• Sat, 20 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بہت آساں سمجھتے ہو یہ فن مشکل سے آتا ہے!

Updated: December 20, 2025, 1:42 PM IST | Shahid Latif | mumbai

آکسفورڈ انگلش اُردو ڈکشنری (مرتبہ: شان الحق حقی) میں پیرنٹنگ (Parenting) کا معنی ’’ والدین کے مشاغل و مسائل‘‘ دیا گیا ہے۔ چونکہ حالات بدلے اور اس موضوع میں کہیں زیادہ وسعت آگئی ہے اس لئے یہ مفہوم تشنہ لگتا ہے۔

INN
آئی این این
اس سوال کا جواب کہ معاشرہ کدھر جارہا ہے، بہت آسان ہے اگر یک سطری جواب دینا ہو، جیسے معاشرہ خرابی سے مزید خرابی کی طرف جارہا ہے، مگر، اس سوال کا بامعنی، ٹھوس اور جامع جواب دینا جس سے ظاہر ہو کہ معاشرہ پر رائے دینے والا معاشرہ کے مسائل بشمول انسانی رویہ پر غوروخوض کرتا رہا ہے، بہت مشکل ہے۔ زندگی کی دوڑ بھاگ میں  کسی سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ حالات کا تجزیہ کرتا ہوگا اور صحیح نتائج برآمد کرتا ہوگا خود کو دھوکہ دینے جیسا ہے۔ آج کے دور کا انسان جتنا مصروف ہے اُس سے زیادہ مبتلا ہے۔ وہ اپنے فارغ وقت کو تعمیری سرگرمیوں  میں  صرف نہیں  کرتا۔ وہ سوچنے سمجھنے کی زحمت نہیں  کرتا۔ غور کرنا اُس کے معمولات کا حصہ نہیں  ہے۔ چونکہ غور و فکر کی عادت نہیں  رہی اسلئے ذہن میں  سوالات نہیں  اُبھرتے اور چونکہ سوالات نہیں  اُبھرتے اسلئے جوابات کی تلاش نہیں  ہوتی اور چونکہ جوابات کی تلاش نہیں  ہوتی اس لئے جوابات نہیں  ملتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو سوالات اُس کے اپنے ہونے چاہئے تھے، نہیں  ہیں  بلکہ وہ جن چیزوں  (میڈیا، سوشل میڈیا وغیرہ) سے ’’استفادہ‘‘ کرتا ہے وہاں  پہلے سے تیار شدہ سوالوں  کے تیار شدہ جوابات ہیں ۔ آدمی اُنہی میں  خوش اورمطمئن رہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ 
ایسے میں  یہ سوچنے کی کس کو فرصت ہے کہ اولاد کی تربیت کس نہج پر ہونی چاہئے۔ اولاد جیسی نعمت کا حال یہ ہے کہ اگر خود رو پودوں  کی طرح نہیں  ہے تو اُن پودوں  کی طرح ضرور ہے جن پر کم کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ اولاد کو کھلا پلا دینا، اچھا پہنا دینا، اس کی تعلیمی ضرورتوں  کو پورا کردینا سب کچھ نہیں  ہے۔ جی ہاں  سب کچھ نہیں  ہے بالخصوص ایسے دور میں  جب نونہالوں  پر ماں  باپ اور گھر کے بڑوں  سے زیادہ بیرونی دُنیا کا اثر ہے۔ اسی لئے نوعمروں  کے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ بے دلی، بد دلی، اُکتاہٹ، بے اعتنائی، خود فراموشی، تنہائی، منفی خیالات۔ اکثر ماں  باپ تو جانتے ہی نہیں  کہ اُن کی اولاد کس کیفیت میں  ہے۔ کتنوں  کو پتہ ہی نہیں  کہ اُس کے ذہن میں  کیا چل رہا ہے، اس کی ذہنی و دلی کیفیت کیا ہے اور کون سی طاقتیں  اُس کی جانب دام پھیلا رہی ہیں ۔ اسے خود ستائی پر محمول نہ کیا جائے تو عرض کروں  کہ ایک حالیہ تقریب میں  جب مَیں  نے ان باتوں  کی طرف توجہ دلائی تو والدین کے چہروں  پر تشویش اور فکرمندی کے آثار نظر آئے جس سے اندازہ لگانے میں  دیر نہیں  لگی کہ شاید میری باتوں  میں  اُن کے احساسات کی ترجمانی کا عنصر شامل ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے۔ دورِ حاضر میں  بحیثیت والدین، بچوں  کی صحیح پرورش و پرداخت، اُن کی جذباتی اور نفسیاتی رہنمائی ، اُن میں  اخلاق و اقدار کا شعور، آدابِ زندگی کی تعلیم اور اُن کی شخصیت میں  دبازت اور گہرائی و گیرائی پیدا کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ ان تمام ذمہ داریوں  کو محیط ہے انگریزی اصطلاح پیرنٹنگ۔ اس کا درست متبادل جاننے کیلئے اس مضمون نگار نے آکسفورڈ انگلش اُردو ڈکشنری (مرتبہ شان الحق حقی) سے رجوع کیا تو وہاں  جو معنی ( ’’والدین کے مشاغل و مسائل‘‘ صفحہ ۱۱۸۸) ملے وہ اس مفہوم کا احاطہ نہیں  کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چو طرفہ بگاڑ کی وجہ سے اب جو حالات پیدا ہوئے ہیں  اُن میں  والدین کا کردارپہلے سے کہیں  زیادہ توجہ اور انہماک چاہتا ہے، وہ پہلے نہیں  تھے۔ یہ بھی تھا کہ سابقہ ادوار میں   والدین تربیت کے اُصولوں  سے آگاہ تھے، اُن کی پاسداری کرتے تھے اور اولاد کے تئیں  سرپرستی اور رہنمائی کا حق ادا کرنے میں  کوتاہی نہیں  کرتے تھے۔ 
ایک دشواری یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں  پیرنٹنگ پر نہ تو لیکچرس ہوتے ہیں  نہ سمینار۔ کتابیں  بھی نہیں  لکھی جاتیں ۔ دوسری دشواری یہ ہے کہ جب کبھی اس موضوع پر گفتگو ہوتی ہے، بڑے روایتی انداز میں  مسائل کے حل کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔ تیسری دشواری یہ ہے کہ اظہار ِ خیال کرنے والے اکثر لوگ نئی نسل کے مسائل کے ادراک کے بغیر حل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چوتھی دشواری یہ ہے کہ بیشتر محفلوں  میں  ’’وَن وے ٹریفک‘‘ ہوتا ہے یعنی ہم کہتے چلے جاتے ہیں ، جن کیلئے کہہ رہے ہیں  وہ سننے کے روادار نہیں  ہیں ۔ پانچویں  دشواری یہ ہے کہ والدین، جنہیں  پیرنٹنگ کے فن سے آگاہ ہونا چاہئے، اس کی ضرورت محسوس نہیں  کرتے، وہ سمجھتے ہیں  کہ اُن کا انداز ِ تربیت بہترین ہے اور کوئی اُنہیں  کیوں  سکھائے۔ چھٹی دشواری یہ ہے کہ پیرنٹنگ جیسے موضوع کو اب تک ہمارے معاشرہ میں  اہمیت حاصل نہیں  ہوئی۔ اس پر گفتگو کیلئے چند لوگوں  کو یکجا کرنے کی کوشش کیجئے، معلوم ہوگا کہ مدعوئین حیرت زدہ ہیں  کہ پیرنٹنگ کیا ہوتی ہے اور یہ کہ یہ بھی کوئی سیکھنے کی چیز ہے!
 
 
مغربی ملکوں  میں ، جو ہمیں  ایک آنکھ نہیں  بھاتے، پیرنٹنگ باقاعدہ موضوع ہے، اس پر کہا سنا جاتا ہے، لکھا جاتا ہے، پڑھا جاتا ہے اور اس کی فکر کی جاتی ہے۔ میرے ایک شناسا نے کسی مغربی ملک کے ایک آرٹ ایگزیبیشن کا ذکر کیا تھا کہ جب وہ وہاں  گئے تو دیکھا کہ ہال میں  کوئی نہیں  ہے سوائے ایک خاتون کے۔ اُس کا چھوٹا سا بیٹا یا بیٹی ٹرالی میں  ہے۔ وہ ایک ایک تصویر دیکھتی جاتی ہے اور اُس کی خصوصیات بیان کرتی جاتی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے وہ خود کلامی کررہی ہو۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ آپ کس سے گفتگو کررہی ہیں  تو اُس کے چہرے پر حیرت کے آثار نمایاں  ہوئے اور اس نے کہا: ’’آپ دیکھ نہیں  رہے؟ مَیں  اپنی اولاد کو رنگوں  اور لکیروں  کی معنویت کے بارے میں  سمجھا رہی ہوں ۔‘‘
اُس خاتون کو علم تھا کہ بچہ ابھی سمجھنے اور بولنے کے قابل نہیں  ہوا ہے مگر اُس سے جو کچھ بھی کہا جائیگا وہ اس کے لاشعور میں  محفوظ رہے گا اور اس کے ذہن کی تشکیل میں  معاون ہوگا۔ 
اس مثال کی روشنی میں  سوچئے کہ ماضی میں  نانیوں  اور دادیوں  کا بچوں  کو کہانیاں  سنانا، اخلاق کی تعلیم دینا کتنا اہم تھا۔ کون جانتا ہے کہ اُس وقت کے کتنے بچے نانی دادی سے کہانیاں  سن کر اور اخلاق کی تعلیم پا کر قیمتی بن گئے اور پھر ایک نسل کی تربیت کا فریضہ انہوں  نے انجام دیا۔ تب بڑی آسانیاں  تھیں  اور نئی نسل پر خارجی دُنیا کا اثر نہیں  تھا جو اَب ہے اس لئے اَب صرف کہانیاں  سنانے سے کوئی بڑا فائدہ نہیں  ہوگا۔ والدین کو سمجھنا ہوگا کہ پیرنٹنگ کامعنی کیا ہے اور یہ کیسا فن ہے جس کا سیکھنا موجودہ دور میں  لازمی مانا جارہا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK