیا ۔وزیر اعظم مودی اورچینی صدر شی جن پنگ کے درمیان یہ ملاقات ایسا نہیں ہےکہ گلوان تنازع کے بعدتعلقات کی بحالی کی طرف کوئی نیا قدم ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہوبلکہ ہندوستان اور چین کے درمیان اس تنازع کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جمود کے خاتمہ کی کوششیں پہلے بھی ہوچکی ہیں ۔ ۲۰۲۰ء میں ہوئےگلوان تنازع کے جن کو ہندوستان اور چین نے پہلی بار اکتوبر ۲۰۲۴ء میں بوتل میں بند کرکے تعلقات کی بحالی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔۲۰۲۲ء میں انڈونیشیا کے بالی میں ہوئی جی ۲۰؍ سمٹ کے حاشیہ پرملاقات کے بعدکازان میں ۱۶؍ ویں برکس کانفرنس کے موقع پر بھی وزیر ا عظم مودی اور صدرشی جن پنگ کے درمیان بات چیت ہوئی تھی ۔
تیانجن میں ہوئی مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات کا مقصد اس سرحدی تنازع پر زور دینا تھا جس نےفی الوقت مجموعی دوطرفہ تعلقات پر کافی اثر ڈالا ہے ۔مودی نے شی جن پنگ کو بتایا کہ ’’ سرحد پرفوجی تناؤ کم ہونے کے بعد اب امن اور استحکام کی فضا قائم ہے۔‘‘ انہوں نے دو طرفہ تعلقات کے مسلسل فروغ کیلئے سرحد پر امن کی اہمیت پر زور دیا۔ دوسری طرف جن پنگ نے چین کے موقف کو ان الفاظ میں دہرایا کہ سرحدی کشیدگی کودونوں ممالک کے مجموعی تعلقات کا رخ طے کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ ‘‘ تاہم، دونوں نے اتفاق کیا کہ وہ ’شراکت دار ہیں حریف نہیں ‘ ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ ’اختلافات کو تنازعات میں تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔‘‘تیانجن میں دونوں لیڈروں کے درمیان یہ ملاقات نتیجتاًمثبت رہی ۔ اہم معاہدے پچھلے ۲؍ مہینوں میں ہندوستانی اور چینی حکام کے درمیان بات چیت کے ذریعے پہلے ہی طے پا چکے ہیں ۔
یہاں یہ نشاندہی ضروری ہےکہ تیانجن میں ہندچین سربراہوں کی ملاقات راست دوطرفہ نہیں تھی بلکہ یہ ایک بین الاقوامی کانفرنس کے حاشیہ پر تھی ۔ راست سرکاری دوطرفہ ملاقات میں جو کچھ سامنے آسکتا تھا ،اس کی توقع یقیناً اس ملاقات سے نہیں کی جا سکتی تھی لیکن اس سے اس بات کی اہمیت میں کوئی کمی نہیں آتی جو ہندوستان اور چین کے تعلقات کو معمول پر لانے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ موجودہ جغرافیائی سیاسی صورتحال سے پیدا ہوتی ہے جس کا تعلق امریکہ کی بالادستی سے بھی ہے۔
اس سے پہلے ہندوستان شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے اجلاس سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکا تھا، لیکن، اس بار، مودی کانفرنس میں پوتن اور شی جنگ پنگ جیسے رہنماؤں کے ساتھ فعال طورپر موجود رہے اور متحرک انداز میں گفت وشنید کی۔ اس مرتبہ ایس سی او سمٹ کے پس منظر میں پہلگام دہشت گردی کے واقعےکابھی پہلوتھاجس کی اجلاس میں مذمت کی گئی۔
خلاصہ یہ کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس وہ پلیٹ فارم ثابت ہوا جہاں ہندوستان اور چین تعلقات کی بحالی میں از سر نومشغولیت کو تقویت دیتے نظر آئے۔ سربراہی اجلاس کیلئے زمین تیار کرنے کا کام حالیہ مہینوں میں کیا گیا تھا، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے جون میں بیجنگ کا دورہ کیا اور جولائی کے وسط میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر چین گئے تھے ۔ ان دوروں کے نتیجے میں روابط کچھ خوشگوار ہوئے اورچین کے وزیر خارجہ وانگ ای اگست میں نئی دہلی وارد ہوئے اور انہوں نے ایس جےشنکر سے ملاقات کی ۔ وانگ ای چین کی قومی سلامتی کے مشیریا نمائندہ خصوصی(ایس آر) بھی ہیں اور اس عہدے کے لحاظ سے انہوں نے اجیت ڈوبھال سے بھی ملاقات کی ۔وانگ ای اوراجیت ڈوبھال کے درمیان ہوئی میٹنگ میں میں کئی فیصلے کیے گئے تھے جن میں سب سے اہم فیصلہ یہ تھا کہ سرحدی تنازع کا تصفیہ ۲۰۰۵ء کے سیاسی معیارات اور معاہدے کے مطابق کیاجائے۔ دونوں فریقوں نے مشاورت اور تعاون کیلئے ورکنگ میکانزم کے تحت ایک ماہر گروپ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا جس کی ذمہ داری یہ دیکھنا تھاکہ سرحدی تنازع کے مکمل تصفیہ سے پہلے فریقین ابتدائی طورپر کن نتائج تک پہنچ سکتے ہیں ۔ تصفیہ اگرچہ مکمل بیان نہیں کیا گیا لیکن اس کا تعلق تبت-سکم کی سرحد وں کا تعین معلوم ہوتا ہے جو ۱۸۹۰ء کے اینگلو چائنا کنونشن کے ذریعے تشکیل پائی تھیں ۔
یہ بھی پڑھئے : پلاسٹک سے پاک جدید معاشرہ کا تصورممکن ہے؟
شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس نے ہندوستان اور چین کے درمیان تعلقات کی بحالی کا موقع یقیناًفراہم کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہندوستان مغرب سے لاتعلق ہونے جارہا ہے یا اس کا ایسا کوئی منصوبہ ہے۔ فی الوقت حالات ایسے ہیں کہ ہندوستان کو روس سے دوستی برقراررکھتے ہوئے امریکہ کابھی شراکت دار رہنے کی ضرورت ہے؟ لیکن ، جہاں تک چین کا تعلق ہے، جب تک سرحدی تنازعات پوری طرح حل نہیں ہوجاتے اور بیجنگ کی اسلام آبادکے ساتھ قربت عروج پر رہتی ہے، ہندوستان اور چین کے تعلقات ایک حد تک ہی رہیں گے۔
ہندوستان۔امریکہ کے تعلقات میں فی الحال جو کشیدگی آئی ہے ، اس کی ایک وجہ ٹرمپ اور مودی کی اپنی اپنی انا ہے اوردوسری ٹرمپ کے ٹیرف کی وہ پالیسی ہے جس سے تعلقات کی تلخی جلد دورہوتی نظر نہیں آتی ۔ توقع ہےکہ ہند۔ امریکہ تعلقات میں یہ جو جمودآیا ہے وہ جلد ختم ہوجائے گا لیکن اتنا تو ہے کہ ٹیرف اب ہندوستان کیلئے ناقابل فراموش ہے اور ہندوستان اب کبھی امریکہ کوقابل اعتباراور قابل اعتماد شراکت دار کے طورپر نہیں دیکھ سکتا، بالخصوص اس پہلو سے جب بات تزویراتی لحاظ سےہندوستان کی خودمختاری کی ہو ۔ہندوستان اورچین کے درمیان جہاں تک موجودہ تعلقات کی نوعیت ہے تو یہ مسابقت ،تعاون ،تصادم اورقابوپانے کی ہے۔کچھ وقت پہلے تک دونوں تصادم اورایک دوسرےپر قابو پانے کی حالت میں تھےاوراب تعاون اور مسابقت کی حالت میں ہیں ۔
(بشکریہ این ڈی ٹی وی )